تقدیرکیا ہے؟اورانسان جو کچھ کررہا ہے اچھا یا براکیا وہ مشیت الہی کے تحت کررہا ہے؟
اللہ کی قسم اگر یہ سوال ملحدوں یعنی دین اسلام کے دشمنوں کی طرف سے نہ ہوتا تواپنے قلم کو ہرگز حرکت میں نہ لاتا،کیونکہ اس مسئلہ میں بے جاغوروخوض کرنامومن کے لیے بےحد نقصان دہ ہے،لیکن دین اسلام کے دشمنوں کی سازش اورعوام کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی ناپاک کوشش کو مدنظر رکھ کراس موضوع پر قلم اٹھاتا ہوں اوراللہ سبحانہ وتعالی سے دعاکرتا ہوں کہ وہ مجھے حق کا کلمہ کہنے کی توفیق عطافرمائے اورکلمہ حق تحریر کرنے کےلیے راہ آسان بنائے اوراپنے فضل سے میری ہرجگہ پر رہنمائی فرمائے۔اللہم آمین
کوئی بھی کام کرنا ہوتا ہے یا کوئی جگہ بنانی ہوتی ہے ،کوئی گاوں یا شہر آبادکرنا ہوتا ہے یاکوئی کارخانہ وغیرہ جاری کرنا ہوتا ہے مطلب کہ کوئی بھی اسکیم بروئے کارلانی ہوتی ہے تواول ا س کا نقشہ ،اس کے اجزا،اس کے تمام پروزوں اوراس کے لوازمات اوران میں واقع
اشياءكی ترتیب اسی طرح اس کے متعلق کئی اشیاء کاتصوراورخاکہ ،نقشہ یا نمونہ ،ان کی ترتیب وترکیب،ان کے اجزاولوازمات کے موضوع کی تقسیم اوران کی ظاہری ہیئت اورکیفیت پورے کی پوری اولا توذہن میں بٹھانا پڑتی ہے،اس کے بعد اس کا مکمل خاکہ کو سپردقرطاس کیا جاتا ہے بعد ازاں اس کے مطابق اس اسکیم کو عمل میں لایا جاتا ہے۔اس حقیقت کو پوری طرح ذہن میں لانے کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،اللہ کی توفیق سے۔
پہلے چند اہم نکتے ذہن نشین کرلیجئے۔
الف:۔۔۔۔۔۔انسان کے سواباقی پوری کائنات کا جس کا مشاہد ہ کرتے ہیں انسان کے لیے ہی پیدائش ہے:
‘‘اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے جو کچھ زمین میں ہے۔’’
‘‘اوراللہ تعالی نے تمہارے لیےجو آسمانوں میں اورجوزمینوں میں ہے اس کو تابع بنایا۔’’
بہرحال اس کائنات کے تمام اجرام علویہ وسفلیہ انسان کے تابع بنائے گئے ہیں اورانسان کے کام ،منفعت اورفائدے کے لیے ہیں۔یہی سبب ہےکہ آج انسان چاندوغیرہ پرکمند ڈال رہا ہے ،یعنی یہ سب کچھ جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ساراانسان کے کام آتا ہے،اگریہ نہ ہوتے یا کچھ وقت کے لیے انسان کی دسترس سے دور ہوجاتے توانسان بڑی مصیبت میں پڑجاتا،لیکن اگرانسان نہ ہوتا توان اشیاء کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ،کئی انسان آرہے ہیں،اورجارہے ہیں لیکن انسان کی آمدورفت کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا،کسی بڑی ہستی کی موت پرکبھی ایسا نہیں دیکھاگیا ہ ےکہ سورج نے طلوع ہونا چھوڑ اہویا دریانے بہنا بند کیا ہو،یاسیارات اورستارے غیر متحرک ہوئے ہوں بلکہ وہ اپنی مقرردیوٹی اداکرتے رہتے ہیں،لیکن اگر سورج طلوع نہ ہویا لمباعرصہ غائب رہے یا دریا بہنا بند یا کم پانی آئے توخود سوچوکہ حضرت انسان کا کیا حال ہوتا۔
خلاصہ کلام کہ پوری کائنات انسان کے لیے ہے اوراس کی ضرورت کو پوراکررہی ہے،مگرخودحضرت انسان ان میں سے کسی کے بھی خاص کا م کے لیے نہیں ہےاگروہ انسان چلا جائے توان پر کوئی نقصان یا اثر نہیں ہوتا وہ اپنا دائمی فرض بجالاتے رہتے ہیں۔
ب:۔۔۔۔۔۔جب اتنی بڑی وسیع کائنات انسان کے لیے ہے اورانسان ان کے کسی کام کانہیں ہے توپھر خود انسان کس کام کا ہے ،جب انسان اس کائنات پر حکمرانی کررہاہےتوظاہرہے کہ پوری کائنات سےاشرف ہے،کیونکہ حاکم جن پر حکمرانی کرتا ہے وہ ان سے اعلی ہوتاہے توپھر کیا عقل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ کارآمد ہےاوروہ ہمارے لیے مفید خدمت سرانجام دے رہا ہےاوراس کا حکمران نکمااوربالکل بے مقصد وبے غرض وغایت نفع اورفائدہ سےیکسر خالی اورمحروم ہے؟عقل ہرگزاس بات کو تسلیم نہیں کرے گی،پھر سوچنا ہے کہ اس حکمران انسان کی تخلیق وپیدائش کی غرض وغایت کیا ہے ،اس کو کیا فرائض انجام دینے ہیں ؟اس کا جواب بھی قرآن میں موجود ہے ۔
‘‘میں نے جنوں اورانسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔’’
