اللہ تعالی کی ذات مبارک کو عقلا سمجھائیں اورثابت کریں؟
اللہ تعالی کی ذات پاک کےوجود کے منکرہرزمانہ میں بہت تھوڑے رہے ہیں،اکثریت ان لوگوں کی رہی ہے جواللہ کے وجود کے تو انکاری نہیں ہیں،لیکن اللہ کے ساتھ شرک کرتے چلے آرہے ہیں۔قرآن کریم سورہ یوسف میں ہے:
‘‘اکثر لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔’’
اللہ تعالی کے وجود کا انکار حددرجہ کی جہالت ہے ،سوائے اس آدمی کے جو اپنے عقل کا دیوالیہ کربیٹھا ہو،دوسراکوئی آدمی خالق کا ئنات وجودکامنکرہرگزنہیں ہوسکتا۔یہی سبب ہےکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جن گمراہ قوموں کا تذکرہ کیا ہے،وہ سب کی سب مشرک تھیں۔ان میں سے کوئی بھی دہریااللہ کی ذات کے وجود کا انکاری نہ تھا اورجتنے بھی انبیاءکرام علیہ السلام ان قوموں کی طرف مبعوث ہوئے ،انہوں نے توحید کی تبلیغ کی اورشرک کی تردیدکی اللہ کے وجو دکےمنکرسے شاید ہی سابقہ پڑاہو۔سورہ ابراہیم میں ہے ۔
‘‘ان قوموں کے رسولوں نے فرمایاکہ کیا اللہ کے بارے میں شک ہوسکتا ہے جو زمینوں اورآسمانوں کا مالک ہے؟’’
یہ سوال ایک عقل سلیم رکھنے والے سے ہے ،یعنی ہر عقل سلیم رکھنے والاانسان کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز دیکھ کرسمجھ جاتا ہے کہ کہ کسی کاریگر کی بنائی ہوئی ہے۔کیونکہ کسی عقل مند انسان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ ہی نہیں سکتی اورنہ ہی وہ اس کے ممکن ہونے کا تصور بھی کرسکتا ہےکہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر صانع کے وجود میں آسکتی ہے،توپھر یہ اتنا بڑا کارخانہ ہے زمین ،آسمان سورج ،چاند اورستارے ،پہاڑ ،دریا،نہریں،سمندر،درخت ،باغ اورباغیچےمطلب کہ یہ پوری کائنات بغیر خالق اورصانع کے کس طرح خودبخود وجود میں آگئی ؟اس طرح کی بے ہودہ بکواس کوئی عقل کا اندھا ہی کرسکتا ہے لیکن کوئی عقلمند ایسی واہیات بکواس کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
تاریخ کی کتابوں میں عباسی خلافت کے وقت کا ایک واقعہ مذکورہے کہ اس وقت ایک دہریہ آیا جو کہ اللہ تعالی کے وجود کا انکاری تھا اورلوگوں سے خالق کے وجود کو ثابت کرنےکے لیے عقلی دلائل مانگنے لگا۔خلیفہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف آدمی بھیجا۔امام صاحب کچھ دیر سے پہنچے ان سے دیر سے پہنچنے کا سبب دریافت کیاگیا ،امام صاحب فرمانے لگے کہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پر پہنچاتودیکھا کہ کئی تختے جداجداپڑے ہیں جب میری نظران تختوں پر پڑی تویہاں سے یہ تختہ بھاگااوروہاں سے وہ تختہ بھاگااورآکرآپس میں مل گئےاورایک کشتی تیار ہوگئی ،جس پر سوارہویریہاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں میری تاخیرکایہی سبب ہے ۔اس پر دہریہ (خالق کا انکاری)کہنے لگاکہ واہ!آپ نے میرے مقابلہ کے لیے بلایا ہے جو ایسی بے عقل بات کررہا ہے کہ الگ الگ تختے خودبخود بغیر کسی بنانےوالے کے آپس میں مل کر ایک کشتی تیارہوگئی ،یہ توسراسربے عقلی کی بات ہے ۔اس پر امام صاحب کہنے لگےاےاحمق،جاہل!توصرف ایک کشتی کے خود بخود بننے کا انکاری ہوااوربغیر بنانے والے کے اس کا بن جانا،بے عقلی کی بات تصورکرتا ہے توپھر اتنے بڑےکارخانے کا خودبخودبغیرکسی صانع کے بن جانااس پر تجھے کس طرح جرات ہوائی کہ تویہ نظریہ رکھے تواحمق اورجاہل ہے۔ایسا عقلی جوا ب سن کر دہریا لاجواب ہوگیا اورخلیفہ نے ان کی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔
