سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28)نظر کا لگنا

  • 14813
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2702

سوال

(28)نظر کا لگنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نظربدلگتی ہےیانہیں تفصیل کےساتھ جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نظربالکل لگتی ہےاس کےمتعلق احادیث صحیحہ کےاندرموجودہےجوکہ صحاح ستہ اورمشکوٰۃوغیرہ میں آپﷺکےدورکاایک واقعہ بھی بیان ہےکہ ایک آدمی کوکسی غیرمسلم آدمی کی نظربدلگی اوراس کوبہت تکلیف ہوئی،پھرآپﷺنےان کوحکم فرمایاکہ غسل کرکےاس کاپانی دےدےپھراس پانی سےاس نظروالےآدمی کونہلایاگیا۔نفع ونقصان بلاشبہ اللہ تعالیٰ کےہاتھ میں ہےلیکن اس کوشرک سمجھناغلط ہے۔اصل حقیقت پرپوری طرح غورنہیں کیاگیاہےبات دراصل یہ ہےکہ یہ دنیاعالم اسباب ہےجہاں پرانسان کوعمل کرناپڑتاہے،دین،دنیااوررزق حاصل کرنےکےلیےجدوجہدکرناپڑتی ہےاگرچہ ہرچلنےپھرنےوالی چیزکارزق اللہ تعالیٰ کےذمہ ہےجس طرح اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

﴿وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِ‌زْقُهَا﴾ (ھود:١٦)

‘‘تاہم انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ حصول رزق کے لیے جدوجہدکرے،اس کے حصول کے اسباب تلاش کرے۔’’

باقی نتیجہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔اگر کوئی انسان اس قسم کی جدوجہد نہیں کرتا اوراس کورزق نہیں ملتا تویہ اس کا قصورلکھا جائے گا کہ جہاں پر اس کو امر تھا وہاں پر اس نے قصورکیا ۔توجس طرح رزق کے لیے جدوجہد کرنے والے کو کچھ حاصل ہوا توواقعی وہ اس کی  کوشش کا نتیجہ کہا جائے گا لیکن اس کی وجہ سے یوں نہیں کہا جائے گاکہ اس کے سبب کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالی نعوذ باللہ رازق نہیں رہا بلکہ انسان خود رزق حاصل کرتا ہے ہر گز نہیں،اس کے باوجود رزاق اللہ ہی ہے کیونکہ اس نے ہی تو ان اسباب کو حصول رزق کا سبب بنایاہے اگر اللہ تعالی ان اسباب سے یہ لیاقت یافائدہ نکال دے تو وہ سراسربیکارہوجائیں گے بعینہ اسی طرح نفع ونقصان یقینا اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے لیکن اس جہاں میں ان دونوں کے اسباب بھی اللہ تعالی نے پیداکئے ہیں جو بھی ان کو اختیار کرتا ہے اس کو نفع یا نقصان ملتا ہے ۔یہ اسباب بذات خود نافع یا ضارنہیں ہے ،لیکن اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے ان میں نفع یانقصان رکھا ہے مثلا کوئی انسان کسی کو قتل کرتا ہے تووہ آدمی مرجاتا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ محی وممیت اللہ تعالی کی ذات ہے پھر نظربدکوشرک کہنے والوں کے مطابق قاتل انسان مارنے والا نہیں ہے کیونکہ مارنے والی تو اللہ کی ذات ہے۔

لہذا جو یہ کہے کہ فلاں نے فلاں کو قتل کردیا تواس نے گویا کہ ان کے کہنے کے مطابق شرک کیا اورقاتل کو بھی کوئی سزانہیں ملنی چاہیئے کیونکہ مارنے والاتووہ ہے ہی نہیں۔حالانکہ پوری دنیااس کو قاتل اورخون کرنے والاکہے گی دوسرے کسی کے دل میں یہ بات بھی پیدانہیں ہوئی کہ اس طرح  کہنے سے وہ مشرک ہوجائے گا۔کیونکہ اصل حقیقت اس طرح ہے کہ

اس دنیا کو اللہ تعالی نے عالم اسباب بنایاہے اوراس میں اپنے اٹل قانون بنائے ہیں کہ جواس طرح کرے گااس کا اٹل طورپر یہ نتیجہ نکلے گایا کوئی کسی کو کسی چیز سے قتل کرنے کا ارادہ کرے یا عملی قدم اٹھائے پھر اگر اللہ تعالی کی طرف سے اس کی  مشیت بھی اس کے موافق ہے تو اس کے مرنے کانتیجہ نکلے گا اورجو زہر کھائے گا اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ آدمی مرجائے گااورجو کوئی صحیح دوااستعمال کرے گا اس کو صحت عطاہوگی بہرحال ہرذرہ برابر کے متعلق مولی کریم نے ایک قانون اورسنت جاریہ قائم کردی ہے اوراس کے نتائج مقررکردیئے ہیں۔

