سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22)اللہ کا حاضر و ناظر ہونا

  • 14807
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1431

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل مختلف رسائل میں حتی کہ اہلحدیث جماعت کے رسائل  وکتب میں بھی یہ ملتا ہےکہ اللہ تعالی حاضر ناظر ہے حالانکہ اللہ تعالی سلف صالحین وصحیح مسلک کے مطابق اپنے عرش عظیم پرمستوی ہے اورہرجگہ اس کی قدرت قاہرہ کام کررہی ہے اوراپنے علم کی صفت میں ہرجگہ ہے ،تاکہ بذات خود اوریہی قرآن حکیم میں مذکورہےبہت سی آیات اس پردال ہیں۔مثلا‘‘ثم استوى على العرش’الرحمن على العرش استوى وغيرهما’’اس صورت میں کیا مذکورہ بالاالفاظ(حاضرناظر)(جس سےاللہ تعالی کا بذات خودہرجگہ ہونا مترشح ہوتا ہے)کہنا جائزہے۔یانہیں بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس جواب کے لیے ذیل کا قاعدہ ذہن میں رکھنا چاہیےکہ کسی زبان کے لفظ یا جملہ کا دوسری زبان میں عام فہم ترجمہ کرنایااس کے مضمون کے اداکرنےکے لیے اس زبان میں جو مروجہ الفاظ ہوں ان سے مطلب اداکرنا کوئی معیوب بات نہیں ہےکیونکہ عوام اپنی زبان کے الفاظ کو زیادہ جلد سمجھ جاتے ہیں صرف  یہ حاضروناظر ہی نہیں اوربھی بہت سے الفاظ ہماری زبانوں میں عام طورپر رائج ہیں حالانکہ ان کے متعلق کسی نے اعتراض نہیں کیا مثلا خدادھنی پاک وغیرہ اب قرآن وحدیث میں خدادھنی پاک وغیرہ میں سے کوئی لفظ بھی مستعمل نہیں ہے۔حالانکہ یہ الفاظ زبان زدعام وخاص ہیں نہ کسی نے اس پر اعتراض کیا ہے نہ اس کو اللہ تعالی کے بارہ میں استعمال کرنے کو براسمجھا ہے کیوں ؟اس لیے کہ یہ الفاظ اللہ تعالی کی صفات کے معانی میں جو خوداس ذات جل وعلا نے اپنی ذات قدوس پراطلاق کئے ہیں مثلا خدالفظ القیوم کی معنی رکھتا ہے،دھنی مالک یا مولی کا ہم معنی ہے اورپاک قدوس کے معنی کا حامل ہے۔اب خدا بخش کے معنی ہوئے قیوم کا بخشاہوا،دھنی بخش مولابخش کامترادف ہے اللہ پاک اللہ قدوس کا ہم معنی ہے لہذا چونکہ یہ الفاظ اللہ تعالی کی ان ہی صفات کے معانی جو خود اس ذات قدوس نے اپنے اوپر اطلاق کیے ہیں(یعنی قیوم مالک یا مولی،قدوس یہ سب صفات قرآن حکیم میں ملتی ہیں)توان الفاظ کا استعمال کرنا جوہماری زبانوں میں ان صفات کے مرادف ہیں کوئی معیوب بات نہیں ہے اسی طرح گواللہ سبحانہ وتعالی کی ذات جل وعلا توعرش کریم پر مستوی ہے لیکن وہ اپنے وسیع علم وقدرت کےاعتبار کے ساتھ ہمارے ساتھ ہے قرآن حکیم فرماتا ہے:

﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌﴾ (الحدید:۴)

‘‘یعنی اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہےجہاں  کہیں بھی تم ہواوروہ ذات پاک تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔’’

اب  اللہ تعالی کا ہمارے اعمال کو دیکھنے کا مفہوم لفظ ناظر سے اداکیا گیا ہے ۔اور﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾کامطلب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بذاتہ تعالی وتقدس اس جگہ پر موجود ہیں بلکہ اس کایہ مطلب ہے کہ وہ ہمارے ساتھ(یعنیوَهُوَ مَعَكُمْ)اب جوساتھ ہونے کا مطلب لیا جائے گا وہی حاضر کا بھی ہوگااگرساتھ ہونے (مَعَكُمْ)سےہرجگہ پر بذاتہ تعالی وتقدس موجود ہونا لازم نہیں آتا توحاضر کے لفظ سے یہ کہاں لازم آتاہے؟مقصد یہ کہ لفظ حاضر اللہ تعالی کی معیت کو ظاہر کرتا ہے اوریہ لفظ‘‘معیت’’کتاب وسنت میں بکثرت واردہے۔

اورجس طرح کتاب وسنت میں معیت سے مراد میعت علمی ہے اسی طرح حاضر ہے(جوہماری زبانوں میں اسی کاہم معنی ہے)اس سے بھی یہی معیت علمی مراد ہے نہ کہ اللہ تعالی کا  بذاتہ تعالی وتقدس موجودہونا کسی زبان کا ہم معنی لفظ اللہ تعالی پر اطلاق کرنا ناجائزہے۔(یعنی جو اللہ تعالی کی کسی صفت کے مرادف ہو)تواس سے دوخرابیاں لازم آئیں گی۔

(1)۔۔۔۔۔۔وہ تمام الفاظ جو متفقہ طورپرامت کے خواص وعوام استعمال کررہے ہیں۔مثلاخدابخش،وھنی بخش اللہ پاک،پروردگاروغیرہ وغیرہ سب الفاظ ناجائز ہوجائیں گےاورزبان کاقافہ ایساتنگ ہوگاکہ ہربڑی مشکل پیش آجائے گی۔

(٢)۔۔۔۔۔۔یہ کہ اس صورت میں ہم اللہ تعالی کی کسی بھی صفت کی معنی نہیں کرسکیں گے،فرض کیجئے ہم کہتے ہیں اللہ کریم ہے۔اللہ غفورہے اللہ سمیع وبصیر ہے۔اب کوئی ہم سےپوچھے (مثلا کوئی ان الفاظ کی معانی جاننے والانہ ہو)کہ بھائی کریم کے کیا معنی ہیں غفورکاکیامطلب ہے اورسمیع وبصیر سے کیا مرادہےتوہم اس کو کچھ بھی بتانہیں سکتے ہیں صرف کہتے جائیں گے کہ بس جناب غفورہے،کریم ہے وغیرہ وغیرہ باقی اس کی معنی نہیں کرسکتے اوراس طرزعمل سے جو خرابی لازم آئے گی ،اس کے متعلق راقم الحروف کو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ہرایک اندازہ لگاسکتا ہے۔

خلاصہ کلام:۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی کے لیے حاضروناظر کہنا ناجائز نہیں ہے کیونکہ یہ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌﴾کامفہوم اداکرتا ہے اورجس طرح اس آیت کریمہ سے معیت علمی مرادہے اسی طرح حاضر سے بھی مراد اللہ تعالی کاعلم کی صفت کے اعتبارسےہمارے ساتھ ہونا ہی مرادہے نہ  کہ کچھ اورایک عام اورمروجہ لفظ حاضر سےاداکیاگیا ہےیعنی اللہ تعالی حاضر ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 157

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