مقصود یہ تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود اورہستی پر اس کائنات کاذرہ ذرہ گواہ ہے۔
اس ذات پاک ہستی کا انکارسوائے عقل کے اندھے کوئی انسان نہیں کرسکتا۔دنیا کے مشہوربتیس(٣٢)یااس سے بھی زیادہ سائنسدانوں نے اپنے سائنسی انکشافات اورتجربات علوم کی بناپر یہ واشگاف اقرارکیا ہے کہ بیشک اللہ ہے ۔انہوں نے اپنے اس مستحکم عقیدہ پر سائنسی تجربات اورکئی دلائل پیش کیے ہیں وہ سارے ایک کتاب میں مذکورہیں۔وہ کتاب اصلا انگلش میں ہے جو(Godis)کے نام سے ہے ۔اس کا ترجمہ اردوزبان میں شائع ہوا ہےجس کا نام ہے ‘‘خداہے’’وہ کتاب ہماری لائبریری میں موجود ہے۔
بہرحال اس حقیقت کا اتنا واضح ہونا اوراس پر تقریبا کائنا ت کے تمام عقلمندوں کے اتفاق کے باوجود بھی آج کل عقل کے اندھے کمیونسٹ اورسوشلٹ‘‘بے حیا باش وھرچرچہ خواہی کن’’کے مصداق اپنے عقل کے دشمن بن کر اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے اوران کوسیدھے راستے سےہٹانے کے لیے کھلم کھلا بے ہودہ سرآلاپ رہے ہیں کہ اللہ کی ذات ہےہی نہیں اوراس کو عقل سے ثابت کرووغیرہ وغیرہ اورجس طرح اللہ تعالی نے سورہ نمل میں فرعون اوران کے ساتھیوں کے متعلق فرمایاکہ:
ان كے دلوں نے توحضرت موسی علیہ السلام کی حقانیت وصداقت کا یقین کرلیا لیکن باہرسےمحض ظلم اورتکبر کی وجہ سے انہوں نے انکارکیا۔اسی طرح یہ ظالم بھی اگرچہ اللہ کے وجوو کو دل سے مانتے ہیں اوران کو ان کا ضمیر جھنجوڑتا رہتا ہے لیکن محض ظلم،حدودتوڑنے اورنفسیاتی خواہشات کی بے لگام پیروی کرکے زبان سے بے اختیاراللہ جل واعلی کی ہستی کا انکارکررہے ہیں۔اس لیے ہم یہاں پر کوئی بھی تین دلیل سائنٹیفک نمونے پر اپنے منصف ومزاج اورحق کے طالبوں پر عقل کی آواز پر کان لگانے والوں کے لیے تحریر کررہےہیں ۔امید ہےکہ اللہ تبارک وتعالی اسی میں حق کے طالبوں کے لیے کافی اورشافی تسلی اورتشفی بخش رہنمائی کاسامان مہیاکرے گا۔(اللھم آمین)
(1)۔۔۔۔۔۔یہاں پر یہ دلیل ہم گوسائنٹیفک طورپرپیش کررہے ہیں،لیکن دراصل یہ قرآن کریم کی سورت مئومنون کی اس آیت سے ماخوذ ہے:
‘‘ہم نے نازل کیا آسمان سے ٹھیک اندازے کے مطابق ایک خاص مقدارمیں پانی اوراس کو زمین میں ٹھہرایااورہم اس کو جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں۔’’
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ آغاز پیدائش میں اللہ تعالی نے ایک ہی وقت زمین پراتنا پانی نازل فرمایاکہ قیامت تک کرہ ارض کی ضروریات کے لیے ان کے علم کے مطابق کافی تھا،وہ پانی زمین کے ہی نشیبی حصوں میں قرارپکڑگیا جس سے سمندر اورنہریں وجو میں آئیں اوراسی ہی پانی سے زیر زمین یا(Sub-Soil-Water)پیداہوا۔
