کیا انبیاء کرام علیہم السلام قبروں میں زندہ ہیں،اگرزندہ ہیں توان کی زندگی کی حقیقت کتب شرع میں ہے یا نہیں،نیزحدیث((الانبياء احياء في قبورهم.))بیہقی کاکیامطلب ہے؟
معلوم ہونا چاہیئے کہ سوال میں مذکورہ حدیث (الانبیاءاحیاء)کوبیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ بنام حیاۃ الانبیاءمیں تین اسنادکے ساتھ مرفوعااورایک سند کے ساتھ موقوفاذکرکیا ہے اورچاروں طریق سیدنا انس رضی اللہ عنہ کےپاس جاکرختم ہوجاتےہیں لیکن ان چاروں احادیث کی اسنادبالکل ضعیف اورناقابل احتجاج ہیں بلکہ ان کے موضوع ہونے کا قائل ہواجائے تویہ مبالغہ نہیں ہوگا ذیل میں وہ احادیث بمع اسانید ذکرکرکے ان کےرواۃ کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں!
((قال البيهقي في رسالته المسماة بحياة الانبياء:اس روایت میں دوراوی ہیں جن کے اوپر ہم نے ١’٢کی تعدادلگائے ہیں ان میں سے پہلاقسطنطین بن عبداللہ الرومی ہے یہ مجہول ہے اورجہالت راوی کی جرح شدید کے باب میں سے ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی رومی شخص تھا جیسا کہ اس کے نام اورنسبت سے ظاہر ہےاوررومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی نہیں اسلام نے ان کی حکومت کو طشت ازبام کردیاروی تخت تاج سے محروم ہوگیا قیصر روم ہمیشہ کے لیے صفحہ وجود سے معدوم ہوگیا‘‘وملك قيصر فلاقيصربعده’’لہذا وہ اسلام سے جوبھی دشمنی کریں وہ کم ہے لہذا اس روایت کوگھڑنے میں اس کی کاروائی ہوسکتی ہے اس کے بعد حسن بن قتیبہ کا نام ہے اس کے متعلق امام دارقطنی فرماتے ہیں‘‘متروک الحدیث’’اصول حدیث کے ماہرین کو بخوبی معلوم ہے کہ متروک راوی روایت نہ متابعت اورنہ ہی استشہاداپیش کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا راوی شدیدمجروح ہے کیونکہ متروک عموماواغلبا متھم بالکذب ہوتا ہے لہذا یہ روایت ان دواسباب کی وجہ سے ناقابل استشہادہےلہذا اسے حدیث کہنا بھی درست نہیں۔
اس روایت میں بھی دوراوی مجروح ہیں ایک بیہقی رحمۃاللہ علیہ کاشیخ کیونکہ وہ مبہم ہےبیہقی رحمۃاللہ علیہ کااس کانام‘‘الثقةمن اهل العلم’’لکھناکافی نہیں کیونکہ کوئی تلمیذمرتبآپنےاستاذکویاشیخ کوثقہ یاقابل اعتمادسمجھتاہےلیکن وہ مجروح اورناقابل حجت ہوتاہےکیونکہ اسےاس کےمتعلق مکمل خبرنہیں ہوتی کہ فلاں میں کوئی یہ خرابی بھی ہےاوراس خرابی یانقص یاسبب جرح کاعلم کسی دوسرےامام فن کوہوتاہےاورچونکہ جرح خصوصامبین اورمفسرتعدیل پرمقدم ہوتی ہےلہٰذاممکن ہےکہ جسےبیہقہ رحمۃاللہ علیہ ثقہ سمجھ رہےہوں وہ مجروح شدیدہواوراس کی جرح مفسربھی ہولہٰذاجب تک اس کانام بیہقی صاحب نہیں لیتےتب تک وہ مبہم کےحکم میں ہیں اورابہام کسی بھی حدیث پرصحت کاحکم لگانےسےمانع ہے‘‘كمالايخفى على من له ممارسته والمام باصول الحديث’’دوسرانام یحیٰ بن ابی بکرکاہےجس کاکتب رجال میں کوئی تذکرہ موجودنہیں لہٰذاایسےمجاہیل اورغیرمعروف اورمبہم رواۃپرمبنی روایت کاحال کیاہوناچاہئے۔