یعنی جس طرح یہ پوری کائنات انسان کی خدمت کررہی ہے اوراس کے فائدے کےلیے ہے،انسان جو بھی کام اس سے لینا چاہتا ہے وہ اس کے اس اردے کی تکمیل سے انکارنہیں کرتے بلکہ وہ جوکام بھی چاہے جائز ہو یا ناجائز لینا چاہے گاوہ ان کے حکم کی بجاآوری سےسرتابی نہیں کرتے۔اسی طرح انسان اللہ سبحانہ وتعالی کی بندگی بجالانے کے لیے اس خطہ ارضی پر آیا ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی خالق بےحد رحم وحلم والے رب کے ہر معاملے پر کام کےلیے زندگی کے ہرشعبے میں مرضی رکھے اوراس کے حکم ارشادرہنمائی اورمرضی کے مطابق چلے،انہی نکتوں کا نتیجہ اللہ کی کتاب ورسل علیہم السلام اوراس کے اوامرونواہی زندگی کی طرز بودوباش کےمتعلق رہنمااصولوں کی صورت میں اس دھرتی پر تشریف لائے کیونکہ جب انسان کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلنا تھا تولامحالہ اس کویہ علم بھی دینا تھا کہ زندگی کے گوناگوں شعبوں کےمتعلق اس کے رب کی کیا مرضی اورحکم وارشادہے،اس کے لیے وحی کی ضرورت تھی۔
ج:۔۔۔۔۔۔انسان اس دنیا میں ایک بڑی آزمائش اورامتحان گاہ میں ہے ۔
قرآن مجید میں ارشادربانی ہے:
‘‘زمین پر جوکچھ ہے اس کو ہم نے ان کے لیے خوبصورت بنایاتاکہ انسان کی آزمائش کی جائے کو کون ہے جو نیک عمل کرتا ہے۔’’
یہ آزمائش ا لیے نہ تھی کہ اس کو پتہ ہی نہ تھا ،بلکہ اس لیے کہ یہ اس کا دستورہے کہ وہ کسی کو بھی بغیر علم خواہ نیک ہویا یہ کہ محض اپنے علم کے مطابق جزااورسزادےبلکہ کوئی بھی انسان جب بدارادہ کرتا ہے تواس وقت تک اس پر کوئی اثرمرتب نہیں ہوتا جب تک ارادےکے مطابق عمل نہ کرلے۔اسی طرح سورہ ملک میں فرمایا:
‘‘وہ اللہ مالک الملک جس نے موت اورحیاتی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ کون ہے تم میں سے جو نیک عمل کرتا ہے۔’’
بہرحال یہ دنیا امتحان کی جگہ یا Examinationہے،تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیا جائے کہ وہ جس عظیم مقصد کے لیے اس کرہ ارض پرآئے ہیں وہ مقصد کس طرح انجام دیتے ہیں ،آیا بریقہ کمال یا کم یا اس سے زیادہ یا بالکل اصل مقصد کے خلاف۔
د:۔۔۔۔۔۔جب یہ دنیا امتحان گاہ اورابتلاء کا مقام ہے توظاہر ہے کہ انسان کے سامنےدونوں راستے آئیں خیروشر،نیکی اوربدی کی سمجھ آئے اوران میں فرق کابھی الہام کیا جائے اللہ کی پسند اورناپسند کی معلومات ہو۔اسی حقیقت کی طرف قرآن کریم ان دوآیات کریمہ میں ارشادہے:
‘‘انسان کودونوں راستے خیروشرکے دکھائے۔’’
‘‘اورنفس انسانی کی طرف برائی اورپرہیز گاری کا بھی الہام کیا۔’’
جب انسان کےسامنےدونوں راستےہیں اب چوائس اورانتخاب کاسوال پیداہوا،یعنی دونوں میں سےکسی راستےکاانتخاب کرے،اس لیےآزمائش خاطریہ بھی ضروری تھاکہ انسان کواتنااختیارملےکہ وہ دونوں میں سےکسی ایک کواپنی مرضی اورارادےکےمطابق اختیارکرے۔اسی لیےاس کواپنےکسی بھی ارادےکوعمل میں لانےکی قوت اوراختیاردیاگیاہے،آزمائش کےلیےضروری ہےکہ جس کوآزمایاکائےاس کودونوں اطراف میں سےکسی ایک کواختیارکرنےکی قوت ہوورنہ اگراس کوغلط یابرائی کاراستہ اختیارکرنےکاایک قسم کااختیارہی نہ ہوتاتوپھرانسان جمادات کی طرح ہوایامشینی صفت انسان ہواجس کونہ اپناشعورہےنہ کوئی ارادہ یااختیارچلانےوالےنےاس کوچلادیاتوچل رہی ہےجب بندکیاتوبندہوگئی،نہ اپنےارادےسےحرکت میں آئی اورنہ ہی اپنےارادےسےحرکت کوبندکیاایسےانسان کےلیےجزاوسزاکاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا،مثلاکوئی انسان مجنون یادیوانہ ہےتومرفوع القلم ہے،کسی کام کی وجہ سےشرعااسےسزانہیں،کیونکہ اس یں عقل نہیں ہے،لہٰذااس کےکام بےاختیارہیں،عقل وارادہ ماتحت نہیں ہیں۔بہرحال انسان کوصاحب الارادہ والاختیاربنایاگیاہے،تاہ وہ اپنےاختیارسےکسی بھی راستےکاانتخاب کرلےاسی کےمطابق چلےاورپھراس کانتیجہ دیکھے۔
یہی ارادہ اوراختیارکسی حدتک آزادی کےساتھ ساراامتحان اوراس کی جزاوسزاکی بنیادہے۔
ہ:۔۔۔۔۔۔یہ سوال پیداہوتاہےکہ آخرانسان کواتنااختیاردےکراس امتحان حال میں کیوں لایاگیاہے؟یاان کےآزمائش کی کیاضرورت تھی؟
اس کےلیےیہ گذارش ہےکہ اول تویہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاذاتی معاملہ ہےہم اس کےبارےمیں کیاقیاس آرائی کرسکتےہیں،تاہم ہمارےناقص علم اورفہم میں جوحقیقت آئی ہےوہ یہاں عرض کرتےہیں۔(واللہ اعلم)انسان کی اس طرح صورت ری کرکےاسےگوناگوں لیاقتوں سےمزین بناکرمختلف قوتوں سےمسلحبناکراورقدرےاختیاردےکراس عالم رنگ وبومیں آزمائش کےلیےآمدسےاللہ تعالیٰ کی کتنی صفات حمیدہ کاظہورہوااللہ تعالیٰ تواپنی ذات پاک میں غنی وحمیدہے،لیکن اگران صفات اورلیاقتوں والاانسان نہ ہوتاتواللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت عدل،رحم،فضل،کرم،حلم برداری،غفاریت والی صفت اورہرچیزکےخالق ہونےکی صفت(پہلےلکھ چکےہیں کہ یہ ساری کائنات انسان کےلیےہی پیداکی گئی ہے)بندوں سےمحبت کرنا،عفوودرگزرسےکام لیناکی صفات وغیرہ وغیرہ آخروہ کس طرح ظہورپذیرہوئیں۔