اب یہ اسی پانی کا ہی ہیرپھیر ہے کہ جو سردی گرمی اورہواوں کے ذریعے ہوتی رہتی ہے۔اسی کو ہی برف پوش پہاڑ ،دریا،چشمے اورکنویں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں اوریہی بے شمارچیزوں کی پیدائش اورترکیب میں شامل ہوتا ہے اورپھر ہوامیں تحلیل ہوکراصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے،شروع دن سے لے کرآج تک اس پانی کے ذخیرے میں نہ ایک قطرہ کمی ہوئی ہے اورنہ ہی ایک قطرہ زیادہ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے ،یہ توآیت کریمہ کا مطلب تھا،اب دلیل کی وضاحت کی جاتی ہے۔
آج مدسہ یا اسکول کے ہر ایک طالب کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اورآکسیجن کے دوگیسوں کے امتزاج یا ملنے کی وجہ سے بناہے اوریہ حقیقت بھی سائنسدانوں کے ہاں ہے کہ یہ سمندروغیرہ بہت عرصہ پہلے اس طرح وجود میں آئے کہ ماضی میں ہائیڈروجن اورآکسیجن دونوں گیسیں ایک وقت میں زیادہ مقدارمیں آپس میں ملیں جس کے نتیجے میں اوپرفضاسےبے حساب پانی گراجو زمین کے نشیبی حصوں میں قرارپکڑگیا جس کی وجہ سے سمندر وغیرہ وجودمیں آگئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دہریہ یا کیمونسٹ کے کہنے کے مطابق اس کا ئنات کوچلانے والایاپیداکرنے والاجس کو اللہ کہا جاتا ہے وہ ہے ہی نہیں توپھر وہ بتائیں کہ سائنسی انکشافات اورتحقیقات موجب جبکہ اب بھی فضا میں وہ گیسیں ،ہائیڈروجن اورآکسیجن موجودہیں توپھر وہ آپس میں اس انداز میں کیوں نہیں ملتی جس انداز میں ماضی بعید میں آپس میں ملیں تھیں کہ جن کی امتزاج کی وجہ سے بڑی مقدارمیں اوپر سے پانی گراتھا کہ جس کی وجہ سے سمندر،نہریں یا زیرزمین پانی قرارپکڑگیا۔ظاہر ہے کہ آج بھی اگر وہ دونوں گیسیں آپس میں اس انداز سے ملیں تواوپر سے بے انتہا پانی گرنا شروع ہوجائے کہ جس سے انسان بلکہ پوری جاندارچیزوں کا کیا حشر ہوتا ،یہ ہرعقلمند جان سکتا ہے مگر آج وہ دونوں گیسیں اتنی بڑی مقدار میں آپس میں نہیں ملتیں ،آخر کونسی ہستی ہے جس نے مخلوقات کی ضروریات کےمطابق دونوں گیسوں کو اتنے بڑے انداز میں ملاکراتنا بڑا پانی کا ذخیرہ مہیا کیا ،لیکن آج وہ ہستی ان دونوں گیسوں کو آپس میں اتنی بڑی مقدارمیں ملنے نہیں دیتی ۔ آخر وہ کون سی ہستی ہے؟حالانکہ وہ دونوں گیسیں آج بھی فضا میں موجود ہیں مگر کون ہے جو ان کو اتنی بڑی مقدارمیں ملنے سے روک رہا ہے؟
اسی طرح یہ بھی سوال ہے کہ آخر کون ہے جو پانی کے بخارات سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ کرتا ہے فضائی آکسیجن کو ہائیڈروجن کے ساتھ ملنے سے روک رہا ہے۔مگر یقین رکھیے ان ملحد دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔کیونکہ وہ دونوں گیسیں توایک اندھا ،بہرااورلاشعورمادہ ہے ان میں یہ سمجھ کہاں سے آئی کہ آج اگرہم اتنی بڑی مقدارمیں ملے جاندار چیزیں تباہ اورہلاک ہوجائیں گی جبکہ ان مادوں میں کوئی شعورنہیں ہے تولامحال ماننا پڑے گا کہ ایک قادرمطلق ہستی جو اپنی بے پناہ قدرت کے ساتھ ایک وقت میں مخلوقات کی ضروریات کے لیے ان کی تخلیق سے پہلے ان گیسوں کو اتنی اندازمیں آپس میں ملایا جس سے بڑی مقدرمیں اوپر سے پانی گرا،لیکن آج وہ قادرقدیرہستی ان کواتنی بڑی مقدار میں اس قدرملنے سے روک رہی ہے ،وہ ہستی ہے جس کو ہم اللہ سبحانہ وتعالی کہتے ہیں۔
