نمازمیں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ جہراپڑھناسنت ہےیاسرا۔بعض شیوخ کامئوقف ہے کہ جہراپڑھنا ضروری ہے آیایہ ان کا مئوقف درست ہے مہربانی فرماکرفریقین کے دلائل سے واضح کریں کہ صحیح مسلک کیا ہے؟
نمازمیں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سراپڑھناافضل ہے۔
دلائل درج ذیل ہیں:صحیحین کی احادیث متفقہ طورصیحہ ہیں اس لیے ان کی احادیث کی سندیں نہیں لکھوں گا۔
(1):امام محدثین امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت کرتے ہیں:
‘‘اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺاورشیخین رضي الله عنهم نمازمیں قراءۃ ان الفاظ یعنی الحمدللہ رب العالمین سے شروع فرماتے اوریہ نص ہے اس باات پرآپﷺاورشیخین رضي الله عنهم قراۃ کی ابتداء میں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ جہرانہیں پڑھاکرتے تھےبعض افاضل نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید میں اس حدیث صحیح وصریح کا یہ جواب دیا ہے کہ اس حدیث میں الحمداللہ رب العالمین سے مرادسورۃ فاتحہ ہے کیونکہ صحیح حدیث میں فاتحہ کا نام‘‘الحمداللہ رب العالمین’’بھی آیا ہے لہذااس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قراۃ سورۃ فاتحہ سے شروع فرماتےاس کا یہ مطلب نہیں کہ ان الفاظ سے شروع فرماتے۔
الجواب یہ صحیح ہے کہ سورۃ فاتحہ کا نام‘‘الحمداللہ رب العالمین’’صحیح حدیث میں واردہےلیکن یہاں اس حدیث میں اس سے سورۃ فاتحہ مرادلینا بہ چندوجوہ ممنوع ہے۔یہ چندوجوہ میں نے اپنی کتاب‘‘تحصيل المعلاة’’میں تفصیل کے ساتھ درج کی ہیں جوعربی میں خاص اس مسئلہ پر راقم الحروف نے تالیف کیا ہے ۔اس جگہ طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک وجہ درج کرتا ہوں جو صحیح السند حدیث ہے ۔ثابت اوراس بات کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کہ اس جگہ مرادیہی ہے کہ قرات ان الفاظ (الحمداللہ رب العالمین)بلاجہربِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ)سے ہی فرماتے تھے۔
(٢):امامابویعلی الموصلی اپنی مسند میں فرماتے ہیں:
اس حدیث کی سند اصح الاسانید میں سے ہے اوراس میں بعض صریح یہ بیان ہے کہ آپﷺ،ابوبکر،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم قراۃ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سے شروع نہیں کرتےتھے۔راوی وہی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں اورباقاعدہ الحديث يفسر بعضه بعضامسندابى یعلی کی یہ صحیح السند حدیث صحیح بخاری والی حدیث کی وضاحت کردیتی ہے کہ وہاں بھی مرادقراۃکی شروعات ان الفاظ(الحمداللہ رب العالمین)سے کیا کرتے تھے۔بات توبالکل واضح ہے ۔لیکن انصاف مطلوب ہے اورتعصب واعتساف سے اجتناب ضروری ہے۔یہی روایت امام ابویعلی اسی سند میں اپنے ایک دوسرے شیخ سے بھی لاتے ہیں۔
اوریہی حدیث امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کےفرزندامام عبداللہ بھی مسندکےزیادات میں ابوداودطیالسی کے طریق سے لائے ہیں۔اسی طرح امام اسماعیل بھی اس حدیث کو لائے ہیں(ابوداودطیالسی کے طریق سے اوراسی طرح ابونعیم اصفہانی بھی اس حدیث کو اپنی مستخرج میں لائے ہیں ابوداودطیالسی کے طریق سے جیساکہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے النکت میں ذکرکیاہے۔
(٤):امام مسلم بن الحجاج رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:
آگے پھرفرماتے ہیں:
((حدثنامحمد بن المثنى قال ثناابوداودقال ثناشعبة فى هذاالاسنادوزادفقلت لقتادة اسمعت من انس قال نعم ونحن سالناه عنه.))اس جگہ صحیح مسلم کی حدیث کی سند ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض فضلاءنے امام مسلم کی ایک حدیث میں ایک علت پیش فرمائی ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں،اس لیےمیں نے بمع سند یہ حدیث ذکرکی ہے اوراس کی سند میں وہ علت بالکل نہیں ہے اورسند صحیح ہے۔
