فاسدعقیدہ رکھنے والے اورخلاف سنت نماز پڑھنے والے کے پیچھے یا زانی فاسق امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟
فاسدعقیدہ رکھنے والےمرادغالباایساآدمی ہےجوان باتوں پر صحیح اعتقادنہیں رکھتاجن پر ایمان کا مدارہے،اگریہی سائل کی مرادہےتوایسےآدمی کے پیچھے قطعانمازنہیں ہوتی کیونکہ جس کا عقیدہ صحیح نہیں ہے وہ اسلام کے دائرہ سے خارج ہے،کیونکہ قرآن حکیم فرماتا ہےکہ:
اس آیت سے صراحتا معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کی مقبولیت مشروط ہے ایمان صحیح کےموجودہونے سےیعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس نے بھی نیک اعمال کئے مردہوخواہ عورت بشرطیکہ وہ مومن ہوتووہ جنت میں داخل کیا جائے گا۔اوراس سے ذرہ برابرظلم نہ ہوگا۔اب اگر ایمان ہی صحیح نہیں ہے تواس کے اعمال صالحہ کب مقبول ہوں گے؟
اورنماز یقینا اعمال صالحہ میں سے ہے لہذا جس کا ایمان صحیح نہیں ہے اس کی نماز بھی مقبول نہ ہوگی۔جب اس کی نماز مقبول نہ ہوئی تواس کے پیچھے اقتداکرنا سراسرفضول ہوگاباقی رہافاسق وفاجراورخلاف سنت نماز پڑھنے والاسوان کے متعلق بھی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو امام نہیں بنانا چاہئے۔علاوہ ازیں جو خلاف سنت نماز پڑھتا ہے وہ بدعتی ہےاوربدعتی کو امام بنانااس کی بدعت کو فروغ دینا ہے اوربدعتی کا احترام(بلاکسی مجبوری کے)بھی گناہ ہے ذیل کی احادیث ملاحظہ کی جائیں۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اپنی جامع میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
‘‘یعنی جناب حضرت رسول اللہﷺفرماتے ہیں تین آدمی ہیں ان کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی (یعنی اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبولیت کاشرف حاصل نہیں کرتی)(1):ایک بھاگاہواغلام حتی کہ اپنے مالک کی طرف لوٹ آئے۔
(٢):وہ عورت جورات گزارے اس حال میں کہ اس کا شوہراس پر ناراض ہو۔
(٣):وہ امام جس کی اقتداکوقوم ناپسند کرتی ہو۔’’
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
اسی طرح ابن ماجہ میں بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے لیکن اس میں مذکورہ آدمیوں کے ساتھ تیسرے آدمی کے لیے‘‘وآخران يتصارمان’’کے الفاظ آئے ہیں یعنی تیسرے وہ دوآدمی جنہوں نے محض دنیاوی معاملات کی وجہ سے ایک دوسرے سے قطع تعلقی کی ہے ۔(حافط عراقی فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے)
ان احادیث سے معلوم ہواکہ جوامام اس حالت میں نماز پرھاتا ہے کہ مقتدی اس سے ناراض ہیں تو اس کی نمازمقبول نہیں ہوتی اورظاہر ہے کہ جو فاسق وفاجرہویا فاسد عقیدہ کاحامل ہو یا سنت کے خلا ف نماز پڑھتا ہو اس کے پیچھے مقتدی برضاورغبت قطعانمازنہیں پرھ سکتے الایہ کہ مقتدی بھی ان ہی جیسے فاسق ومبتدع ہوں۔
اب چونکہ ایسے آدمی کی اقتداکرتے ضرورہوں گے لیکن دل میں وہ ان سے ضرورناراض ہوں گے اوراس کو سخت ناپسند کرتے ہوں گے اس لیے اس کی نماز قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرے گی۔جب خود امام کی نماز ہی مقبول نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھ کرکیا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
لہذا ایسے امام کے پیچھے ہرگز نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔علاوہ ازیں امام حاکم حضرت مرثدغنوی رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں حضرت رسول اللہﷺسےروایت کرتے ہیں کہ:
‘‘نبی کریمﷺفرماتے ہیں کہ اگرتم کو یہ بات خوش لگتی ہے یا اگر تم پسند کرتے ہوکہ تمہاری نمازمقبول ہوتوتمہاری امامت بھی وہ لوگ کرائیں جو تم میں سے اچھے ہوں۔’’
اس حدیث نے توواضح کردیا کہ امام اس کو بنانا چاہئےجواچھاہوورنہ پھرمقتدیوں کی بھی نماز قبول نہ ہوگی اوراس کی وجہ سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ایسے مبتدع وفاسق کو امام بنانااس کی بدعت کو فروغ دینا ہےاوراس سے فسق وفجورکا احترام ظاہر ہوتا ہے اوریہ چیزانتہائی بری ہے لہذا چونکہ مقتدیوں نے بھی ایسے امام کا احترام کیا ہے اوراس کی بدعت کےفروغ میں ممدومعاون ہوئے ہیں لہذا ان کی نماز بھی مقبولیت کے شر ف سے محروم ہوجائےگی۔