سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19)کیا شیطان کے سینگ ہیں؟

  • 14804
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2918

سوال

(19)کیا شیطان کے سینگ ہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث شریف میں ہے کہ سورج طلوع ہوتے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔اُدھرسائنس نے بھی ثابت کیا ہےکہ مثلا ڈھاکہ اورحیدرآبادکےدرمیان ایک ایک گھنٹے کا تفاوت ہے اسی طرح جو ملک دوسرے ملکوں سے مشرق کی طرف ہیں وہاں مغرب کے  ملکوں سے قبل سورج طلوع ہوتا ہے اسی طرح سورج غروب ہوتے وقت بھی نمازپڑھنے کی منع وراد ہے کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے۔حالانکہ سورج غروب ہونے کا وقت مختلف ملکوں میں الگ الگ ہے۔مشرقی ممالک میں سورج پہلے غروب ہوتا ہے اورمغربی ممالک میں سورج دیرسےغروب ہوتا ہے۔مثلا پاکستان میں سورج عرب ممالک کے مقابلےمیں دوڈھائی گھنٹے قبل طلوع وغروب ہوتا ہے یہ مشاہدہ کی بات ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتااب سائنس والے کہتے ہیں کہ ایک ہی شیطان کئی جگہوں پر سورج کو سردیتا رہتا ہے کیا؟کہاجائے گاکہ یہ حدیثیں جھوٹی ہیں ورنہ یہ احادیث مشاہدات اورواقعات کے برخلاف نہ ہوتیں ۔اب قرآن وحدیث سے اس سوال کی وضاحت اورتفصیل سے جواب دیا جائے تاکہ شکوک وشبہات دورہوجائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث پاک پر اس بے جااعتراض کے جواب سے پہلے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ایک سچامومن اللہ تبارک وتعالی اوراس کے  سچے مقدس رسولﷺکی ہر اس بات پر پورا بھروسہ اوریقین کامل رکھےجوصحیح طورپرباسندثابت ہوااگرکسی آدمی کا کتاب وسنت کے ثابت شدہ حقائق پر ایمان کامل نہیں ہے تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہے جب ایک انسان کتاب وسنت پر پکا اورسچاایمان رکھتاہے تو اللہ تعالی خود اس کی رہنمائی کرتا ہے جس طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَٱلَّذِينَ جَـٰهَدُوا۟ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت:٦٩)

‘‘جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم ضرورانھیں راستہ دکھاتے ہیں۔’’

اورایسے کامل ایمان والے کے لیے خود ہی ایسے اسباب علم اورہدایت کے ایسے راستےمہیاکرتا ہے کہ اس کے سارے شک وشبہات کافوربن جاتے ہیں اوراس کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے لیکن جو شخص بے ایمان ہے اوراس کے دل ودماغ پر اسلام کے خلاف تعصب کےپردے لٹکے ہوئے ہیں اوراللہ تبارک وتعالی کے دین کے دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے توایسے آدمی کو کتاب وسنت میں غورکرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا کیونکہ اس کی آنکھوں پر دشمنان اسلام کی دشمنی کا چشمہ چڑھاہوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس  کی آنکھوں کو کتاب وسنت کی باتیں اس طرح نظر نہیں آتیں جس طرح اس کو اس کے آقا پٹیاں پڑھاتے ہیں۔

پھر ایسے ملحد اوربے دین حدیث پاک کے دشمن اورمتکبرین اسلام کو ان ہدایت کی باتوں میں کئی شکوک وشبہات نظر آتے ہیں چونکہ ان منکرین حدیث کا عالم ہی دوسرا ہےانہوں نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ خواہ مخواہ تحریف وتبدیل کرکے معنی اورمطلب کوگھماکرکوئی نہ کوئی حدیث پاک میں نقص وعیب نکالنا ہی ہے اس لیے ان کے اعتراض حق کو سمجھنے کے لیےنہیں ہوتے بلکہ محض اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے اورحق سے پھسلانے کے لیے ہوتے ہیں جس طرح اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُ‌فَ الْقَوْلِ غُرُ‌ورً‌ا﴾ (الانعام:۱۱۲)