اس حدیث سے بھی واضح طورپر معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺاورخلفاءثلاثہ راشدین رضی اللہ عنہم
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ جہرانہیں پڑھاکرتے تھے،اس لیے حضرت انس خادم رسول اللہﷺقراۃ کی ابتداء میں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سن نہ سکے۔بعض افاضل عصریہ نے اس طرح گل افشانی کی ہے کہ عدم سماع سے عدم جہرالازم نہیں آتا ہوسکتا ہے کہ آدمی امام سے دورہواوراس کی آواز سن نہ سکے لہذا اس صحیح حدیث سے بسملہ کا عدم جہرثابت نہیں ہوتا۔
لیکن یہ احتمال درست نہیں ۔اس کے درست ہونے کے وجوہ ایسی واضح ہیں کہ ہرمنصف مزاج اہل علم تھوڑے سے غوروفکرسے ان کے بطلان کی وجوہ کو پاسکتا ہے۔
یہ درست اس لیے نہیں کہ اللہ کے رسولﷺکے ایک جلیل القدرصحابی جس نے آپ کی خدمت دس سال کی ۔سفرو حضر میں آپﷺکے ساتھ رہے ،یعنی یہ صحابی خادم رسولﷺاپنی طویل صحبت کے باوصف یہ بھی نہ سن سکا کہ آپﷺ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيم جہراپڑھتے تھے نہیں یا وہ ہمیشہ دانستہ بالکل دیرسےنمازکے لیے آتے اوربالکل آخری صفوں میں کھڑے ہوتے جس کی وجہ سے وہ بسم اللہ سن نہ سکے ارلطف یہ کہ الحمد للہ رب العالمین توسن لیابِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نہ سن سکافياللعجب وضيعة الادب’’
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺکی وفات کے بعدخلفاء راشدین ثلاثہ کے ساتھ بھی ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے اوراس طویل مدت میں بھی وہ ان خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نہیں سن سکاصرف الحمد للہ رب العالمین ہی سن سکااس بات میں کہاں تک معقولیت ہے وہ آں محترم خود سوچیں ہم کہیں گے توشکایت ہوگی۔
بہرحال اس احتمال کا فسادوبطلان اظہرمن الشمس ہے ہاں اگر کسی کو نظر نہ آئے تو اس کا کیا علاج ہے۔
اس حدیث کی سند کے رواۃ‘‘عن آخرهم حفاظ ثقات واثبات’’ہیں اوریہ سندبھی اصح الاسانید میں سے ہے۔اس میں تصریح ہے کہ اللہ کے رسولﷺاورخلفاءثلاثہ ابوبکر،عمروعثمان رضی اللہ عنہم نماز میں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ جہرسے نہیں پڑھتے تھے۔
اوریہ ہی حدیث امام نسائی بھی اپنی مجتبی میں لائے ہیں اورسند میں سعید بن ابی عروبہ کے ساتھ شعبہ کو بھی ملایاہے جس سے قتادہ کی تدلیس کا شبہ رفع ہوجاتا ہے اس کے یہ الفاظ ہیں۔
اس کے بعد چند اوراحادیث بھی ذکر فرمائی ہیں جن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے قتادہ کی متابعت کرنے والے دوسرے ثقات رواۃ کاذکر ہے۔
لیجئے جناب!یہاں‘‘لم اسمع’’کے ساتھ جہرکی نفی بھی آگئی۔کیا اب بھی ‘‘لم اسمع’’کےمتعلق وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہنے پر اصرارکیا جائے گا؟ا س حدیث کے رواۃبھی سب کے سب ثقہ وثبت ہیں۔
یہ حدیث امام ابن خزیمہ نے بھی اپنی صحیح میں احوص بن جواب کے طریق سے ذکرکی ہے۔
(٨):امام نسائی اپنی مجتبی میں فرماتے ہیں:
یہ حدیث بھی صحیح الاسناد ہے اوراس کے سب رجال ثقات ہیں اوراس پر امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ترک الجہربِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِکاباب منعقدفرمایاہے۔
آگے امام بیہقی فرماتے ہیں کہ امام سفیان ثوری سے حسین بن حفص نے بھی یہ روایت کی ہےاوراس میں یہ کہا‘‘لايجهرون’’اور‘‘لايقرون’’نہیں کہا۔اس حدیث کی سندبھی حسن ہے باقی بعض علماء نے جو اس حدیث کے متعلق اضطراب کی علت پیش کی ہے وہ قطعا صحیح نہیں اس میں چونکہ تفصیل زیادہ ہے اس لیے اس جگہ اس کا ذکر کرنامناسب نظر نہیں
