دنیا میں غنی اور فقیر،امیر اور غریب کے رزق کا فرق کیوں؟
اس سوال کا جواب سوال نمبر٢میں تقدیر کے متعلق مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ضمنا عرض کیا ہے کہ یہ سب کچھ ابتلاء اورآزمائش کے لیے ضروری تھاجس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر سارے غنی اورامیر ہوتے توباہمی تعاون اورایک دوسرے کی مددکرنے کا سوال ہی ختم ہوجاتا۔اسی فرق کی بناپرہی زکوٰۃ،صدقات،خیرات وغیرہ غریب مسکین ومحتاج کی مددکرنےکےلیےاورخیرکےکاموں میں خرچ کرنےکےلیےمقررہوئے،یہ ساری باتیں اسی فرق اورامتیازپرہی مبنی ہیں،پچھلےصفحات میں سورۃانعام کی آیت نقل کی گئی ہےجس میں اسی اونچ نیچ کی علت بیان ہےجس کوملاحظہ کیجئےاگرسارےامیراورمالدارہوتےتوان باتوں کاوجودکہاں رہتا؟حالانکہ آج کل دنیاہراس شخص کی تعریف کرتی ہےجوغریبوں اورمحتاجوں کی مددکرتاہے،اپنوں اوربیگانوں کی ضرورت کےوقت اعانت کرتاہے،خیرکےکاموں میں مثلاہسپتال،تعلیمی ادارےاوررفاہ عامہ کےکاموں میں خرچ کرتاہے،ہرکوئی اس کی تعریف کرتاہےحتیٰ کہ وہ ملحدبھی اس کی تعریف کےبغیرنہیں رہ سکتے۔اگریہ تقسیم قدرتی نہ ہوتی توان خوبیوں کوگننےوالادنیامیں موجودہی نہ ہوتا۔کیاایسےحضرات دنیاسےایک فیاض اوردوسروں کونفع پہنچانےوالےلوگوں کےخاتمےکےخواہاں ہیں؟
بہر صورت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوانسان ذات کی آزمائش جس طرح باقی کتنی باتوں سےکرنی تھی اسی طرح اس کی ذات وصفات کےشعبےمیں بھی آزمائش کرتی تھی تاکہ ظاہرہوکہ فقیراپنی فقیری پرصبروشکر،تحمل برداشت سےکام لیتاہےیانہیں،غنی اپنی ملکیت سےان ناداروں کی اعانت کرتاہےیانہیں،خیرکی ضرورتوں میں انفاق سےحصہ لیتاہےیانہیں،پھراعتراض کس چیزکاہے؟اس طرح سےہرانسان دوسرےکی طرف محتاج ہے۔ایک دوسرےکےتعاون کاضرورت مندہے،اورنہ ان عقل کےدشمنوں کےخیال مطابق دنیاسےباہمی تعاون کاباب ہی ختم ہوجائےگا۔دوسرےکوچاہنےوالاکوئی بھی نہ رہےگا۔ایسابےہودہ سوال توہرکوئی کرسکتاہے۔کوئی بیوقوف تواس طرح بھی کہہ سکتاہےکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےبیماراورتندرست پیداکیےسارےصحت مندکیوں نہ پیداکیے،سارےمردیاساری عورتیں کیوں نہ پیداکیں،سارےگورےکیوں نہ پیداکیے؟سب کوہمیشہ کےلیےکیوں نہیں پیداکیاوغیرہ وغیرہ۔لیکن ہرکوئی سمجھتاہےکہ اس قسم کےسوالات فضول اوربےہودہ ہیں،درحقیقت اس اختلاف کاہی نتیجہ ہےکہ دنیانہایت ہی دلکش ہوئی پڑی ہے