بہرحال اس حقیقت باہرہ سے انکارکرنے کی جرات سوائے ضدی ملحد اورعقل کےدشمن دہریہ کے اورکوئی نہیں کرسکتا۔
مطلب کہ اس سوال کو ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے ۔یہاں البتہ وہ جان چھڑانے کی خاطر یہ کہیں گے بلکہ کہتے بھی ہیں کہ ان باتوں میں ہم کیوں پڑیں یہ کسی طرح بھی ہے،لیکن ہمیں پتا نہیں ہےتوپھر ہم ان کے پیچھے کیوں پڑیں!اس سے خاموش رہنا بہتر ہے۔
حالانکہ ہر عقل سلیم رکھنے والاانسان ان کے اس جواب سے ان کی نمایاں شکست اورمغلوبیت کا اندازہ لگاسکتا ہے ۔
اس آیت کا خلاصہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تفسیر‘‘تفہیم القرآن’’کی سورہ مومنوں کی مذکورہ آیت کریمہ کی تشریح سے ماخوذہے۔
دلیل نمبر٢:محترم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب اپنی کتاب‘‘انسان کائنات اورقانون فطرت’’کے صفحہ نمبر١۰’١١پر‘‘انسانی جسم’’کے عنوان سے جدید علوم(تشریح انسانی متعلق)حاصل شدہ علوم ومعارف ،سائنسی تجربات اورمشاہدات کی بنیاد پر اس طرح رقمطرازہیں۔‘‘مرد کے پیدائشی مادے سے یعنی نطفے کے ایک مکعب سینٹی میٹر میں اڑھائی کروڑمنی کےجرثومے ہوتے ہیں اورعام حالات میں ایک دفعہ میں کتنے ہی مکعب سینٹی میٹر جتنا مادہ ہوتا ہے ۔جس میں ماہرین کے اندازے کے مطابق(٥۰)کروڑ جرثومے(منی کے زندہ جراثیم)ہوتے ہیں۔ان نصف ارب جراثیم میں سے ہر ایک میں ایک مکمل انسان بننے کی صلاحیت موجودہوتی ہے،لیکن دوسری طرف صرف ایک جرثومہ عورت کے بیضے میں داخل ہوتا ہے،جوتخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے،اسی طرح ہربالغ عورت کے مخصوص حصے میں (٤)چارلاکھ کچےبیضے موجودہوتے ہیں،لیکن ان میں صرف ایک بیضہ پکہ ہوکراپنے مقرروقت پر ظاہر ہوتا ہے،تاکہ مرد کا کوئی ایک جرثومہ اس میں داخل ہوکرایک مکمل حیاتی کا یونٹ بن کرحمل کی صورت اختیارکرے،یہاں پر ڈاکٹر صاحب کی عبارت پوری ہوئی۔
اس عبارت سے اللہ خالق کائنات کے وجود پر دلیل ملتی ہے جبکہ سائنس اورجدیدعلوم انسانی جسم کی تشریح کے متعلق تھی ۔حقیقت ثابت ہوئی کہ مرد کے ایک دفعہ کے نطفہ میں نصف ارب جرثومے ہوتے ہیں جن میں ہرایک جرثومہ میں ایک مکمل انسان بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔اسی طرح عورت کے مخصوص حصہ میں چارلاکھ کچے بیضے موجود ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مردکے نصف ارب جرثومے میں سے صرف ایک ہی جرثومہ عورت کے بیضے میں کیوں داخل ہوتا ہے؟باقی جرثومے کیوں داخل نہیں ہوتے؟وہ کونسی طاقت ہےجو باقی جراثیم کو عورت کے بیضے میں داخل ہونے سے روکتی ہے ؟بذات خود ان جراثیم میں تو کوئی شعورنہیں ہوتااورنہ ہی مرد کے نطفے(یاپیدائشی مادہ)میں کوئی سمجھ یاشعورہوتا ہے۔پھرکون ہے جو ان کو کنٹرول کرتا ہے اورایک سے زائدجراثیم کو عورت کے بیضے میں داخل ہونے سےروکتا ہے ؟اسی طرح عورت کے مخصوص حصے میں چارلاکھ کچے بیضے ہوتے ہیں ،ان میں صرف ایک ہی پکا ہوکرکیوں ظاہر ہوتا ہے؟زیادہ کیوں نہیں پکے ہوکرظاہرہوتے ہیں؟