آتااگرکسی اہل علم کو اس کے متعلق شرح صدر کے ساتھ تحقیق مطلوب ہوتووہ میری کتاب‘‘تحصيل المعلاة’’عربی کی طرف مراجعت فرمالے۔ان شاءاللہ العزیزان کے سب شکوک رفع ہوجائیں گے۔
(١۰):امام طبرانی اپنی معجم کبیر میں فرماتے ہیں:
علامہ ہیثمی مجمع الزوائد:ج٢’ص ١۰٨میں فرماتے ہیں(رجاله موثقون)اس روایت کے سب رجال موثق ہیں اوریہ سند حسن ہے ۔اس حدیث میں بھی صراحت ہے کہ آنحضرتﷺاورابوبکروعمررضی اللہ عنہمابِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سراپڑھاکرتے تھے۔
(١١):امام بخاری رحمۃ علیہ فرماتے ہیں:
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اس حدیث سے معلوم ہوا حضرت عبداللہ بن امغفل رضی اللہ عنہ
بھی آنحضرتﷺاورابوبکروعمر رضی اللہ عنہماسے عدم الجہربسم اللہ نقل کررہا ہے۔
(١٢):حافظ ابن حجراپنی کتاب‘‘النكت’’میں فرماتے ہیں کہ امام اسماعیلی‘‘مسندزيدبن ابي انيسة’’میں اس تک(یعنی زید بن ابی انیسہ تک)صحیح سند سے روایت بیاکرتےہیں اوروہ کہتے ہیں کہ:
اس حدیث کی سند بھی صحیح ہے اوراس میں حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺنےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ جہرانہیں پڑھی۔
(١٣):حضرت ابوهريره رضی اللہ عنہ كی حدیث یہ صحیح مسلم ،موطامالک،امام بخاری جزءالقراۃ،ابوداود،نسائی،امام احمدمسندمیں ،امام ابن خزیمہ اپنی صحیح میں ابوعوانہ وغیرہم نےروایت کی ہے ۔اس جگہ ہم یہ روایت امام نسائی کی مجتبی سےنقل کررہے ہیں۔اس پر امام نسائی اس طرح باب باندھتے ہیں:
پس یہ حدیث صحیح اس بات میں صریح ہے کہ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورۃ فاتحہ کی آیت نہیں ہے ورنہ آپﷺسورۃ فاتحہ کی تقسیم میں اولاضروربِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِکوذکرکرتےاوراس پر اتفاق ہے کہ فاتحہ کی سات آیات ہیں اورآپﷺنے‘‘إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ’’کوآیت قراردیاجیساکہ متن حدیث میں مذکورہے اوراخیرمیں فرمایا‘‘فهولاء’’جواسم اشاره جمع کا صیغہ ہے اوراسےقطعا ویقینا آیات ہی مرادہیں یعنی‘‘ٱهْدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلْمُسْتَقِيمَ’’سے لے کراخیرتک تین آیتیں ہیں ایک‘‘ٱهْدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلْمُسْتَقِيمَ’’دوسری‘‘صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ’’اورتیسری‘‘غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ’’اورمیرے پاس لائبریری میں چندقرآن کریم کے نسخے ہیں مخطوط بھی مطبوع بھی جن میں‘‘صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ’’پرآیت کا نشان لگا ہوا ہےاگر‘‘ٱهْدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلْمُسْتَقِيمَ’’سے لے کرآخرتک دوآیتیں ہوتیں جیساکہ جہرابسملہ کے قائلین کا خیال ہے توآپﷺ‘‘فهولاء’’نہ فرماتے بلکہ ہاتان یا اس کے مثل کوئی لفظ فرماتے یعنی جمع کا صیغہ ہرگزاستعمال نہ کرتے اورپھران حضرات کے موقف پر یہ سوال بھی پیداہوتا ہے کہ اس طرح تواللہ اوربندے کے درمیان آیات نصفانصفانہیں بنتیں حالانکہ حدیث کا متن اس پر گواہ عدل ہے کہ یہ تنصیف آیات کے لحاظ سے ہے۔
لہذاان حضرات کے مئوقف کے لحاظ سے اللہ تعالی کے لیے توتین آیتیں ہوئیں
﴿١﴾ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿٢﴾ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ بلکہ ان حضرات کے مسلک کے مطابق بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کوملاکرچارآیتیں بنتی ہیں اورایک آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ مشترک ہوئی اوربندہ کے لیے صرف دوآیتیں رہ گئیں۔تویہ نصف کیسے ہواپھراس کے ساتھ یہ سوال بھی بجاطورپرسامنے آتاہے کہ جب بسم اللہ فاتحہ کی آیت ہی تھی توآپﷺنےاس کو آخرچھوڑاکیوں؟کیااس سے آپ کی ذات پر الزام نہیں آتا؟