لہذاانسان نافع یا ضار کو ئی بھی کام کرے وہ چونکہ اللہ دتعالی کے مقررکردہ قانون اورنتیجہ کے مطابق وجود میں آیا ہے لہذا وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوااورانسان کی طرف اس کی نسبت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے اس سلسلہ میں اپنی کوشش کی اورمقررکردہ نتیجہ کےحصو کا سبب بنا۔یعنی نفع ونقصان کا انسان صرف سبب بنتا ہے اوراس کے نتیجہ کے  لیے وہ کوشاں رہتا ہے اس لیے اس کی نسبت اس کی طرف کی جاتی ہے ۔جرم یا اجربھی اس کوشش کی وجہ سے ملتا ہے اورایک آدمی اگر کسی کو گولی مارتا ہے تواس کو مارنے والااللہ تعالی ہے لیکن گولی مارنے کامرتکب وہی قاتل ہے مطلب کہ انسان کو سب کچھ اس کی کوشش اوراسباب کو اختیار کرنےکی وجہ سے ملتا ہے ورنہ وہ مکمل نتیجہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی نکالتا ہے اوراسی نے ہی فعل کا نتیجہ متعین فرمایاہے یہی وجہ ہے  بسااوقات کئی لوگ گولیاں لگنے کے باوجودبچ جاتے ہیں یا کوئی آدمی زہر کھانے کے باوجود بچ جاتا ہے کیونکہ اصل مارنے والی تو اللہ کی ذات ہے اس کو مارنا نہیں تھا لہذا وہ بچ گیا تاہم جس نے گولی ماری یا زہر کھایا وہ جرم سےآزادنہیں سمجھا جائے گا کیونکہ اس کے ہاتھ وہی تھا جو اس نے کیا یقینا وہ گناہ اس کو ملے گا پھراللہ چاہے تواس کو معاف کردے ،چاہے تواس کو سزا دے۔باقی گولیوں کا یا زہرکھانے کانتیجہ ‘‘مرنا’’اس آدمی کے ہاتھ میں نہیں تھا۔

لہذا قدرت کے ارادہ کے ماتحت وہ بچ گیا مگرزہرکھانے والااورگولیاں مارنے والآپنی کوشش اوراسباب کی وجہ سے گنہگارضرورہوگا۔بعینہ اسی طرح نظر بدکوبھی اللہ تعالی نےدوسرے کو نقصان پہنچانے کا سبب بنایا ہے لیکن اگراللہ نے نہیں چاہاتونظر بدنہیں لگے گی۔باقی اگر نظربدلگانے والااندرونی حسد یا بغض کی وجہ سے نظر بدلگاتاہے تواس کا ضروراس کوگناہ ملے گاپھرآگے نظربدلگے یا  نہ لگے لیکن اگرحسد یا بغض کی وجہ سے نہیں بلکہ غیر ارادی  طورپر یا کسی کو ئی چیز پسند آئی اوراس کو نظر بدلگ گئی تواس پر کوئی گناہ نہیں ہے یہی سبب ہےکہ حدیثوں میں واردہے کہ اپنے آپ پر اوراپنے مال ومتاع اوراولادپر بھی نظر بدلگ جاتی ہے حالانکہ اپنے مال متاع اولاد کا توہر کوئی خیر خواہ ہوتا ہے ،اس لیے ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ اپنی یا کسی اورکی کوئی چیز اگرپسندآجائے تو‘‘ماشاءالله لاقوة الابالله بارك الله فيها’’کے الفاظ کیے جائیں ان شاء اللہ نظر نہیں لگے گی۔

اسی  طرح سحر کو بھی اللہ سبحانہ وتعالی نے نقصان کا سبب بنایاہے خود یہودیوں نے نبی کریم ﷺپرسحرکیا جس کی وجہ سے آپﷺپر کچھ عرصہ جسمانی تکلیف لاحق رہی،آپﷺکے تودرجات اللہ تعالی نے بلند تربلند کئے لیکن یہودی اس سبب کی وجہ سے سنگین گناہ کا مرتکب بناجس کا انتہائی ہولناک نتیجہ قیامت کے دن اس کو ملے گا لیکن اگر اللہ تعالی نہ چاہے تواس سحر سے بھی مسحورکوکوئی نقصان نہ پہنچے۔

﴿وَمَا هُم بِضَارِّ‌ينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ (البقرۃ: ۱۰۲)

لیکن جس نے  سحر کیا وہ ہوگز گناہ سے نہیں بچ سکے گا۔

خلاصہ کلام کہ نظر بد وغیرہ صرف اسباب ہیں جو کہ خود اللہ نے پیدا کئے ہیں پھر جو کوئی ان اسباب کے دامن میں آئے گا وہ اس گناہ کا مرتکب لکھا جائے گا۔دوسرے کو اس کانقصان پہنچے یا نہ پہنچے کیونکہ وہ تو اسباب کو کام میں لاچکا اوراس کے ہاتھ میں بھی صرف یہی تھا باقی نظر بد لگانے کو شرک کہنے والوں کے خیال کے مطابق کوئی بھی مجرم مجرم نہیں ہےاگرچہ وہ قاتل ہی کیوں نہ  ہو کیونکہ ممیت (مارنے والی ذات)اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات ہےاوراگر کوئی زہر کھائے تووہ خودکشی کامرتکب نہیں لکھا جائے گا کیونکہ مانے والی ذات اللہ تعالی کی ذات ہے ۔جودوسرے کو مارنے والا کہے وہ ان حضرات کے کہنے کہ مطابق شرک ہے پھر بتائیں کہ دنیا میں کو سی بات شرک سے آزادرہے گی۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 204

محدث فتویٰ

تبصرے