ظاہر ہے کہ اگرمردکے ایک سے زیادہ جرثومے عورت کے بیضے میں داخل ہوجائیں یاعورت کے بھی ایک سے زیادہ کچے بیضے پکے ہوکرمردکے جرثومے کو قبول کرنے کے لیےظاہر ہوجائیں توعورت بیچاری کا کیا حشر ہوتا یہ ہرعقلمند جانتا ہے ،اسی حشر یا نقصان کا شعوربے شعورمادے میں کہاں ہے،بہرحال اس سوال کا جواب ان عقل کے دشمنوں کے پاس کہاں سے آیا،ان کے پاس ا س کا کوئی جواب نہیں ۔
اگر اللہ خالق کائنات قادرمطلق کی ہستی کے قائل ہوجائیں تو اس سوال کا فورا حل مل جائے گا،یعنی وہ اللہ کی ذات ہے جومردکے جراثیم میں سے صرف ایک مرثومے کو عورت کےبیضے میں داخل ہونے کے لیے تیار کرتا ہے اورباقی اجزاکونہیں چھوڑتا۔
اسی عورت کے تمام بیضوں میں سے صرف ایک کو پکا کرکے مرد کے جرثومے کو اخذ کرنے کے قابل بناتا ہے ،باقی بیضے اس کے امرکےمطابق کچے ہی رہتے ہیں اورمردکےجرثومے کو قبول کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے ۔فاعتبروایااولی الابصار،اس سےایک بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آج کل کی سائنس خود اللہ تعالی کے وجود پر دلائل فراہم کررہی ہے اوراسلام کے دین حق ہونے کا ثبوت فراہم کررہی ہے۔
دلیل نمبر٣:اس کائنات کے خلا میں کیمیااجرام فلکی حرکت کرہے ہیں۔سورج،چاند،زہرہ،مشتری،زحل،مریخ سفید کہکشاں وغیرہ وغیرہ ۔قرآن کریم توکہتا ہے:
یہ سارے اجرام فلکی اس خلا میں تیررہے ہیں۔سائنسدان اورجغرافیہ کے ماہرین کی بھی یہ تحقیق ہے کہ سورج اپنی مدارپرگھوم رہا ہے،چاند زمین کے اردگردگھومتا ہے۔باقی دوسرے بےشمارسیارے اورستارے اپنے اپنے دائرے میں حرکت کررہے ہیں اوران کی تحقیق کے مطابق کئی ہزارسال پہلے یہ وجود میں آئے اوراس وقت سے لے کرآج تک حرکت کررہے ہیں۔زمین بھی ان کی تحقیق کے مطابق سورج کے اردگردگھوم رہی ہے اورخوداورخوداپنے اردگردبھی یومیہ حرکت کررہی ہے،اب یہ اللہ خالق اکبر کے انکاری بتائیں کہ یہ اتنےبڑے اجسام والے کئی ہزارسالوں سے اپنے دائرے میں حرکت کررہے ہیں اوران میں کوئی بھی دوسرے کے دائرے میں ذرابرابرداخل نہیں ہوتا،کوئی بھی اپنی حرکت طلوع یا غروب میں کسی بھی موسم میں ایک سکینڈ بھی آگے پیچھے نہیں کرتا۔اتنا بڑا نظام آخر کس طرح چل رہا ہے،وہ کون ہے جو اتنی بڑی جسامت والی مخلوق کو خلا میں ایک مقرردائرے (Sphere)میں کنٹرول کیے ہوئے ہے کہ ایک انچ بھی اپنے مدارسےنہیں ہٹتے۔کیاقادرمطلق کے علاوہ کوئی ہے ؟یا اس بے پناہ قدرت رکھنے والے کے سوائے ممکن ہوسکتا ہے؟اگرتھوڑی بھی عقل والاسوچے گاتوفورابواٹھے گاہرگزنہیں،ان عظیم اجرام میں سے کوئی بھی اتنے بڑے لمبےعرصے اورلامحدودوقت تک اپنے مدارپراتنا کھڑانہیں ہوسکتاکہ ایک بال بھی اپنی جگہ سےنہیں ہلتا۔