ملائکہ(فرشتے)توپہلےپیداتھےمگرصرف ان کی پیدائش سےیاان کی موجودگی سےاوپرذکر کی گئی بےشمارصفتوں کاظہورنہ ہواکیونکہ ان فرشتوں کوکوئی اختیارنہیں ہے،لہٰذاوہ کون سی خطائیں کہ الہ سبحانہ وتعالیٰ ان کوصفت غفاریہ سےمعاف کرتے،ان میں ظلم کامادہ نہ تھااورنہ ہی اس کواختیارکرنےکی ان میں قوت تھی،پھراللہ تعالیٰ کی صفت عدالت کاکس طرح ظہورہوتا۔علہ ہذاالقیاس دوسری کئی صفات کوسمجھاجاسکتاہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اگراتنی ساری مخلوق مع انسان پیدانہ کرتےتوان کوکون پہچانتااگرچہ وہ خودتوہمیشہ ہی سےاپنی ذات کےاعتبارسےغنی،حیداورمجیدتھا۔اسی طرح اس بااختیارانسان کواس عالم میں بھیجنےسےکیاوجودمیں آیاہے؟اللہ تعالیٰ نےانسانوں کےمتعلق فرشتوں کوفرمایا:
‘‘یعنی انسان میں کیاکیاخوبیاں ہیں وہ کیاکیاکرسکتاہے،اس کوکتنابڑاعلم دیاگیاہے،اس میں کتنی سمجھ رکھی ہے۔اس کاعلم آپ کونہیں ہے،یہ اللہ تعالیٰ کےفرمان کاہی نتیجہ ہےکہ انسان زمین توزمین مگراجرام علویہ کےتسخیرکےاحوال جاننےکےلیےکمربستہ ہوگیاہےجن میں کچھ تک توقدرےپہنچ بھی گیاہےاوریاکیاعجیب وغریب چیزیں ایادکردیں،یہی روزبروزکہاں سےکہاں تک پہنچ گیاہےکیایہ ساراکچھ علم کاکرشمہ نہیں ہے؟بہرحال اللہ تعالیٰ کےاتنےبڑےبےانتہاکاظہوربھی انسان کی تخلیق سےہوا۔مشہورمقولہ ہے‘‘حرورت ایجادکی ماں ہے’’یعنی جب کوئی ضرورت پیش آتی ہےتواس کےحل کےلیےانسان کوئی نہ کوئی ایجادیاراستہ تلاش کرتاہےتاکہ اس کی وہ ضرورت وحاجت پوری ہوجائے،اب سوچناچاہیےکہ اگران ضرورتوں اورصفتوں والاانسان نہ ہوتاتواس دنیا کی کسی بھی چیز سے کوئی ایجادنہ ہوتی،اس کائنات کے ذرے ذرے میں بے شمارقوتیں اورفائدےمالک کائنات نے رکھے ہیں۔ان کاکبھی بھی ظہورنہ ہوتا،لیکن جب جب انسان کو ضرورتیں لاحق ہوتی گئیں۔تب تب وہ اس کائنات کے کیمیاء مظاہراوراشیاء سے وہ خفیہ قوتیں اپنے تجربہ اورسائنس کے علم سے ظاہرکرکے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اوراسی ابتلااوربااختیارہونے کی صورت سے انسان میں باقاعدہ ترقی کرنے اورایک دوسرے سے سبقت لے جانے والاجزبہ پیدا ہوتا ہے،ورنہ مشینی صفت مخلوق کیسی بھی ہوتی اس سے ایسی ایجادات وجود میں نہ آئیں۔وہ تواپنی حرکت میں لانے والی تحریک پرایک خاص سمت یا ڈائریکشن پر چلتا رہتا ،دوسری طرف توجہ کرنا یا ترقی کرنے کا شعورہی نہ ہوتا۔لہذا ترقی یا گوناگونی اوررنگاررنگی طرزوبودوباتوں کا توخیال ہی نہیں آتاکیا یہ معمولی بات ہے؟کیا یہ بڑی حکمت نہیں ہےجوکہ ایک حکیم علیم ہستی کی طرف رہنمائی کررہی ہے؟اس پر خوب غورکرنا چاہیئے۔
و:۔۔۔۔۔۔انسان کواتنے اختیاراورارادےکوعمل میں لانے کی آزادی کی وجہ سے اس عالم میں لامحالہ نمونے ظاہرہونے تھے کوئی خیر کوتوکوئی شرکواختیار،کوئی اعلی سے اعلی توکوئی اسفل السافلین کی طرف جانے کی سعی کرتا ۔کوئی بلند اخلاق کا مجسمہ ہوتا توکوئی بداخلاقی کی بدترین مثال ہوتا۔کیونکہ بدی کا اختیاراس سے سلب کیا جاتا توآزمائش کا بنیادی ختم ہوجاتا۔جس طرح تفصیلا ذکرکرچکے ہیں۔
ذ:۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی نے انسان کی فطرت بالکل صحیح وسالم اوردین اسلام کے مطابق بنائی ہے جس طرح قرآن میں ہے:
‘‘پس آپ اپنے چہرے کو یا توجہ کودین پرقائم رکھیں اس حال میں کہ توباطل سے حق کی طرف جانے والاہوتا۔’’
یعنی وہ دین اسلام جس کے مطابق اللہ تعالی نے انسانوں کی فطرت بنائی ہے۔صحیح حدیث بخاری وغیرہ میں ہے کہ:
‘‘ہربچہ اپنی صحیح فطرت پر ہی پیداہوتا ہے۔’’
اسی طرح سورۃ التین میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
‘‘بے شک ہم نے انسان کو ایک بہترین بناوٹ میں پیداکیا ہے۔’’
بہرحال کسی بھی ماحول یا خاندان میں بچہ کا تولدہومگروہ اپنی ماں کے پیٹ سے صحیح فطرت لے کر باہر آتا ہے،یعنی کسی کو مسلمان یا کافر بناکرپیدا نہیں کرتا ،لیکن اس عالم میں آنے کے بعد ماحول،سوسائٹی ،خاندان اس کے رسم ورواج اوراس کے علاوہ دوسرے کئی اسباب اس کی فطرت کو بگاڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔اس کے باوجود بھی ان کافوری تدارک ہواتوزائل ہوجاتے ہیں ورنہ آگے چل کروہ لاعلاج اسٹیج پرپہنچ جاتے ہیں۔(اعاذناالله منها)