ہرمنصف مزاج اوراعتدال پسندشخص خودفیصلہ کرسکتاہے۔
اس روایت میں چارآفتیں ہیں پہلی بیہقی کےشیخ ابوعبداللہ الحافظ کااستاذابوحامداحمدبن علی الحسنوی ہےیہ مہتم بالکذب راوی ہےخودامام حاکم نےاس کےمتعلق فرمایاہےکہ‘‘هوفي الجملةغيرمحتج بحديث’’یعنی اس راوی کی حدیث قابل احتجاج نہیں اورخطیب بغدادی فرماتےہیں‘‘لم يكن بثقة’’یعنی یہ ثقہ نہیں ہے۔یہ‘‘صيغه لم يكن بثقةياليس بثقة’’شدیدجرح کےالفاظ ہیں اوراس کےمتعلق امام محمدبن یوسف جرجانی فرماتےہیں کہ‘‘هوكذاب’’یعنی یہ کذاب ہےیعنی یہ جھوٹی حدیثیں بنانےوالاہےاسی طرح کےالفاظ اس کےمتعلق مشہورمحدث ابوالعباس الاصم نےبھی فرمائےہیں بہرحال یہ راوی کذاب ہے۔
دوسری آفت ابوعبداللہ محمدبن الحمصی ہےاس کاترجمہ کہیں بھی موجودنہیں معلوم نہیں،کہاں کی آفت ہےاسی طرح ایک اورآفت اسماعیل بن طلحہ بن یزیدہےیہ بھی غیرمعروف ہےاس کاترجمہ بھی ہمیں کہیں نہیں ملاہم ہماری بات چھوڑیں آج کےمشہورمحقق ناصرالدین الالبانی جوعرب کےمشہورمحقق فاضل عالم ہیں اورحدیث کےعلوم میں مہارت تامہ رکھتےہیں فن رجال میں بھی کافی مہارت رکھتےہیں وہ بھی اپنےرسالہ سلسلۃالاحادیث الضعیفہ والموضوعۃکےجزءثالث میں لکھتےہیں کہ محمدبن عباس اوراسماعیل بن طلحہ کاعلم انہیں نہیں ہوسکااورنہ ہی انہیں یہ معلوم ہوسکاکہ کسی محدث نےان کاترجمہ قائم بھی کیایانہیں اس سےاندازہ لگایاجاسکتاہےکہ یہ دونوں راوی کیاہیں دونوں مجہول وغیرمعروف ہیں چوتھی آفت محمدبن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی صورت میں ہےاس کےمتعلق رجال کی کتب میں ہےکہ سئی الحفظ جدایعنی اس کاحافظہ سخت بغرچکاتھا۔بہرحال ان آفات میں سےہرکوئی اپنی مثال آپ ہےایک آفت بھی اس روایت کےساقط الاعتبارہونےکےلیےکافی ہےچہ جائیکہ ایک‘و’کےبجائےایک جگہ پرچارجمع ہوجائیں تواس روایت کاکیاحال ہوگاخودفیصلہ کریں۔والله الهادى الى سواءالصراط_
(٤)۔۔۔چوتھی روایت موقوف ہے۔قال البيهقى فى الرسالةالمذكورة:((أخبرناابوعثمان الإمام رحمه الله أنبازأهربن احمدأنباابوجعفرمحمدبن معاذالمالينى ثناالحسين بن الحسن ثناءمومل ثناعبدالله بن ابى حميد(واسم ابى حميدغالب)الهذلى عن ابن المليح عن انس بن مالك الانبياءفى قبورهم احياءيصلون۔))
یہ موقوف روایت بھی بالکل ناقابل توجہ ہے کیونکہ اس میں تین راوی مجروح ہیں پہلاراوی ابوجعفرمحمدبن معاذالمالینی غیرمعروف ہے اس کا ترجمہ کہیں نہیں ملا۔
دوسراراوی مئومل ہے یہ ابن عبدالرحمن بن العباس ابن عبداللہ بن عثمان بن
ابی العاص ثقفی ہے اوربصری ہے اس کے متعلق حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ اپن کتاب تقریب التہذیب میں لکھتے ہیں کہ ضعیف یعنی یہ راوی ضعیف ہے۔