علاوہ ازیں!اتنے بڑے ہائل شماوی اجرام حرکت توبعد کی بات ہے ،مگر اولاتوان کےمتعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ وجود میں کیسے آئے؟کیونکہ کائنات کی کوئی بھی چیز خواہ وہ بڑی ہویا چھوٹی وہ بغیر صانع کے وجود میں نہیں آسکتی اورنہ ہی کبھی آئی ہے،توپھر پہلے وہ جواب دیں کہ وہ وجود میں کس طرح آئے ؟ان کے پاس معقول جواب کوئی نہیں ہے ۔ صرف حقیقت ثابتہ کو ماننے سے انکارکے شوق میں ایسی الٹی سیدھی باتیں کریں گے جس سے ہرسمجھدارانسان فورااندازہ لگالےگاکہ یہ صواحب محض فالتوں باتیں کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں اورمحض دفع الوقتی اورسمجھ دارلوگوں کوبے وقوف بنانااورعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکناہی ان کا شیوہ ہوتا ہے ۔ان عظیم اجرام کے چھوٹی چھوٹی مثالیں آج سائنس سے فراہم کردیں عصری سائنسدانوں نے مصنوعی سیارے بناکرزمین کے چاروں طرف روانہ کردیئےہیں جواس کے اردگرد گھومتے ہیں کیا یہ مصنوعی سیارے خود بخود وجود میں آگئے؟ہرگز نہیں۔بغیر صانع کے خود بخود بن کراورخلا میں حرکت کرنے لگے؟یا ان کے بنانے کے بعد خود بخود خلامیں اڑنے لگے،ہرگزنہیں بلکہ ان کے موجد نے ان کو حرکت میں لایا ۔کیا یہ مثالیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟
یعنی جس طرح یہ مصنوعی سیارے یاراکٹ خلامیں بنانے والوں نے بناکرچلائے اسی طرح یہ عظیم اجرام فلکی کوبھی ایک خالق اکبر نے اپنی قدرت باہرہ سے پیداکرکے ان کو اپنی مدارمیں متحرک کربنادیاہے اوراس خالق اکبرقادرمطلق کانام‘الله’’ہے۔سائنسدانوں نے میزائل وغیرہ جو کہ ریموٹ کنٹرول(Remote Cnotral)طریقہ پر ہیں،یعنی ایک خاص جگہ یا کنٹرول کا مقام ہوتا ہے وہاں سے یہ فائر کیے جاتے ہیں،جوجہاز وغیرہ کو نشانہ بناکراس کی تباہی کا سبب بنتے ہیں اوروہ کنٹرولنگ اسٹیشن سے طاقتوردوربینی(Powerful tele scope)کے ذریعے مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ وہ واقعی نشانے پر لگے ہیں یا نہیں۔اس ایجادسےبھی ظاہرہواکہ اول یہ میزائل کن کاریگروں نے بنائے ،پھر ان کے رکھنے والوں نے ایک خاص نشانے پر فائر کیا ۔نہ یہ سارے خودبخود میں آئے اورنہ ہی وجودمیں آنے کے بعد خودحرکت میں آئے اورنہ ہی مطلوبہ جگہ پر خود بخود جاکرلگے،یہ بالکل واضح ہے ،پھر آخراس کائنات کے ان اتنے بڑے اجرام فلکیہ کے بارے میں یہ احمقانہ خیال ان حضرات کو کس طرح آیا کہ وہ خود بخود وجود میں آئے اورخود ہی اپنے دائرے میں متحرک ہوگئے اورہزاروں سال گزرنے کے باوجود نہ ان کی حرکت میں فرق آیا اورنہ ہی اپنے مدارسےایک انچ بھی ہٹے ہیں۔کیا یہ عقلمندوں کی گفتارہے یا مجنون کی ؟یہی حقیقت ہے جس کی طرف یہ آیت کریمہ رہنمائی کرتی ہے:
یعنی تمام فلکی اجرام اورزمین کو اللہ تعالی ہی اپنے مدارمیں اپنی جگہ پر روکے ہوئےہے۔ورنہ اگروہ اپنی جگہ سے ہٹتے توکوئی بھی ان کو روک نہیں سکتا۔