بہرصورت انسانی فطرت توسب کی صحیح ہوتی ہے،اس میں کوئی فرق نہیں ،البتہ انسانی لیاقت صلاحیت ،استعداداورانسان میں رکھی ہوئی قوتوں میں کافی فرق ہوتا ہے،ایک انسان میں قوت برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے توکئی انسانوں میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے،کسی انسان میں کائی خاص لیاقت ہوتی ہے تودوسرااس سے محروم ہوتا ہے ،کوئی انجینئر ہے توکوئی کامیاب ڈاکٹر،کوئی ماہروکیل ہے توکوئی خطابت کا شہسوار،کوئی حکمرانی،بادشاہی یا امارت وسیادت کا حامل ہے ،تودوسری طرف کوئی مزدوری کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔ایک انسان جسمانی قو ت میں اوپر ہے تودوسرانہایت ہی کمزورہے۔اسی طرح خارجی امورکو دیکھاجائےتومعلوم ہوگا کہ قدرتی لحاظ سے اس میں بھی مساوات نہیں ہے۔ایک مالداراوربڑاسرمایہ دارتودوسرافقیراورمحتاج ہے،ایک شخص کے بے شماراعوان ،انصار،عزیز واقارب ،خاندان وقبیلہ کے بے شمارافرادہیں جو ہر معاملے میں اس کے ساتھ ہوتے ہیں تودوسرے بیچارے کاکوئی یارودوست نہیں ہوتا۔ایک طاوسی تخت کی زینت بناہوا ہے تودوسرے کو کوئی جوتوں کی جگہ پر بیٹھنے نہیں دیتا۔درحقیقت یہ اختلاف اس عالم کی زیب وزینت ہے جس طرح شاعرذوق نے کہا ہے۔
مگریہ اختلاف مصنوعی نہیں بلکہ قدرتی ہے۔اس لیے کہ زندگی کا ہرشعبے میں انسان کی آزمائش ہوسکے جس طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں:
‘‘اللہ وہ ہے جس نے تمہیں زمین کاخلیفہ بنایااورتم میں سے ہی بعض سےبعض کوبلند کیا تاکہ جو کچھ تمہیں عطاکیا ہے اس کے متعلق تمہاری آزمائش کرے۔’’
ظاہرہے کہ اگر دنیا کے تمام انسان غنی اومالدارہوتے تومالی یا اقتصادی اوراجتماعی تعاون کے لحاظ سے ان کی کس طرح آزمائش ہوتی؟اگرسارے طاقتورہوتےیاسارےبے پرواہ ہوتے توکسی محتاج یا کمزور،بیوہ اورمسکین کی مددکرکے اس خوبی اورکمال کو انسان ذات کس طرح حاصل کرتی ؟حالانکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا ابتلاء ہونا تھا،اسی طرح اندرونی قوتوں میں بھی مساوات ہوتی ۔ایک دوسرے کا بروتقوی میں تعاون کا سلسلہ ناپید ہوتا توپھر کسی انسان کو کسی بھی صفت کی تعریف وثنا کا موقع ہی نہ ملتا۔دنیا ایک خشک اوربہجت ورونق سے عاری ایک اکتانے والی یکسانیت کا بے ڈھنگہ نمونہ بن جاتی ۔ہم انسانوں کی یہ حالت ہے کہ کسی بھی معاملے یا کام یا امیرمیں یکسانیت کو ہرگز پسند وبرداشت نہیں کرت ۔اسی لیے مالک الملک نے ہماری زندگی کو نیک دلچسپ نمونہ عطاکیا ہے،جس کے کسی بھی شعبے میں یکسانیت نہیں ہے۔اللہ اکبر !اوراسی اختلاف کی وجہ سے لوگوں کے اعمال،عقائد،تصورات لائحہ عمل طریقہ کارحتی کہ نیک وبدمیں بھی بڑا فرق اورتفاوت وجود میں آگیاجوابتلاء کے لیے اختیاردےکراس عالم رنگ وبومیں انسان کو بھیجنے کا لازمی نتیجہ تھا۔
ح:۔۔۔۔۔۔جب انسان کے تمام افرادکی فطرت صالح وسالم تھی توپھر وہ خیروشرمیں کیسےتقسیم ہوا؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس دہری تقسیم کے بھی کئی اسباب ہیں،مثلا ماحول سوسائٹی خاندانی رسوم وروایات،بری صحبت اورساتھ ۔جس میں زیادہ لیاقت تھی وہ بارگاہ الہی میں زیادہ مقبول ہوایا کسی دنیاوی اعلی مرتبے پر فائز مگر دوسرےمیں وہ لیاقت نہ تھی یا کم تھی اس کوپہلے کے مرتبہ ومقام پر حسد ہوااورنتیجتا اس کوئی نہایت ہی غلط قدم اٹھااوراپنے محسودکی جان کےدرپے ہوایا اسےنقصان پہنچانے کی سوچنے لگا۔ایک کوجسمانی طاقت بے پناہ ملی ہوئی تھی،جس نے اسے اختیارکے مطابق اس کو غلط استعمال کیااوراپنے کتنے ہی ہم نوعوں کی تباہی کا باعث بنا،کسی کوکوئی جسمانی ضرورت تمام زیادہ لاحق ہوئی مثلا بھوک اوربدحالی وغیرہ یا جنسی ضرورت پوری کرنے کے لیے فوری کوئی ذریعہ نہ تھا،اس نے بجائے صبر کرنے کے بھوک مٹانے کی خاطر چوری کی یا ناجائز جگہ پر اپنی جنسی ضرورت کوپوراکرنا چاہااسی طرح کئی دوسری امثال پیش کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح ان دوبلاکوں میں تقسیم ہونا ناگزیرتھا،لیکن یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے آزمائش تھی کہ بھوک اوربدحالی میں صبرکرتا ہے یا دوسراراستہ اختیارکرتا ہے۔بےحد ضرورت میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے یانہیں جس کی تفصیل اوپر گزرچکی۔حقیقت میں انسان کا کمال بھی اس میں ہے کہ وہ اس دنیامیں رہے اس کے اسباب مال ومتاع،اہل وعیال تمام باتوں سے دلچسپی رکھے اورپھر بھی اللہ کوراضی رکھےورنہ اگرکوئی تارک دنیاہوکر بیٹھ جائے تواس میں کیا کمال ہے ،قرآن نے توانہی لوگوں کو سراہا ہے جو دنیا میں رہ کراپنے رب کو راضی رکھتے ہیں۔فرمایا:
‘‘وه لوگ جواپنے کاروبارمیں معروف ومشغول بھی ہیں تاہم اس حالت میں بھی اللہ کویادکرتے رہتے ہیں۔’’
نبیﷺنے خصی ہونے سے منع فرمایاہےکیونکہ خصی آدمی میں برائی کی قوت ہی نہیں ہوتی ،لہذا وہ اگربرائی نہیں کرتاتواس میں کیا کمال ہےاوراس کی کس طرح آزمائش ہوگی،کمال تواس میں ہے کہ انسان میں طاقت مردانی بے پناہ ہواوروہ اس کوناجائز جگہ پر استعمال نہ کرے محض اللہ کے ڈراورخوف کی وجہ سے ۔اس کو راضی رکھنے کے لیے ایسے کام کے قریب بھی نہیں جاتا۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اس معاملے میں بڑی تعریف کی ہے اورفرمایا:‘‘وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔’’(یوسف)
اسی طرح انسانی خوبیوں اورخامیوں کے موروثی اثرات بھی ہوتے ہیں۔والدین کی جسمانی یاروحانی مادی یا معنوی خوبیاں اورخامیاں اولاد کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہیں۔حتی کہ بعض بیماریاں بھی موروثی ہوتی ہیں،آج کل ‘‘نفسیات’’(Psy Chology)کے ماہرین کی بھی یہ تحقیق ہےکہ اولادکی طرف آباواجدادکی صفتیں یاخصائل منتقل ہوتےہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ:‘‘حضرت آدم علیہ السلام سےخطاہوئی تواس کےاولادمیں یہ بات چلی،ان سےبھول ہوئی تواس کی اولادمیں یہ بات چلی آرہی ہے۔وغیرہ وغیرہ’’گویاضروری اورحتمی نہیں ہےکہ خاندان یاوالدین کی خصوصیتیں بالضروراولادکی طرف منتقل ہوتی ہوں،بلکہ نہیں بھی ہوتی۔مقصدکہ یہ بھی ایک سبب ہوتاہےجوگاہےبگاہےبعدکی اولادکےسدھارےیابگاڑکاسبب بنتاہے۔میراایک چشم دیدواقعہ ایک مزدورکی دوبیویاں تھیں،انسان کتنی بھی کوشش کرےلیکن دل کامیلان ایک کی طرف ہوتاہےبرابری اس معاملےمیں ناممکن ہوتی ہے۔اس آدمی کی دونوں بیویوں سےاولادتھی۔ایک بیوی سےزیادہ محبت اوردوسری سےتھوڑی کم محبت تھی،جس کی وجہ سےایک بیوی کودوسری پرزیادہ غم اورغصہ تھااندرہی اندرغصہ کی لہرموجودتھی۔ایک دن وہ مرداپنےچھوٹےبیٹے(جوزیادہ مح﷽ت والی بیوی سےتھا)کوکندھےپراٹھائےہوئےتھااورساتھ ہی دوسرےکندھےپردوسری بیوی کاچھوٹابیٹاتھا،خاوندنےدوسری طرف توجہ کی توچھوٹےبیٹےنےجودوسرےآدمی کےکندھےپرتھاوہ اپنےدوسرےبھائی کابازوپکڑکاٹنےلگا(دانتوں سے)توباپ نےدیکھ لیااوراس سےچھڑایا،یہ دیکھ کرمجھےحیرت ہوئی کہ کیاعجیب معاملہ ہےکہ ماں کےغم اورغصہ کااثرچھوٹےبچےپربھی نمایاں ہے،اللہ کی قدرت سےوہ بچہ پھرجلدہی فوت ہوگیا،چونکہ دوسرابیٹااس سےچھوٹاتھااس سےگمان ہورہاتھاکہ اس عمرمیں اگراتناغصہ ہےدوسرےبھائی پرتوبڑاہوکرپتہ نہیں کیاکرےگا۔دونوں مائیں اعلیٰ پوزیشن کی تھیں مردبھی بڑی حیثیت کاتھااوردوسری بیوی جس سےکم محبت تھی وہ خاندانی لحاظ سےان دونوں سےبہتری تھی،اگرخدانخواستہ وہ بچہ ہوتاتوپتہ نہیں دوسرےبھائیوں کاکیاحشرکرتالیکن عالم الغيب والشهادةنےاس کوپہلےہی بلالیا۔
ط:۔۔۔۔۔۔کوئی بھی آدمی کوئی کارخانہ بناتاہےیاکوئی میکینک یامشین وغیرہ بناتاہےتواسےان کےمتعلق مکمل معلومات رہتی ہے،مثلاکارخانہ میں فلاں چیزکہاں پرہےیاکہاں رکھی جائےیافلاں پرزےکاکیاکام ہےاس کی کارکردگی میں کیاکیاموانع ہوتےہیں یاپیداہونےکےامکانات ہوتےہیں،اس لیےوہ ان کی مرمت وغیرہ کےلیےاوزاراورآلات کوتیاررکھتاہےتاکہ بوقت ضرورت ان کی فوری اصلاح ہوسکے،اگرکسی میں کوئی نقص یاخرابی پیداہوتی ہوتوفوراسمجھ جاتاہے،فلاں پرزےمیں خرابی ہےتوکیااللہ سبحانہ وتعالیٰ جس نےیہ کائنات پیداکی ہے۔اس کواس کےبارےمیں یہ علم نہیں تھایانہیں ہے؟ایسی بےہودہ بکواس کوئی جاہل ہی کرسکتاہےکسی دوسرےمیں جرات نہیں ہوسکتی،لیکن انسان کےاندرعلم اوراندازےکی ایک حداورانتہاہوتی ہےوہاں پہنچ کراس کاعلم اوراندازہ ختم ہوجاتاہےمگراللہ سبحانہ وتعالیٰ کاعلم وسیع وعریض ہےجس کااندازہ لگانےسےبھی انسان عاجزہے۔اس وجہ سےاللہ تعالیٰ کےعلم اورانسان کےعلم میں یہاں فرق اورامتیازات ہیں وہاں یہ بھی ایک اہم فرق اورامتیازجہاں انسان کوکسی پرزےمیں نقص یاخرابی پیداہونےکااندازہ خرابی پیداہونےکےبعدہوتاہے،وہاں اللہ تعالیٰ کواس کاپہلےہی علم ہوتاہےکہ دنیاکی فلاں چیزمیں فلاں وقت یہ نقص یاخرابی پیداہوگی اوراس کےاسباب کابھی پہلےہی علم ہوتاہے۔اس خیروشرکےیہ اسباب ہوتےہیں،اس نکتہ کوخوب ذہن نشین کرلیں۔