تیسراراوی عبیداللہ بن ابن حمیدالہذالی ہے اس کے متعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں کہ ‘‘ابوالخطاب البصری متروک الحدیث ’’یعنی یہ تیسراراوی پہلےدو راویوں سےبھی گیا گزراہے بہرحال اس روایت کے چارطرق امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ میں ذکرفرمائے ہیں جن کا حال آپ نے بخوبی ذہن نشین کرلیاہوگا یعنی یہ روایت قطعا قابل اعتباراورقابل احتجاج نہیں رہی باقی رہا یہ مسئلہ کہ انبیاء علیہم السلام عالم برزخ میں ہیں یا نہیں تواس کےمتعلق یہ گزارش ہے کہ جب نص قرآنی کے مطابق شہداء زندہ ہیں توانبیاء علیہم السلام شہداءکےبھی سردارہیں کس طرح زندہ نہ ہوں گے یقینا زندہ ہیں لیکن اس زندگی اوراس دنیا والی زندگی میں عظیم تفاوت اوربڑافرق ہے۔ان کے زندہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالاجائے کہ انہیں دنیوی زندگی حاصل ہے اوراس دنیا کی طرح لذتوں سے متمتع بھی ہوتے رہتے ہیں جس طرح کچھ جاہلوں کا خیال ہے بلکہ یہ دنیوی زندگی یقینا ان انبیاء علیہم السلام کی وفات اورشہداء کی شہادت پرختم ہوگئی اس پر عقل ونقل اورحس ومشاہدہ شاہد ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے:
بہرحال کتاب وسنت ،حس ومشاہداس پردال ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور شہداءاس دنیا سےتوکوچ کرگئے ہیں اوران پرموت واقع ہوچکی ہے اوران کی دنیاوی زندگی ختم ہوچکی ہے یہی سبب ہے کہ ہم رسول اکرمﷺکے متعلق کہتے ہیں کہ آپ کی عمرمبارک ٦٣سال تھی ورنہ اگردنیوی زندگی ختم نہ ہوئی ہوتی توآج کل آپ کی عمرمبارک چودہ سوسال سے بھی متجاوز ہوتی۔
((وهذا ظاهر وباهر لاينكر مبتدئى فضلا عن عالم.))بہرحال جب دنيوی زندگی اختتام پذیرہوئی توپھر آپ کو کونسی زندگی حاصل ہے اس کے متعلق قرآن کریم ہی رہنمائی کرتا ہے کہ:
یعنی انہیں ایسی زندگی حاصل ہے جس کا شعورواحساس تمہیں نہیں ہوسکتا ،دوسری جگہ پرارشادفرمایاکہ:
یعنی وہ زندہ ہیں اس عالم میں اوراللہ تعالی کے ہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے نہ کہ اس دنیا میں ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں زندہ ہونے کا احساس ہمیں نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم صرف اس محسوس زندگی کا ہی شعورواحساس رکھتے ہیں باقی دیگر معاملات اورجوعالم ہماری حواس سے ماوراء ہے اسے سمجھنا اوراس کا احساس رکھنے کے متعلق قدرت کی طرف سے ہمیں کوئی بی آلہ یاوسیلہ ذریعہ نہیں ملاہے مطلب کہ انہیں زندگی توحاصل ہے اوربوجہ اتم حاصل ہےلیکن اس عالم میں اوراللہ تعالی کے ہاں نہ کہ اس دنیا میں بس اس کے متعلق اتنا ہی کلام کیا جاسکتا ہے مزید کچھ کہنا حد سے متجاوز ہونا ہے اللہ تعالی ہمیں ایسے کام سے محفوظ رکھے آمین!
عقلمند کے لیے اتنا ہی کافی وشافی ہے۔