پھرجب خود اللہ کے رسول علیہ السلام بھی بسملہ کو فاتحہ کی آیت شمارنہیں کیا تو آپ کون ہوتے ہیں اس میں اس کا اضافہ کرنے والے؟
شاید کوئی علم حدیث سےناواقف یہ کہے کہ سنن کبری دارقطنی وغیرہ میں اس حدیث میں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کاذکر ہے تواس کے بارہ میں یہ گزارش ہے کہ اس کی سند میں ابن سمعان متروک ومتہم راوی ہے لہذا یہ روایت قطعامقبول نہیں خودامام ددارقطنی وغیرہ نے یہ تصریح فرمادی ہے کہ یہ زیادتیبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِکی ابن سمعان کی کارستانی ہے اوروہ متروک ومہتم ہے اس کےسوائے اورسب روایات صحیحہ میں اس زیادتی کا ذکر نہیں ہے۔
بہرحال جب صحیح حدیث کے بموجب بسملہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے توفاتحہ کو جہراپڑھتے ہوئے بسملہ کا جہراپڑھنا بھی ضروری نہیں رہایہ بسملہ استعاذہ وغیرہ کی طرح ہے جو سراپڑھےجاتے ہیں کیونکہ یہ فاتحہ کی آیات نہیں ہیں۔اس میں شک نہیں کہ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ قرآن کریم کی آیت مستقلہ ضروراوریقینی وحتمی ہے لیکن کسی سورت کی بھی جز نہیں ہے یہ اللہ تعالی کی جانب سے دوسورتوں میں فصل کے لیے اورسورت کی ابتدامیں تیمن وتبرک کے لیےنازل ہوئی تھی۔صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ایک سورۃ جس میں تیس ٣۰آیتیں ہیں یعنی سورت الملک’’پارہ٢٩اس نے ایک آدمی کے لیے سفارش کی اوروہ بخش دیاگیا اوروہ عذاب قبرسےروکنے والی ہے ۔اوریہ ظاہر ہے کہ اگر بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ہرسورت جزہے توسورت ملک کی آیتیں اکتیس٣١بنتی ہیں۔پھر اللہ کے رسولﷺنے تیس آیتیں کیسے قراردیں۔
باقی رہاسورت توبہ میں اس کا نہ لکھا جانا وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہی ایسا ہوا ہے اس کی حکمتیں علماء نے بیان کی ہیں لیکن اس تفصیل کی یہاں جگہ گنجائش نہیں شائقین کو میری کتاب‘‘تحصيل المعلاة’’كامطالعہ کرناچاہیئے۔اس صحیح حدیث پر جوکہ صحیح مسلم کی بھی ہے۔
بعض علماء نے کچھ اعتراضات کئے ہیں یا اس میں کوئی علت نکالی ہے لیکن کوئی بھی ان میں سے علت قادحہ پیش نہیں کرسکاتفصیل‘‘تحصيل المعلاة’’میں ملے گی۔بڑے سےبڑے ناقدین فن جیسے امام ابوزرعہ رازی وغیرہ نے بھی اس کی تصیح فرمائی ہے۔(كماذكره الترمذي في علل الكبير)اس حدیث سے بھی وضاحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ بسملہ جہرانہیں پڑھنی چاہیئے۔
(١٤):حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث امام احمد رحمۃ اللہ علیہ المسند میں فرماتے ہیں:
اس حدیث کے رجال بھی سب کے سب ثقات ہیں اورحافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ‘‘النكت’’میں فرماتے ہیں کہ یہ اسنادصحیح ہے اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ جہرانہیں پڑھاکرتے۔اگرکہاجائے کہ اس کے معارض وہ حدیث ہے جوامام احمدوغیرہ نے حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں ابن جریج)جوتیسرے مرتبہ کامدلس ہے(كمافى طبقات المدلس لابن حجررحمة الله عليه)اورامام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس شرالتدلیس ہے۔ایسے رواۃ کی جب تک سماع یا تحدیث کی تصریح نہ کریں ان کی روایت مقبول نہیں ہوتی ۔یہ روایت ایک یا دوکتابوں میں نہیں بلکہ حدیث کی بہت سی کتب میں موجود لیکن ایک جگہ پر بھی ابن جریح نے سماع کی تصریح نہیں کی لہذا یہ سندضعیف ہوئی اورجب سند ضعیف ہوئی توحدیث بھی ضعیف ہوگئی لہذا مستردونامقبول ہوئی۔
