ایک شخص ایسا ہے جس کا تعلق دین اسلام سے ہے جب کہ وہ قرآن مجیداوراس کاترجمہ وتشریح اورکتب احادیث مثلاصحاح ستہ وغیرہ اوردینی لٹریچرکااچھی طرح مطالعہ کرتا ہے لیکن وہ شخص عربی گرامریعنی صرف ونحو اوراسماء الرجال کے فن سے پوری طرح واقف نہیں ہے اوروہ دعوت وتبلیغ کا شوق رکھتا ہے کیا ایسا شخص قرآن کی تفسیر(ابن کثیر)اورصحاح ستہ کی روشنی میں دعوت وتبلیغ کرسکتا ہے جب کہ بعض احبا ب کا کہنا ہے کہ ایسا شخص جواسماء الرجال کے فن سے واقف نہیں وہ اس حدیث کا مصداق بن سکتا ہے
صورت مسئولہ میں ایسا شخص دعوت تبلیغ کرسکتا ہےکیونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے اسماء الرجال کے فن سے واقف ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ دعوت تبلیغ کےلیے قرآن حکیم اوراحادیث مبارکہ میں اس طرح کی کوئی حدبندی واردنہیں ہوئی بلکہ تھوڑابہت علم رکھنے والابھی اسلام کی تبلیغ کرسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا:
‘‘تم بہترین ہو تم لوگوں کے لیے پیداکی گئی ہوتم بھلائی کاحکم دیتے ہواوربرائی روکتے ہو اوراللہ پر ایمان رکھتے ہواوراگرتمام اہل کتاب بھی ایمان لے آتے ان کے حق میں توبہتر تھا۔ان میں سے تھوڑے ہیں جو ایمان لائے ورنہ اکثر نافرمان ہیں۔’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے امت محمدیہ سے خطاب فرمایاہے کہ تمہیں بہترین امت بناکرپیداکیا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہوبرائی سے روکتے ہواس آیت میں امت مرحومہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے صرف اس وجہ سے کہ اس امت میں دعوت وتبلیغ کاکام موجود ہے۔(اچھے کاموں کی تلقین کرنا اوربرے کاموں سے روکنا)یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس امت کے سب لوگ عالم نہیں ہیں اورنہ ہی ہوسکتے ہیں جب کہ اس امت کے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو لاعلم اورجاہل ہیں بلکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو علم سےناآشنااورناواقف ہیں تبلیغ کا اصل معنی یہ ہے کہ ہراچھے کام کا حکم دینا اورہر برائی سے روکنایہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے ۔ہر شخص بغیر علم کے تبلیغ کرسکتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی ایسا حکم ارشادہوا ہے:
‘‘سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایامجھ سےجوسنواسےآگےپہنچاواگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو،یعنی رسول اللہﷺسے جس نے بھی جو رسول اللہﷺسے سنا وہ دوسروں تک پہنچائے۔’’
ایک اورحدیث میں اس طرح کا حکم ارشادہوا ہے :
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺنے ہر عام وخاص سے خطاب کرتے ہوئےارشادفرمایااے لوگو!میری اس نصیحت کو جو لوگ حاضر ہیں غیر حاضر تک پہنچائیں اسلام کے پھیل جانے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے عرصہ قلیل میں تمام دنیا تک پہنچ کربے مثال ترقی کی جس کااصل سبب بھی یہی ہے کہ جو بھی صحابی رسول اللہﷺسے
سنتاتھاکہ اس کو بعینہ دوسروں تک بغیر کسی تاخیر کے پہنچادیتا تھا۔
پھر آج کل کے مسلمانوں کی تنزلی(پستی)کا سبب بھی یہی ہے کہ جو انہوں نے اپنافریضہ تبلیغ ترک کردیا ہے برعکس اس کے جوتھوڑی بہت تبلیغ کرتا ہے تواس شخص سے مذاق کی جاتی ہے رب کریم ہمیشہ ہم مسلمانوں کی ہدایت فرمائےاورہماری خطاون اورلغزشوں کومعاف فرمائے ۔آمین!
آخرمیں ایک اورآیت بھی پیش کی جاتی ہے جس میں تبلیغ کا حکم وارد ہے:
‘‘تم میں بھی ایسی جماعت ہونی چاہئے جو لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتی رہے اورنیکی کا حکم دیتی رہےبرائیوں سے روکتی رہےاوریہی کامیاب لوگ ہیں۔’’