اوراگروہ اپنی جگہ سے ہٹتے توجانداراشیاءکاکیا حال ہوتا،اس کے تصورکرنے سے ہی کپکپی شروع ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایاکہ ‘‘بیشک اللہ تعالی بردباراورگناہ بخشنے والاہے۔’’یعنی اسی وجہ سے بندوں کے گناہوں کے باوجود ان اجرام کوروکے ہوئے ہے اوران کو چھوڑتا نہیں ہے،اس لیے کہ مخلوق نہ تباہ ہوجائے۔انسان کی کوئی بھی چیز کتنی ہی بڑی محنت اورکاریگری کے ساتھ کیوں نہ بنائی گئی ہو،خواہ مشینری ہو،انجن ہو،ہوائی جہازہویاکوئی اورچیزہو،لیکن وہ دائمی طورپرنہیں چل سکتی ۔ایک مکینک کسی کو مشین کو چلاتودیتا ہے ،لیکن وہ چل چل کرخراب یانقص والی بن جاتی ہے،لیکن وہ مشین نہ خود بنی اورنہ ہی خودبخود چالوہوئی،اس کوچلایابھی کسی واقف نے ،مگرپھربھی اک وقت پروہ خود بخود خراب ہوجاتی ہے۔آٹومیٹک(Auto matic)گھڑیاں ہیں لیکن ان پر بھی ہماراتجربہ ہےکہ وہ بھی ایک وقت کھڑی ہوجاتی ہیں۔ہوائی جہاز دیکھوکیسے خلاکو چیرکرچلتا ہے،لیکن اگران میں کوئی نقص پیدا ہوایاچلتے چلتے اگرکھڑاہواتووہ دھڑام سے زمین پر گرکرتباہ ہوگااوراس میں سوارمسافربھی اجل کا شکارہوجاتے ہیں۔کیا ان تمام واقعات کا ہم مشاہدہ نہیں کرتے؟بہرحال ان تمام عجیب وغریب اشیاء کو کس نے بنایااورپھرچلایااوران پر کنٹرول بھی کیے ہوئے ہیں لیکن پھر کبھی کبھارحوادثات کا شکارہوجاتے ہیں توکیایہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اتنے بڑے اجسام سورج اوراس کانظام شمسی،چانداورستارےوغیرہ اورزمین ہزاروں سالوں سے چل رہے ہیں،لیکن پھر کیوں نہیں وہ رکتے اورنہ ہی ان میں کوئی نقص پیدا ہوتاہے اورنہ ہی ان میں سے کوئی اپنے مدارسےایک بال جتنا بھی ادھر اُدھر ہوتا ہے۔ان کےطلوع وغروب کا تاہم مقررہے،جس میں کبھی ایک سکینڈ تفاوت نہیں ہواہےاوران کی مقررہ رفتارکودیکھ کرسورج کے طلوع اورغروب اوقات (ہرموسم میں)نقشے کی صورت میں بنائےجاتے ہیں جو کہ تقریبا صحیح ہوتے ہیں اوراسی حرکت اورہیرپھیرکی بنیادپرلوگوں کوخبر ہے کہ فلاں مہینے میں گرمی اورفلاں مہینے میں سردی آئے گی۔
کیا یہ سارانظام جوکہ اتنا مستحکم اورمضبوط ہے اتنے لمباعرصہ گزرنے کے باوجوداس میں کوئی تفاوت نہیں کیا؟یہ سب کچھ بغیر صانع کے وجود میں آیا ،یہ بغیر قادرمطلق کے باقاعدہ منظم طریقے سےچل رہاہے؟کیا یہ بات انسانی عقل میں آنے جیسی نہیں ہے ایک حقیقت پسند انسان فوراپکاراٹھے گا،ہرگزنہیں،ہرگزنہیں ہرگزنہیں۔بہرحال اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات کے وجود کے دلائل کائنات کے ذرے ذرے میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے موجود ہیں۔
باقی شیخ سعدی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق۔
اگردن میں چمکادڑدیکھ نہیں سکتا تواس میں سورج کا کوئی قصورنہیں ہے۔
ان صاحبوں کو یہ دلائل نظرنہیں آتے تواس میں اس حقیقت ثابتہ کا کیا قصورہے،
ایسے صاحب اپنی بیمارآنکھوں کا علاج کروائیں،اگرغورکیا جائے تودوسرے دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں ،لیکن اس جگہ پر دلائل کا احصار(شمار)مطلوب نہیں ہے(اگردرخانہ کس است یک حرف بس است)عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ایک شاعر نے کہا ہے۔