کیاجمعہ کےدن خطبہ کےوقت جواذان دی جاتی ہےاس سےپہلےاذان دیناجائزہےیانہیں تاکہ لوگوں کوکچھ جلدی اطلاع ہوجائےتاکہ جمعہ کےخطبہ ونمازکےلیےتیارہوجائیں؟
خطبہ کےوقت(جمعہ کےدن)جواذان دی جاتی ہےاس سےپہلےبھی اذان دیناجائزہے۔دلیل اس کی وہ حدیث ہےجوبخاری شریف میں‘‘باب الاذان عندالخطبه’’كے تحت میں مذکورہے۔ملاحظہ فرمائیے!
‘‘امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید(یہ صغیرصحابی ہیں)سےسناجوفرمارہے تھے کہ جمعہ کے دن اذان حضرت رسول اللہﷺاورحضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کے زمانے تک اس وقت دی جاتی جب امام منبرپرآکر(خطبہ کے لیے)بیٹھتاتھا،پھرجب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیااورآدمی بھی بہت ہوگئےتو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیسری اذان (یعنی خطبہ کےوقت اذان اوراقامت کے علاوہ )کاامرفرمایا:پھروہ اذان زوراءکےمقام پردی گئی۔’’
پھر یہ بات اورحکم اسی پر ثابت رہا اوربیہقی کی سنن کبری میں یہ الفاظ زائدہیں۔
‘‘حتى الساعة’’یعنی اس وقت تک یہ حکم ثابت ہے ۔اس حدیث سے مسئلہ مبحوث فیہاہراستدلال بایں طورہےکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان(خطبہ کے وقت پہلی اذان)بڑھادی اوروہ خلفائے راشدین نے اس میں کوئی شک نہیں کیا اوردوسرے سب صحابہ نےبھی اس سے اختلاف نہیں کیا بلکہ اس بات پر اپنی رضامندی کا اظہارفرمایاجس پر‘‘فثبت الأمرعلى ذلك حتى الساعة’’کےالفاظ دلالت کررہے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس حکم کو نہیں بدلااوران کے دورخلافت میں بھی اس پر قائم رہا۔بلکہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کےزمانہ میں بھی یہی بات بحال رہی اوریہی آخری صحابی ہیں جوخلافت پر متمکن ہوئے ۔یہ بات کیونکہ معلوم ہوئی ؟اس کے لیے یہ گزارش ہے کہ امام زہری سنہ٥۰پچاس ہجری کے بعدتولدہوئے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سنہ٤۰چالیس ہجری میں وفات پاچکے تھے اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ٦۰ساٹھ ہجری میں وفات پاچکےتھے گویااس وقت امام زہری آٹھ نوبرس کے بچے ہوں گے یعنی ان خلفاء رضی اللہ عنہم کا زمانہ کماحقہ انہوں نے نہیں پایالیکن جب حضرت سائب یزید رضی اللہ عنہ سے(زہری)حدیث بیان فرماتے ہیں اس وقت یہ غالبا سن شباب کو یا کھولت کو پہنچ چکے ہوں گے اوراسی وقت صحابی مذکورہ نے ان سے روایت بیان کی اورصحابی یہ فرمارہے ہیں کہ یہ بات یعنی اذان ثانی جوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بڑھادی تھی،ثابت ہوئی۔(اس صحابی نے سنہ٩١ہجری میں وفات پائی)
خلاصہ کلام:......یہ کہ ان خلفاء راشدین کا زمانہ گزرچکالیکن انہوں نے اس کام کوتغیرنہیں دیااوراس کو بندکیا۔لہذا سب صحابہ کا اس پر اجماع ہوگیااورآنحضرتﷺکے صحابہ کا اجماع حجت ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
میری ساری کی ساری امت گمراہی پراتفاق نہیں کرے گی،اگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل صحیح نہ ہوتا توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر ضرورمعترض ہوتے اوراس پر اتفاق قطعانہ کرتے ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے حال کو اپنے حال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے ان کا حال امربالمعروف ونہی عن المنکرمیں وہ تھا کہ ہمارے تصورسےبھی بالاترہے وہ اس بات میں کسی لومۃ لائم یاکسی حاکم(خواہ کتنا ظالم ہو)سے خوف نہیں کھاتے تھے اوربغیر کسی پس وپیش کے حق کو ادافرماتےتھے جب رسول اللہﷺنے یہ فرمایاہے:
‘‘یعنی تم میری سنت اورخلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑلو۔’’
لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ یہ سنت دوراشدخلیفوں کی سنت ہے(یعنی حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہما)توہمیں آپ کے ارشادگرامی کے مطابق اس کو پکڑلیناچاہئے،البتہ چونکہ آنحضرتﷺکے زمانے میں یہ اذان نہیں دی جاتی تھی لہذا اگرکوئی نہیں دیتا تواس پر بھی طعن ونشنیع نہیں کرنی چاہئے یعنی جومسجدوالے یہ اذان ثانی دیتے ہیں وہ بھی اچھاکرتے ہیں اورجونہیں دیا کرتے بلکہ صرف خطبہ کے وقت والی اذان دیتے ہیں وہ بھی کوئی برانہیں کرتےلہذا دونوں پرطعن ونشنیع کرناانصاف سےبعید ہے،باقی یہ جو حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امرفرمایاکہ زوراء پر اذان ثانی دی جائے وہ لو گوں کی سہولیات کی وجہ سے تھا
تاکہ سب لوگوں کو جمعہ کی نمازوخطبہ وغیرہ کے وقت قریب ہونے کا علم ہوجائے اس لیےیہ ضروری نہیں کہ اس اذان کو خواہ مخواہ باہرجاکرکسی مقام پردیناچاہئے بلکہ جہاں سے بھی آوازلوگوں تک پہنچ جائےصحیح ہے۔
مثلا مسجد کے مینارپریامسجد میں ہی کسی بلند جگہ پرکھڑے ہوکراذان دی جائے یاآج کل مسجدوں میں لاوڈاسپیکرلگائے جارہے ہیں،پھر وہیں لاوڈاسپیکرکےقریب ہی کھڑے ہوکراذان دینی چاہئے یعنی مقصدآوازپہنچانا ہے اوریہی محققین کا مسلک ہے۔