ی:۔۔۔۔۔۔جب کوئی اسکیم بنائی جاتی ہےتواس کانقشہ اورخاکہ ذہن میں بٹھایاجاتاہے۔اس کےساتھ ساتھ اسکیم تیارکرنےوالوں کےذہن میں اس کےنتائج یااس کوعمل میں لانےسےجواردگردکےماحول میں اثرات مرتب ہوتےہیں وہاں یہ بھی ذہن میں موجودہوتےہیں جن کوبعدمیں کاغذپرمنتقل کیاجاتاہے،پھراس کوعمل میں لانےکےلیےتیاریاں کی جاتی ہیں اوراس کی شروعات ہوتی ہیں،لیکن انسان کاعلم محدودہوتاہےجس کی وجہ سےکبھی کبھی نتائج اس کےمنصوبےکےخلاف آتےہیں یااندازےسےکم ہوتےہیں یاان کےساتھ کئی دوسرےنتائج بھی پیداہوجاتےہیں،جواس کےذہن میں نہیں ہوتے۔بسااوقات وہ پوری اسکیم فیل ہوجاتی ہےلیکن اللہ تعالیٰ کےمقررمنصوبےمیں اس قسم کےنقص یاخرابی کاپیداہوناناممکن ہوتاہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کاعلم لامحدودہے۔
ان دس نکات کوذہن نشین کرنےکےبعداصل مسئلہ کی طرف آتےہیں،تقدیرکامعنی ہےاندازا۔اس کی وضاحت اس طرح ہےکہ اللہ تعالیٰ نےازل میں ارادہ کیاکہ اس عالم کوتخلیق کیاجائےاس کےمتعلق پروگرام اوراسکیم اس کےعلم میں موجودتھی جس کی تفصیل(گذشتہ نکات کی روشنی میں)اس طرح ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نےارادہ کیاکہ ایک ایسی دنیاوجودمیں لائی جائےجس کےوجودمیں آنےکےبعدہی اس کی مخلوق کومعرفت یاپہچان حاصل ہوگی اورمخلوق کوبھی پتہ چلےگاکہ اس کابھی کوئی ایک رب وحدہ لاشریک لہ ہے۔جس نےاپنی پہچان اورصفات حمیدہ کےظہورکےلیےاس دنیاکوپیداکرناچاہا،جس میں ایسی مخلوق پیداکرناکاارادہ کیاجس کےپیداہونےکےبعداللہ کی صفات کابوجہ اتم ظہورہوااوروہ مخلوق ایسی ہوحاجت عقل واختیارہومجبورمحض نہ ہواپنےارادےسےخیروشرکی راہ لےسکےپھران کوارادےکی آزادی دےکرامتحان میں مبتلاکیاتاکہ ان تمام صفات وغرض وغایات کاظہورہو۔(جن کی تفصیک نکات کےضمن میں گزری)اس مخلوقات دنیاکےمتعلق پوراخاکہ اللہ تعالیٰ کےعلم میں تھاکہ اس عالم میں جومخلوق پیداکروں گاوہ اپنےاختیاروارادےکی آزادی کےسبب لازمی طورچندبلاکوں میں بٹ جائےگی اوراس کےیہ نتائج لامحالہ اٹل طورپرنکلیں گےجوان اعمال کےنتائج ہوں گے،جس طرح مادیات کےبھی نتائج مشاہدےمیں آتےہیں یعنی کوئی اگرزہرکھاتاہےتوضرورمرجاتاہے،کوئی مقوی چیزکھاتاہےتواس سےاس کی قوت اورطاقت ملتی ہےبعینہ اسی طرح اعمال کےبھی اللہ تعالیٰ نےنتائج مقررکردیے،اچھےکام کانتیجہ یہ اوربرےکام کایہ نتیجہ نکلےگااورمخلوق کوارادےکوعمل میں لانےکی آزادی دےکراس کی آزمائش کرلوں گاتاکہ اپنےاختیارسےوہ جوچاہےکرسکےاس کومجبورمحض نہیں بناوں گاکہ وہ اپنی مرضی سےکوئی بھی کام نہ کرسکےکیونکہ یہ امتحان اورابتلاءکےمنافی ہےاوروہ جس بھی راستہ کواختیارکرےگااس کےاسباب بھی فراہم کئےجائیں گے۔جوخیرکےلیےکوشاں ہوگااس کےلیےبھی راہ ہموارہوگی اورجوشرکی طرف مائل ہوگااس کےلیےبھی دروازےکھلےہوئےہوں گے۔
کیونکہ آزمائش اس کےبغیر ناممکن ہے جس کی تفصیل نکات میں گزرچکی ہے۔اللہ تعالی کو اس دنیا کے نقشے کے مطابق یہ بھی علم تھا کہ اگر اس کی فطرت سالم ہوگی تاہم اس کو یہ اسباب سامنے آئیں گے،یہ حالات درپیش آئیں گے،ان مسائل سے دوچارہوگا،اس کو یہ صحبت میسرہوگی جس کاساتھ دینے کے لیے یہ خاص امورسامنے آئیں گے،جس کی وجہ سےیہ یہ بلاک وجود میں آئیں گے ان کے اس حسن اختیار یاسوئے(برا)اختیاراورغلط انتخاب کالازمی نتیجہ یہ ہوگا۔
حاصل کلام کہ اس دنیا کے متعلق پورانقشہ کہ یہ آسمان کے اوپر چھت اورفرش کےلیے زمین اورباقی ضروریات کے لیے پہاڑ ،دریا ،باغ باغیچے اورزمین کے اندرمعدنی اشیاءکہاں ہوں گی یا کہاں پرزیادہ ہوں گی اورروشنی کے لیے سورج اورچاند وستارے وغیرہ ہوں گے ان سب کے لیے خاص دائرہ یا جگہ یا حلقہ مقررہ ومعین ہوگا اس کرہ ارض میں سمندراوردریاوں کی وراثت کس طرح ہوگی؟خشکی کی اراضی کس طرح ہوگی؟سورج زمین سے کتنا دورہوناچاہیئے؟زمین پر موسموں کااندازہ اورتقسیم ہونی چاہیئے پھر ان موسمی مضراثرات سے بچاویادوسری کائناتی نقصان کاراشیاء سے بچنے کے لیے کیا تدابیر ہونی چاہیئے ؟اس کے متعلق اللہ تعالی کا علم واندازہ بہر حال اس بڑے گھرجس میں ضروریات کی تمام چیزیں موجودہوں اس کے مکمل منصوبے کے بعد اس میں باارادہ مخلوق کو بسانے اوراس کے نسلی اضافے کے ان کاکرہ ارض کے مختلف خطوں اورعلاقوں میں آبادہونا اوراس کے بعد اس کے ماحول حالات وکیفیات میں اختلاف کے سبب اسی مخلوق کے احوال واعمال کرنا،بودوباش میں اختلاف ہوگااورجن کو جہاں خاص امورسے دوچارہوناپڑے گا،اس کے مطابق خود کو ان حالات کےمطابق بنانے کی کوشش کرے گا،کچھ ناگزیر اسباب کی وجہ سے ان کے عقائد واعمال اخلاق وغیرہ میں اختلاف ہوگا۔جس کی وجہ سے منافرت اورایک دوسرے کے مقابلے بھی ہوں گےاورکئی وجوہ کی بنا پر وہ برائیوں اوربداخلاقیوں میں بھی سب گرفتارہوں گے ،لیکن اللہ تعالی اپنی حجت پوری کرنے کے لیے ان پر انبیاء بھیجے گاجونا کو شرسےخیر کی طرف آنے کی دعوت دیں گے اورجنہوں نے ان کی بات کو مانا وہ دونوں جہانوں میں کامیاب ہوں گےاورجنہوں نے ان کی بات کو نہ ماناوہ نتیجتا بڑے وبال سے دوچارہوں گے یعنی اسی طرف اللہ تعالی کو نہ صرف کلی یا اجمالی طرح بلکہ تفصیلی اورہرجزکا علم تھا کہ اس آدمی کویہ باتیں پیش آئیں گی۔