پھر لطف کی بات یہ ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ رعنہاکی اسی حدیث کو امام حاکم مستدرک میں ایک دوسرے طریق سے ابن جریج سے روایت کرتے ہیں لیکن اس میں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ذکرنہیں۔امام حاکم فرماتے ہیں:
دیکھئے اس حدیث میں بھی ابن جریج کی تدلیس کے سوائے اورکوئی علت نہیں لیکن اس میں بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کاذکرنہیں۔اب اگرانصاف مطلوب ہے تواس روایت کوترجیح ہونی چاہئے گواس میں بھی تدلیس ابن جریج ہے لیکن یہ روایت اس سندسےاس صحیح حدیث حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والی سے متفق ہوجاتی ہےاوردوسری احادیث جن میں عم جہربسملہ کی تصریح ہے ان سے بھی متفق ہوجاتی ہے ۔لہذا یہی راجح ہونی چاہئے اگرآپ ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں توپھربتائیے پہلی روایت کےقبول کرنے پر اصرارکیوں؟اس میں بھی توابن جریج کی تدلیس ہے اوراس پر طرہ یہ کہ وہ دوسری احادیث صحیح کے بھی قطعی طورپرمخالف ہے۔
بہرکیف یہ روایت سنداضعیف ہےلہذا اس کو معرض استدلال میں پیش کرنے اوراس کومذکورہ صحیح حدیث کے معارض بنانے کی کوئی اہل علم بالحدیث ہرگزجرات نہیں کرسکتاالایہ کہ تجاہل عارفانہ کرے یا بے جاضد پرمصرہو۔ان دلائل واضحہ اورصیحہ سے روزروشن کی طرح ظاہر ہوگیا کہ نمازمیں اللہ کے رسول مقبولﷺکی سنت مستمرہ اورخلفاءراشدین مہدیین ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی سنت مستمرہ یہی تھی کہ وہ نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم جہرانہیں پڑھاکرتے تھے۔
یہ دلائل صرف ایک صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ ان کے علاوہ عبداللہ بن مغفل،جبیربن مطعم،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہیں اورسب کی سب مرفوع اورصحیح ہیں لہذا ان احادیث صحیحہ سے اعراض کرکے آنحضرتﷺکی سنت صحیحہ اورمستمرہ کو ترک کرکے علی الدوام بسملہ جہرسےپڑھنااہل حدیث جماعت کو قطعازیب نہیں دیتا۔
لیکن یہ بحث نامکمل رہے گی جب تک کہ فائلین بجہرالبسملۃ کے دلائل کاجائزہ نہ لیاجائے۔اس لیے اب ان کے دلائل کا ذکرکیا جاتا ہے اوران کاانصاف وتحقیق سے جائزہ پیش کیا جاتا ہے اجمالایہ گزارش ہے کہ مخالفین جودلائل احادیث سے پیش کرتے ہیں ان میں سے جومسئلہ زیربحث پر صریح دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک حدیث بھی سندا صحیح نہیں ہےبلکہ موضوع ومنکراورکچھ شدیدضعیف اورجوایک یا دوصحیح السند ہیں وہ مسئلہ زیربحث پرنہ نص ہیں نہ صریح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی فتاوی:جلد٢٢’صفحہ٤١٦میں اورحافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ میں فرماتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ جب مصرمیں تشریف لائے توانہیں الجہر باالبسملہ کی روایات جمع کرنے کی گزارش کی گئی۔
تو امام موصوف نے یہ روایات جمع کردیں تب ان سے کہا گیا کہ کیا اس مجموعہ میں کوئی صحیح چیز بھی ہے ؟توامام والامقام نے جواب میں فرمایا:
‘‘یعنی آنحضرتﷺسےاس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں۔البتہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے بعض آثارصحیحہ ہیں اوربعض ضعیف آپ نے دیکھاکہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ جیسا جوٹی کامحدث جن کے علم حدیث کا اندازہ لگانا ہوتوان کی کتاب‘‘العل’’مطالعہ فرمائیں وہ بھی یہ کہنے پر مجبورہوگیا کہ اللہ کےرسولﷺسےجہرابالبسملۃ کی کوئی حدیث صحیح نہیں۔اب ایسے امام کی شہادت کوآپ مستردفرمادیں توآپ کی مرضی۔