مطلب کہ قرآن کریم کے مطابق انسانوں میں شیاطین یعنی(سرکش اوراللہ کےبندوں کو گمراہ کرنے والے)ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کے برخلاف لوگوں کو بے ہودہ باتیں بتاکران کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈال کر صراط مستقیم سے دورکردیتے ہیں،اس لیے یہ منکرین حدیث بھی شیطان ہیں محض اسلام سے دشمنی کی خاطر ایسے غلط اورواہی اعتراضات اوربے ہودہ شکوک وشبہات سادہ مسلمانوں کے سامنے پیش کرکے ان کو گمراہی کے عمیق گھڑےمیں گرارہے ہیں ورنہ دراصل ایمان کے  لیے اس حدیث پاک میں قابل اعتراض کوئی بات ہی نہیں ہے اورنہ ہی کوئی مشاہدات اورواقعات کے خلاف کوئی حقیقت بتائی گئی ہے۔

صرف سمجھنے کا فرق ہے یا حسد وتعصب کا چشمہ چڑھانے کا اثر ہے ۔﴿وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾اب جواب عرض ركها جاتا ہے۔

دراصل حدیث مبارک میں یہ مشکلات اس لیے پیش آئی  کہ  ایک توحدیث پاک میں لفظ‘‘شیطان’’ہے جس سے ابلیس مرادلیاجاتا ہےجوکہ صحیح نہیں ہے دوسرایہ کہ حدیث شریف میں یہ الفاظ  ہیں:

((فإنها تلطع بين قرنى الشيطان.))

جس  کا ترجمہ یہ ہےکہ :

‘‘کیونکہ یہ سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔’’

یہ ترجمہ بھی غلط ہے اس لیے یہ پوری خرابی وجود میں آگئی ۔اس احوال کی تفصیل یہ ہے کہ ‘‘شیطان’’کا لفظ کوئی خاص ابلیس کے لیے نہیں ہے بلکہ شیطان کے معنی ہے سرکش جو اپنی سرکشی میں اورہوگیا ہواوراللہ  کے بندوں کو گمراہ کرتا رہے اس لیے توقرآن کریم میں کافروں  کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔جس طرح سورت بقرۃ میں منافقوں کے ذکر کے وقت اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَإِذَا خَلَوْا۟ إِلَىٰ شَيَـٰطِينِهِمْ قَالُوٓا۟ إِنَّا مَعَكُمْ﴾ (البقرة:١٤)

‘‘یعنی جب وہ اپنے شیاطین یعنی کافروں کے ساتھ تنہائی میں ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔’’

اسی طرح سورۃ انعام میں اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُ‌فَ الْقَوْلِ غُرُ‌ورً‌ا﴾ (الانعام:۱۱۲)

‘‘یعنی اس طرح ہم نے شیطان جنوں اور انسانوں کو ہرنبی کےلیے دشمن بنایاہے ۔’’

اس سے ثابت ہوا کہ شیطان کوئی خاص‘‘ابلیس’’کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایک گمراہ کن سرکش ہے ،پھر وہ جن ہویا انسان وہ شیطان ہے ۔یہ بات ذہن نشین کرنے کےقابل ہے کہ  جنوں میں بھی صرف ایک ابلیس ہی شیطان نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک بڑا قافلہ ہے اگرچہ ابتدامیں ابلیس ایک ہی گمراہ تھا جس طرح انسانوں کا باپ بھی ایک ہی تھاجس سے دوسرے  انسان پیدا ہوئے اوربڑھے اسی طرح ابلیس نے بھی بعد میں (مہلت ملنے کے بعد)اپنے کئی پیروکاربنادیے ہیں جو ہرجگہ انسانوں اورجنوں کی صورت میں موجودہیں۔اس حقیقت کی طرف قرآن نے کئی جگہوں پر اشارہ کیا ہے ۔مثلا:

﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُ‌هُمْ جَمِيعًا يَـٰمَعْشَرَ‌ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْ‌تُم مِّنَ ٱلْإِنسِ﴾ (الانعام:١٢٨)

‘‘اوروہ دن جس دن اللہ تعالی سب کو جمع کرے گا (اورفرمائے گا)اے جنوں کی جماعت تم نے انسانوں سے بڑی جماعت ساتھ لے لی۔’’

﴿إِنَّهُۥ يَرَ‌كُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَ‌وْنَهُمْ﴾ (الاعراف: ٢٧)

‘‘وہ اوراس کا گروہ تمھیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سےتم انھیں نہیں دیکھ سکتے۔’’

﴿فَكُبْكِبُوا۟ فِيهَا هُمْ وَٱلْغَاوُۥنَ﴿٩٤﴾وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ﴾ (الشعراء:٩٤’٩٥)

‘‘ْْپھروہ سب اورکل گمراہ لوگ جہنم میں اوپر تلے ڈال دیے جائیں گے۔’’

یہی سبب ہے کہ ابتدامیں توابلیس نے ہی بندوں کو گمراہ کرنے کےلیےبھاگ دوڑ کی تھی حتی کہ ایک بڑا لشکرتیارکرلیابعدازاں خود ایک جگہ بیٹھ گیااوراس کے چیلے چھاٹے خلق اللہ کو گمراہ کرتے ہیں اورخود ابلیس کہیں بھی نہیں جاتا الایہ کہ کوئی بڑا معرکہ سرکرنا ہویا کسی ایسے آدمی کو گمراہ کرنا ہو جو اس کے چھوٹے کارندوں سے گمراہ نہ ہوتا ہو یا کسی ایسی جگہ برائی پھلانی ہو جہاں اس کے چھوٹے نہ پھیلاسکتے ہوں۔ایسی صورتوں میں ابلیس وہاں جاکرخودکام کرتا ہے ورنہ ہر جگہ وہ نہیں جاتا بلکہ اس کے متبع ہی یہ کام سرانجام دیتے ہیں اس حقیقت کابیان اس حدیث صحیحہ کے اندر ہے کہ:

‘‘شیطان ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاکربیٹھا ہوا ہے پھر اس کے پاس اس کے چیلے چھاٹے آکراپنی اپنی کارگزاریاں پیش کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں سے زنا کروایا،کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں سے ناحق خون کروایاہےوغیرہ وغیرہ ،مگر ابلیس ہر ایک کو کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا پھر ایک اورآگےبڑھ کرکہتا ہے میں نے فلاں میاں بیوی کواس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک ان کے درمیان جدائی نہ کروائی ۔پھر ابلیس اس سے بغلگیر ہوکر کہتا ہے کہ تم نےبہت اچھا کام کیا ہے ۔’’

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ابلیس خاص ہر جگہ نہیں جاتا بلکہ یہ کام اس کے چیلوں کے ذمے ہوتا ہے جوگمراہی پھیلاتے رہتے ہیں جب یہ حقیقت ذہن نشین ہوگئی توحدیث کا مطلب بھی صاف ہوگیا اکہ ابلیس کی طرف سے ہر ایک ملک میں شیطان مقررہےجوکہ سورج کے طلوع اورغروب کے وقت اس کے آگے کھڑا ہوا ہوتا ہے اس حالت میں کہ سورج اس کے کندھوں کے درمیان طلوع اورٖغروب ہوتا ہوا معلوم ہوتاہے ۔(یعنی دورسے)غالبا ان دونوں کندھوں کو اس کے سینگ کہا جاتا ہے مطلب کہ مغربی پاکستان میں سورج طلوع ہوتے  وقت ایک شیطان جو کہ ابلیس کی طرف سے مقررہوتا ہے سورج کو پیٹھ دے کراورغیر کے پجایوں کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوتا ہے ۔اوراس کے پیچھے سورج طلوع ہوتا ہےگویا وہ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان آہستہ آہستہ طلوع ہوتا ہے۔