جس کی وجہ سے یہ ہدایت یافتہ ہوگااوریہ اسباب سامنے آئیں گے جس کی بنا پر وہ گمراہ ہوگا۔
اس سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ اللہ تعالی نے خود اس کو اس راستے پر چلایا یا خود اس سےیہ گناہ کا کام کروایابلکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے انسان کو آزمانے کے لیے ارادہ کو عمل میں لانے کےلیے آزادی دی ہے جس کے نتیجے میں لامحالہ وہ طریقے وجودمیں آنے تھے اوروجود میں آئے کہ جن کے نتائج بھی لازمی نکلنے تھے مطلب کہ اللہ تعالی نے انسان کو عمل کی آزادی دی ہے تاکہ اس کوآزمایاجائے اورانسان اس آزادی سے کوئی بھی کام لے چاہے اچھا لے یا برا۔اپنی مرضی اورارادے سے اللہ تعالی نے اتنا کیا ہے کہ ایسانظام قائم کردیا ہے جس سے انسانی ارادے کی آزادی بھی برقراررہتی ہے اورآزمائش کی صورت بھی عمل میں جاتی ہے۔
فرض کریں کہ کسی آدمی کے چند نوکریا ملازم ہوں یا چند بیٹے ہوں وہ ان نمونے اورطرزعمل سے اندازہ لگالیتاہےکہ فلاں خادم فرمانبردارہے یا فلاں بیٹا فرمانبردارہے،لیکن اگروہ محض اپنے اندازے کے مطابق ان کے ساتھ نافرمانوں والاسلوک کرےگاتووہ کہہ سکتے ہیں کہ باباسائیں ہمیں آزمالیتا،بغیرآزمانے کے ہمارے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے یا یہ سزادیتا ہےان کی اس حجت کو ختم کرنے کے لیے ان پر کوئی کام رکھتا ہے یا ان کو کوئی ذمہ داری دیتا ہے،پھر وہ فرمانبرداری یا نافرمان اس ذمہ داری پوری کرنے یا نہ کرنے کی وجہ سے مالک یا باپ کی طرف سے مناسب سلوک یا جزاوسزاپالیں توان کو یہ حق کہاں ہے کہ وہ کہہ دیں ہم ایسے ہیں اس لیے اس کے علاوہ کیا بن سکتے تھے۔
کیونکہ اس آدمی کا علم ان کے طرز عمل کے سبب تھا ،لہذا اس علم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے ان کو مجبورکیا،اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے توتمام انسانوں کی فطرت صحیح سالم پیداکی ہے ،لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد اس عالم کے جو اسباب اس کے سامنے آئے ہیں ان کواپنی مرضی سے اختیار کرنے کے سبب وہ نتائج اس کے دامن میں پھنس جاتے ہیں،یہاں ہم انسانوں کو لوگوں کے طرز عمل سے اندازہ ہوجاتا ہے لیکن وہ طرز عمل کس سبب سے ہواوہ کبھی معلوم ہوجاتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔لیکن اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ اس کو یہ اسباب سامنے آئیں گے جس وجہ سے وہ اپنی آزادی کے اختیارکے مطابق اس کو اپنائے گا اورنتیجہ بھگتے گا،تویہ آزادی آزمائش کے لیے ضروری تھی۔
دوسری مثال:ایک ماہرڈاکٹر کسی مریض کے چیک اپ کے بعد اس کو کہہ دے کہ یہ نہیں بچے گاپھروہ آدمی واقعتا مرگیا توکیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اس ڈاکٹر نے اس کو مارڈالاہے؟ہرگزنہیں!ڈاکٹر تواس کی بیماری کی نوعیت اورکیفیت ڈگری اوردرجے کے علم کےمطابق اس بات کا اظہارکیا البتہ یہ بیماری اس اسٹیج پرکیسے پہنچی یاشروع کیسے ہوئی اس کا پتہ کبھی کبھی ہوتا ہے تو کبھی کبھی نہیں ہوتا ،لیکن اللہ تعالی کو ہر انسان کی جسمانی یاروحانی بیماری کاعلم ہوتا ہے اوراس کے پیداہونے کا بھی علم ہوتا ہے توکیا یہ علم اعتراج جیسی بات ہے؟
بہرحال اس عالم کا اس مکمل نقشے یا خاکے کے علم اوراندازے کے بعد اللہ تعالی نےاس کوایک کتاب میں ثبت کردیا ہے جس کو وہ‘‘ قرآن مبین’’یا‘‘امام مبین’’سے پکارتا ہے،مطلب کہ تقدیر کی معنی ہے علم یا اندازہ تواس میں کیا خرابی ہے؟اس سے تواللہ سبحانہ وتعالی کے علم اوراندازے کی وسعت معلوم ہوئی جو کہ اس کی کمال کی صفت ہے اس میں کوئی بھی خرابی نہیں ہے۔یہاں اگراللہ تعالی یہ لکھ دیتے کہ فلاں بندے تونے یہ کام کرنا ہے اورفلاں تونے یہ کام کرنا ہےتواس صورت میں کچھ بولنے کی گنجائش ہوسکتی تھی لیکن اس طرح نہیں،اس نے تویہ لکھا ہے کہ فلان آدمی ان وجوہات کی بنا پراپنی آزادی سے کام لے کریہ کام کرے گاخداراانصاف کریں اس میں کیا خرابی ہے؟کہ کون سی اعتراض جیسی بات ہے؟