اس کے بعد یہ گزارش ہے کہ بہت سی ضعاف ومنکرات وموضوعہ روایات کا حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے الدرایہ میں اورعلامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے‘‘التعليق المغني علي السنن للدارقطني’’میں اچھی طرح پوسٹ مارٹم کیا ہے اوران کے ضعف نکارت ووضع کی توضیح فرمادی ہے۔
لہذاان کا ذکربےفائدہ تطویل کاباعث ہوگااس لیے ان کے ذکرسےاعراض کرتا ہوں تھوڑی سی منکرروایتیں ان سے بھی رہ گئیں ہیں جومیں نے‘‘تحصيل المعلاة’’میں ذكركی ہیں اوران کی اسنادی حیثیت کو بحمداللہ واضح کردیاہےاس جگہ میں صرف وہ روایتیں لکھوں گاجن سے عام طورپرہمارے علماء فضلاء عصریہ استدلال کرتے ہیں۔
(١):......امام نسائی،ابن خزیمہ الدارقطنی وغیرہم نے نعیم المجمرکی طریق سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
اس حدیث کی سندبلاشبہ صحیح ہے لیکن اس کے سیاق میں اتنے احتمالات ہیں کہ اس کو زیربحث مسئلہ پرہرگزہرگزنص نہیں لیکن ان تفصیلات کی جگہ تحصیل المعلاۃ ہے نہ کہ یہ مختصر کتابچہ پھرروایت میں ہے کہ‘‘ثم قرابأم القرآن’’اوریہ وضاحتا بتارہا ہے کہ راوی نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کوفاتحہ کی آیت قرارنہیں دیاورنہ اس طرح فرماتے کہ: ((ثم قرابأم القرآن فاستفتح ببِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ.))
غورفرمائیے اوریہ بات آپ کے مسلک کے خلاف ہے کیونکہ آپ بسملہ کو أم القرآن کی جزیاآیت ہی قراردےرہےہیں۔پھریہ روایت موقوف ہے مرفوع نہیں آپ سےمرفوع محض اس لیے بنارہے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ:
لیکن اولا تویہ الفاظ ضروری نہیں کہ نماز کے ہر جز کے متعلق فرمایاہوبلکہ اکثر کے متعلق اوراگریہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس سے ہر جزمیں مشابہت مراد ہے تب بھی اسے اس روایت کا رفع بطوراشارہ کنایہ اورایماء کے باب سے ہے ۔اورہم نے جو روایات ذکر کی ہیں وہ سب کی سب صریح طور پر مرفوع بھی ہیں اورعدم جہرپرنص صریح ہیں اوریہ شرعا،عرفا،اصولابالکل غلط ہے کہ ایک بات جو اشارۃ وکنایۃ معلوم ہواس کو اس بات پر مقدم کیا جائےجونصاوصراحتاصحیح سندکے ساتھ ثابت ہوچکی ہے پھر یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کایہ کہنا کہ:
سے مرادنمازمیں انتقالات کی تکبیریں ہوں کیوں کہ اسی عہد میں بعض ائمہ نے نماز میں رفع وخفض میں تکبیرات کہنی چھوڑدی تھیں۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سجدہ میں جاتے تب بھی تکبیرکہتے اوراس سے سراٹھاتےتو بھی تکبیرکہتے اورجب دورکعتوں سے اٹھتے تب بھی تکبیرکہتے جب نمازپوری کی توحضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میراہاتھ پکڑااورفرمایاکہ اس نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے)مجھےحضرت محمد رسول اللہﷺکی نمازیادلادی۔
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ نمازمیں ہرخفض ورفع میں تکبیرات کہتے تھے۔
وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےملااوراس کے متعلق تعجب سے دریافت کیاتوحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اگراس عہد کے لوگوں نے ان انتقالات میں تکبیریں کہنی چھوڑدی ہوتیں توعکرمہ تعجب سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیوں دریافت کرتے۔جوچیز عام ہوتی ہے اس کے متعلق پوچھنا توکجااس پر تعجب بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی بات کی طرف((انی لا شبهكم صلوة برسول الله صلي الله عليه وسلم.))میں اشارہ فرمایاہواوراس احتمال کی یہ روایت بھی تقویت دیتی ہے جوامام عبدالرزاق اپنے مصنف میں لائے ہیں:
اوراس روایت کی اسنادصحیح ہے لہذا اس احتمال قوی کی موجودگی میں(خصوصا جب خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ا س کی مئویدبھی ہو)توبلاوجہ اس پر اصرارکرنا کہ ان کےان الفاظ((إنی لا شبهكم صلوة برسول الله صلى الله عليه وسلم.))سے مرادمشابہت من کل الوجوہ ہے ۔محض بے جاضدومسلکی حمیت نہیں تواورکیا ہے۔
بہرصورت ان احتمالات کے قطع نظریہ روایت اشارۃ وایماءمرفوع ہےاوراس لیےبسملہ کا جہربھی اشارہ وکنایہ یاایماءپرمبنی ہے ۔لہذا یہ کتنا ظلم عظیم ہے کہ ان سب احادیث مبارکہ جوسب کی سب صحیح بھی ہیں۔حقیقتا مرفوع بھی اورعدم جہربسملہ پرنص صریح ہیں ان پر ایسی روایات کو مقدم کیاجائے جونہ توصراحتا مرفوع ہے۔اورنہ ہی مسئلہ زیربحث پرصراحتادلالت کرتی ہےیہ توکسی مکتب فکروکسی مسلک کااصول نہیں ہے کہ نص صریح کو چھوڑکرایک محتمل واشارہ یاایماءسےمسئلہ بتانے والی روایت کو مقدم کیائے۔اگراس قسم کی جرات مقلدین حضرات کرتے ہیں تواہل حدیث حضرات ان پر تنقیدات کی بارش کردیتے ہیں۔
لیکن اگرخود اپنے مسلک کا پاس ولحاظ ہوتوان سب مسلمہ اصول کو بالائے طاق رکھ کروہی کچھ کیا جارہا ہے جس پر انہیں اغیارپراعتراض ہے۔
((فياللعجب خودرافضيحت ديگران رانصيحت فانالله وانااليه راجعون.))
(٢):......حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک اثربھی پیش کیا جاتا ہے جس میں ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراپڑھی اس اثرکی سند بھی صحیح ہے۔لیکن اس کے سیاق میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو استمرارپردلالت کرتا ہوبلکہ یہ ایک واقعتاعین ہے جو کبھی ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تعلیم کے لیے جہرابسملہ پڑھی۔جیساکہ صحیح سند سے سنن دارقطنی وغیرہ میں حضرت عمروحضرت عثمان رضی اللہ عنہما‘‘سبحانك اللهم وبحمدك......الخ(دعاءاستفتاح )پڑھی تھی اورروایت کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں۔‘‘يسمعنا ذالك ويعلمنا.’’ السنن للدارقطني مع التعليق المغني طبع مدينه منوره:ج١’ص٣۰١.
یعنی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ یہ دعائےاستفتاح ہمیں سناتےتھےاوراس سےمقصدہمیں تعلیم دیناتھا۔پھرکیاوجہ ہےکہ آپ حضرات دعائےاستفتاح کوجہراپڑھنآپنامستمرمعمول نہیں بناتے؟اسی طرح ایک صحیح حدیث حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالاصفحات میں گزرچکی ہے کہ آنحضرتﷺایک مرتبہ قراۃ سےقبل ((اللهم انى اعوذبك من الشيطان الرجيم.))الخ جہراپڑھا۔
حالانکہ استعاذہ قرۃ سے قبل جہراپڑھنا کسی کا مسلک نہیں ،لیکن آپ اہلحدیث حضرات سے بجاطورپر یہ سوال کیا جاسکتا ہے جب آنحضرتﷺنے استعاذہ جہراپڑھاہےتوآپ اتباع سنت کی مدعیان حضرات کیوں ہمیشہ استعاذہ جہرانہیں پڑھتے؟یہ عجیب تماشہ ہےکہ آپ خودتوغیرصریح روایت سے بھی جہرابابسملہ وہ بھی علی الدوام ثابت فرمارہے ہیں اوراسی پر عمل پیرا ہیں۔حالانکہ اس میں اصل مسئلہ کی صراحت تک نہیں چہ جائیکہ اس سے دوام ثابت کیا جائے۔ازراہ عنایت آں محترم بھی مستفید فرمائیں کہ اس روایت سے عربیت کے کس قانون سے آپ دوام ثابت فرمارہے ہیں؟لیکن حدیث میں صراحتا موجودہےکہ آپﷺقرات سےقبل استعاذہ پڑھا اوربسملہ کے متعلق احادیث صحیحہ صریحہ میں استمرارکے صیغوں سے ثابت ہے ہ آنحضرتﷺ،ابوبکر،عمر،عثمان رضی اللہ عنہم بسملہ جہرانہیں پڑھاکرتے تھےمگرآپ حضرات ان صحیحہ صریحہ اورمنصوصہ احادیث کو ایسانظراندازکئے بیٹھےہیں کہ گویااحادیث صحیحہ کا وجود ہی نہیں۔
اس طرز عمل کانام آپ ہی تجویز فرمائیں۔ہم اگر کہیں گے توشکایت ہوگی۔بہرصورت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ اثرصحیح السندہونے کے باوصف ایک واقعہ عین ہے جو تعلیم کے لیے پیش آیا تھانہ کہ ان کی یہ سنت مستمرہ تھی ان کی اوردوخلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت مستمرہ تووہ تھی جواحادیث صحیحہ میں بیان ہوچکی ہے۔واللہ اعلم!