اگر سورج زمین سے بھی بڑا ہے لیکن دورسے ایک گو تھال کی طرح نمایاں دکھائی دیتا ہے اورکندھوں کے درمیان دورسے اس کی گولائی پوری طرح سے نظر آئے گی اس پرخوب ٖغوراورتجربہ کرکے دیکھیں۔بہرحال چونکہ اس وقت سورج کے پجاری سورج کی پوجاپاٹ کرتے ہیں اورشیطان جاکران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تاکہ اس کو سجدہ ہوجائے بس یہی بات تھی اوریہی ان پجاریوں کے ساتھ مشابہت تھی جس کی حدیث میں منع واردہے۔

اس طرح مشرقی پاکستان کے لیے الگ شیطان مقرر ہے اورعرب کے  لیے الگ ہندوستان کے لیے الگ مطلب کہ  ہر ملک اورخطہ کے لیے الگ الگ شیطان ابلیس کی طرف سے مقررہے اورغالبا واللہ اعلم حدیث میں جولفظ‘‘الشيطان’’كا استعمال ہوا ہے اس  میں الف لام عہدی ہے یعنی وہ خاص شیطان جو ابلیس کی طرف سے مقررہے۔بہرحال حدیث کا مطلب صاف واضح ہے جس  میں کوئی شک وشبہ اورالجھن نہیں ہے ،باقی اگرمنکرین حدیث اورمتعصبین کو کوئی خامی یا خرابی نظر آتی ہے تویہ ان کے نظروں کا قصورہےایسے لوگ حدیث کی روشنی سے اس طرح نفرت کرتے ہیں جس طرح چمگادڑسورج کی روشنی سے نفرت کرتا ہے ۔

گر  نبیند  بروز  شبپر  چشم

چشمہ  آفتاب  راچہ   گناہ

کیا یہ بھی کوئی انصا ہے کہ ایک لفظ کو اپنے خیال اوراندھی رائے کے مطابق غلط معنی دے کر پھر اس پر اعتراض کیا جائے؟ایسے دشمنان دین لوگ جہاں بھی شیطان لفظ پاتے ہیں وہاں ابلیس مرالیتے ہیں۔حالانکہ پیچھے ہم دلائل سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ شیطان کوئی خاص ابلیس کا نام نہیں ہے پھر جن لوگوں کے علم کا مبلغ بھی یہ ہے کہ جن کو کتاب وسنت کا اتنا علم بھی نہیں ہے توان کو کیا حق ہے کہ وہ احادیث مبارک کے اندر زبان دارزی کریں۔اول توایسے حضرات پوراعلم حاصل کریں پھر اپنی زبان سے کچھ بولنے کی جرات کریں۔سندھی میں کہاوت ہے۔

‘‘اک لپی کون کبڑ خان چنڈ ڈتو’’

یعنی آنکھ ہے ہی نہیں اورکھبڑ خان گیا ہے چاند دیکھنے ۔

کیا یہ بھی علمی دیانت ہے کہ اپنے خیال سے شیطان کی معنی ابلیس لے کر اس طرح کی بے ہودہ الزام تراشی کی جائے کہ اب ایک شیطان کتنی جگہوں پر سورج کو سردیتا رہے گا؟

اللہ اکبر!اللہ تعالی کی شان ہے کہ آج کل ایسے بے عمل اورکورچشم بھی پاک پیغمبرﷺکےمبارک کلام پر اعتراض کرتے  ہیں اوراحادیث پاک کو نشانہ طعن وتشنیع بناتے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ یہ زبردست علمی خیانت ہے۔دشمنان رسولﷺاس کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے:

﴿فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ‌ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ‌﴾ (الحج:٤٦)

‘‘اصل میں ان کے دل اندھےہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو ئی چیز نظر نہیں آتی۔’’

((أللهم أعذنا من عمى القلوب.))
حاصل کلام یہ ہے کہ حدیث شریف کا مطلب بالکل واضح ہے جس میں کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے اورنہ ہی مشاہدہ کے خلاف کوئی بات ہے۔معترض کا اعتراض سراسربیہودہ اورواہی ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 118

محدث فتویٰ

تبصرے