جب کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالی کے علم وحکمت ،تقدیری اندازے کا بے اندازاوربے شمارثبوت فراہم کررہا ہے ،توانسان کے متعلق اس کے علم واندازے کا انکارکیوں؟
یہاں پر یہ سوال بالکل فضول ہےکہ اللہ سبحانہ وتعالی کیوں انسان کے سامنے یہ مختلف اسباب لائے ہیں جن کی وجہ سے وہ خیر اورشرکے مختلف حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں کیوں نہ ان کےسامنے ایک ہی راستہ لائے ؟اس لیے کہ اس صورت میں انسان مشینی صفت کی ایک مخلوق ہوتااورایک ہی راہ کولے چلتا اوراس میں اس کے ارادے یا عمل کا کوئی دخل نہ ہوتا،اس حالت میں امتحان یا آزمائش والی بات سراسرمہمل اوربیکارہوجاتی کہ اس کو کسی راستے اختیار کرنے کاکوئی اختیار ہی نہیں ہے اس لیے آزمائش کس چیز کی ؟بہرحال ابتلاء اورآزمائش اورکے لیےدونوں راستوں کا ہونا اورانسان کے سامنے پیش آنا اٹل اورضروری تھا تاکہ ان میں خود جس کوچاہے اس کو اختیارکرلے ،دنیا کمال حاصل کرلے یا اپنی لیاقت اورصلاحیت کو ضائع کرکےترقی اورفلاح کا دروازہ خودہی بند کردے۔یہ حقیقت اس قدرواضح ہے جس کا انکارسوائےضداورعنادکے ممکن ہی نہیں ہے۔یہاں پریہ سوال بھی قابل دریافت ہے کہ تقدیر کے متعلق سوالات ملحد(اللہ تعالی کے وجود کا انکاری)ان کی طرف سے پیش ہوئے ہیں یاکسی مسلمان جاہل کی طرف سے ،اگرپہلی شق ہے تودرحقیقت ان سوالات کے جوابات دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تقدیر یا علم واندازہ یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی صفت ہے جو شخص اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود ہی کا منکر ہے اس کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی کی صفت کے بارے میں بحث کرنا سراسربیکاراورفضول ہے،بحث ومناظرے کے طریقے بھی برخلاف ہے تووقت کا بھی ضیاع ہے۔
صفت کی ذات کی فرع ہوتی ہے،جب کوئی ذات ہی کو نہیں مانتاتواس کی صفت یاخوبی اورکمال پر بحث کرنا یاا س کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے چھان بین کرنا سراسرغیرمعقول ہے ۔ان حضرات کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات کے بارے میں بحث کرتے ہوئےدلائل پیش کرنے چاہیئں۔پھر جب وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود کے دل سے اقراری بنے توپھر صفات کے متعلق تحقیق ہونی چاہیئے اورحق کو معلوم کرنا چاہیئے ۔یہ حضرات تواللہ سبحانہ وتعالی کےوجود کے ہی منکر ہیں ۔باقی ایسے سوالات صرف لوگوں کو سمجھانے کی خاطر کرتے رہتے ہیں یہ طریقہ کاردرست نہیں ہے اس طرح حق واضح نہیں ہوگا۔
لیکن اگر یہ سوال کسی جاہل مسلمان کی طرف سے ہے تواس کو حکمت موعظہ حسنہ اورنرم وشریں الفاظ میں پوری حقیقت سمجھانی چاہیےکہ ‘‘بھائی تقدیر کا معنی ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا اندازہ یاعلم ،لہذا ااگرقائل نہیں ہواتواس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارامعبوداللہ سبحانہ وتعالی جس نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا اورکائنات کے ذرے ذرے میں بے شمار حکمتیں رکھیں جس کے قلیل انداز کو اہل علم وسائنس روزبروزکائنات کے مظاہرسےاخذاوراستنباط کرتے رہتے ہیں۔یہ معبود(معاذاللہ)کوئی جاہل معبودنہیں جس کو کوئی پتہ ہی نہیں ہے کہ اس کی پیدا کردہ مخلوق کیاکام کررہی ہے یا کرے گی،یعنی نعوذ باللہ اس نے صرف اس مخلوق کو پیداکردیاباقی ا س کویہ پتہ ہی نہیں تھا کہ اس میں صلاحیتیں اورلیاقتین ہیں اوران استعدادکے موجب ان سے کون سےکام صادرہوں گے،حالانکہ کوئی بھی انسان کوئی چیز یا مشین وغیرہ ایجادکرتا ہے تواس کویہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ چیز کس کام کی ہے اس سے کیا فائدے اورکیا نقصانات ہوں گے ،مگر اللہ تعالی کے متعلق یہ نہایت بدترین اورگھٹیاتصورہے کہ اس کوکوئی پتہ ہی نہ تھا۔(فیاللعجب)
اس تھوڑی سی حقیقت پر نظر ڈالوگے توزیادہ الجھن اورخسارے سے بچاوہوجائے گا۔
اس سوال کا جواب زیادہ لمباہوگیا ہے ،لیکن کیا کریں میرے خیال میں اتنی تفصیل میں جائے بغیرسوال کا جواب شاید سمجھ میں نہ آتا۔بہرکیف سوال کا جواب آپ کے سامنے ہے اگر ٹھیک ہے ،تویہ اللہ سبحانہ وتعالی کی مہربانی ہے جس نے مجھے اس کا علم دیا اوراس کے لکھنے کی توفیق دی اوراگرخدانخواستہ صحیح نہیں ہے تویہ میرے نفس کی نادانی اورقلم کی کمزوری ہے۔