ايك آدمی کو مسلسل البول کی بیماری ہے اورچلتے پھرتے پیشاب کےقطرے گرتے رہتے ہیں یعنی وہ پاک رہ ہی نہیں سکتا اوروہ بیچارہ ہرنماز کے وقت وضوءکرتاہے اوراپنی شرمگاہ پر بھی پانی چھڑکتا ہے کیونکہ وہ نماز چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن ایک مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ ‘‘مفتاح الصلوة الطهور’’نمازکی کنجی پاکی ہے۔’’لہذا چونکہ یہ آدمی پاک نہیں رہ سکتا اس لیے اس کی نماز نہیں ہوتی اب اس کےمتعلق قرآن سے صحیح مسئلہ بتایاجائے ؟
نمازاللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے اوراس کو کسی حالت میں ترک نہیں کیا جاسکتا تولیٹے ہی پڑھے لیکن بالکلیہ ترک کی اجازت نہیں ۔اسی طرح نماز کے لیے طہارۃ بھی شرط ہےلیکن ساتھ ہی اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک میں یہ قاعدہ بھی بیان فرمادیا ہے کہ
‘‘کسی متنفس کو اللہ تبارک وتعالی اپنی وسعت قدرت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔’’
یعنی اللہ تبارک وتعالی کسی آدمی کو ایسی تکلیف نہیں دیتا یا کسی کا ایسا حکم نہیں دیا کرتا جواس کی وسعت اورمقدورسےباہرہےاس لیے اگرچہ پیشاب وغیرہ کی نجاست سےپرہیز کرناتوواجب ہے اس سے پاکی حاصل کرنا اشد ضروری ہے لیکن اگر ایک آدمی کسی عارضہ کی وجہ سے اس سے پرہیز کرہی نہیں سکتا توپھر بھی اس کو یہ حکم دیتا کہ تم نماز بھی ضرورپڑھواورپاکی بھی ضرورہی حاصل کروایسا حکم دیتا ہے جوتکلیف مالایطاق کی ضمن میں آجاتا ہے ویسے اللہ تعالی مالک ہے ہم اس کے مملوک ہیں اس لیے وہ ہمیں کیسا ہی شاق حکم دے ہمیں اس کےبارہ میں چوں وچراں کرنے کا حق نہیں ہے اورسرتسلیم خم کرنا ہمارافرض ہے لیکن اس ذات جل وعلا نے خود ہی اپنے فضل وکرم سے یہ وعدہ فرمایاہےکہ وہ تکلیف مالایطاق نہیں دیاکرتا۔
اس لیے یہ مریض اپنی قدرت کے مطابق حتی الامکان پیشاب سے پرہیز کرتا ہے اوراس سے طہارت حاصل کرتا ہے تومزید جو کچھ ہوگا وہ اللہ تبارک وتعالی اپنے فضل وکرم سے معاف فرمائے گااوران شاء اللہ اس سے مئواخذہ نہ ہوگا۔(بشرطیکہ حتی المقدوروہ ہر طرح کی اس سے پرہیز کی سعی کرے اگر خود ہی تساہل سے کام لے گا تویقینا مئواخذہ ہوگا)ہماری اس تحقیق پر ایک حدیث بھی دلیل لائی جاسکتی ہے ۔بخاری شریف میں باب استحاضہ ایک حدیث واردہے۔ملاحظہ فرمایئے!
‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبش نے حضرت رسول اللہﷺکی جناب میں یہ عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺمیں پاک ہوتی ہی نہیں ہوں(یعنی خون ہمیشہ جاری رہتا ہے)پھر کیا میں نماز کوترک کردوں؟توحضرت رسول اللہﷺنے اس سے فرمایاکہ یہ حیض نہیں ہے (یعنی جس کی وجہ سے نماز کو ترک کیا جاتا ہے۔)بلکہ یہ رگ کا خون ہےپھر(تم ایسا کروکہ)جب حیض کے دن آئیں تونماز چھوڑدو۔جب حیض کےدن پورے ہوجائیں۔یعنی جتنے دن تم کو گزشتہ حیض آیا کرتا تھا وہ ختم ہوجائیں توخون کو دھوڈالواورپھر نماز پڑھتی رہو۔(یہ خون تم کو نماز سے نہیں روکے گا)
اوراسی بخاری کی اسی حدیث میں دوسری سند سے یہ الفاظ اس میں زائد ہیں کہ :
‘‘یعنی پھر تم ہرنماز کے لیے نیا وضو کرتی رہو۔’’
اس میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ:
‘‘میں پاک رہ ہی نہیں سکتی۔’’
ان سے بجاطورپراستدلال کیا جاسکتا ہے کہ جو کوئی شخص کسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سے(جس طرح وہ عورت سائلہ بیماری کی وجہ سے خون سے پاک رہ نہیں سکتی تھی)پاک نہیں رہ سکتا (کسی بھی عارضہ سے ،خون کے بہنے سے یا پیشاب کے قطرات بہنے سے یاکسی اورعارضہ کی وجہ سے )تواس کو بھی نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔کیونکہ آنحضرتﷺنے مستحاضہ عورت کو نماز کے ترک کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ اسی حال میں نماز پڑھنے کاحکم فرمایاکیونکہ نمازتوکسی حال میں بھی ترک نہیں کی جاسکتی۔
ای طرح تسلسل البول والے مریض کو بھی ہر حال میں نماز پڑھنی ہوگی ۔اوران کی یہ بیماری نمازسےنہیں روک سکتی البتہ ا کو ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا پڑے گا جس طرح آپ نے اس عورت کو ہر نماز کے لیے نئے وضو کرنے کا حکم فرمایا۔
خلاصہ کلام کہ تسلسل البول کے مریض کو کسی حالت میں بھی نماز ترک کرنی نہیں چاہئےاوراس کی نماز ہوجاتی ہے البتہ اس کو اپنی طہارۃ کے لیے حتی الامکان پوری کوشش کرنی چاہیئےاورہر نماز کے وقت نیا وضو کرے اوراپنی شرمگاہ کو دھوڈالے پھر نماز پڑھتا رہے ۔ان شاء اللہ مقبول ہوگی۔