(٣):......حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ مدینہ منورہ آئے اورنماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھی اس پر مہاجرین وانصارہرطرف سے ا س پرمعترض ہوئے،لہذا بعد میں جب نماز پڑھائی تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہراپڑھا۔یہ روایت سنن دارقطنی،سنن کبری،بہیقی اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الام وغیرہ میں مروی ہے اورمیں نےاس سے بے تحاشا استدلال کرتے ہوئے اہلحدیث کو بھی اپنے کانوں سے سنا ہے۔اورانتہائی افسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے علماء اہلحدیث حدیث کے علوم سے اس قدربےپرواہ ہوگئے ہیں کہ وہ اتنی زحمت اٹھانے پر بھی تیارنہیں کہ کسی روایت کے متعلق اس سےدلیل لینے سے قبل اس کی سنداومتناروایۃ ودرایۃ تحقیق توکرلیں یہ روایت صحیح بھی ہے یا نہیں اوردلیل لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یا نہیں۔
جب ہمارے اہلحدیث خطباء کی یہ حالت ہے توپھر عوام ک توپوچھنا ہی کیا ۔اس روایت کے متعلق تفصیل تومیری کتاب تحصیل المعلاۃ میں ہے اس جگہ صرف اتنا عرض کردیناکافی سمجھتا ہوں کہ یہ روایت سندا بھی ضعیف ہے تومتنابھی مضطرب اوراضطراب بھی ایسا کہ کوئی محدث اس کے اضطراب کو رفع نہیں کرسکتا سند میں رواۃ ضعیف ہیں اورمتن پر کافی اعتراضات وخدشات واردہیں شائقین تفصیل کوتحصیل المعلاۃ کا مطالعہ کرنا چاہئے تعجب تویہ ہے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھنے پر تومہاجرین وانصارکےاعتراضات کی بوچھاڑ ہوگئی،لیکن یہ مہاجرین وانصارکہاں گئےتھےجب خلفاء ثلاثہ راشدین کورات ودن میں کم از کم تین مرتبہ نماز میں بسملہ کے عدم جہر کا مشاہدہ کرتے رہتے تھےلیکن ان پر نکیر نہ کی اورنہ ان کو اس نقصان پر ٹوکاکیا یہ سب مہاجرین وانصار ان سے ڈرتے تھے،اس لیے کلمہ حق کہہ نہ سکے؟حالانکہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو تو ایک عورت بھی حق کا کلمہ کہہ دیتی تھی۔یہ سب باتیں ادل دلیل نہیں اس بات پریہ واقعہ منکرہ وموضوعہ ہے۔یہ تھے وہ مشہوردلائل جو آج کل کے اہلحدیث پیش کرتے رہتے ہیں اس لیے اس جگہ صرف ان کے ذکرپراکتفاکی ہے ورنہ روایات اوربھی ہیں جوسب کی سب اپنی کتاب تحصیل المعلاۃ میں ذکرکی ہیں اورسبحانہ وتعالی کے فضل وتوفیق سے ان پر بالاستیفاءکلام کیا ہے،ایک منصف مزاج کے لیے ان شاء اللہ اس کا مطالعہ شرح صدر کا باعث ہوگا۔