السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ضعیف حدیث قابل عمل ہے اورکیا صحاح ستہ کی تمام احادیث قابل عمل ہیں اورکیا کچھ حدیثیں موضوع(من گھڑت)بھی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ ضعیف حدیث قابل عمل ہے جس کا ضعف تمام خفیف ہومثلا کسی راوی کا حافظہ معمولی کم ہویا کچھ اورباتیں جو اصول حدیث کی کتب میں مفصلا بیان ہوئی ہیں دوسری شرط یہ ہے کہ وہ حدیث فضائل اعمال میں ہو یعنی جس عمل کی فضیلت کےمتعلق کوئی اورصحیح حدیث واردہوئی ہوتوپھر اسی عمل کی فضیلت کے متعلق کوئی خفیف ضعف کی حامل حدیث کو قبول کیا جائے گا۔
مثلانماز کی فضیلت اوراہمیت کتنی ہی صحیح احادیث سے ثابت ہے پھر جب اسی باب میں کوئی ایسی حدیث ہوجس میں ضعف خفیف ہواس میں نماز کی فضیلت واردہوتواسے قبول کیاجائے گامگراس میں یہ خیال ملحوظ خاطر رہے کہ اس کی نسبت جزما اوریقینی طورپررسول اکرمﷺکی طرف نہ کی جائے۔
باقی حدیث کی ایک قسم حسن لغیرہ سے کم درجہ رکھتی ہے۔تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔
باقی اعمال اوراحکام وعقائدکےمتعلق محدثین ومحققین وائمہ فن بہت کڑی شروط عائد کرتےہیں،یعنی ضعیف احادیث سے احکام کا اثبات نہیں کرتے،باقی صحاح ستہ میں سواء صحیحین بخاری ومسلم کے علاوہ دیگر کتب میں کچھ احادیث صحیح توکچھ ضعیف اورکچھ توسخت ضعیف ہیں مگر ان کا علم حدیث کے ماہرین کے علاوہ کسی کونہیں ہوگا باقی کچھ لوگ یہ خیا ل رکھتے ہیں کہ صحاح ستہ کی سب احادیث بالکل صحیح ہیں توانہیں ان کے متعلق اپنے قصورعلم کا اعتراف کرناچاہئے۔حالانکہ ان کتب میں کچھ احادیث ایسی بھی پیش کی جاسکتی ہیں جن کے متعلق یہی بزرگ اقرارکرتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں لیکن پھر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ان کتب کی سب کی سب احادیث صحیح ہیں۔
((فالى الله المشتكى.))
آج كل حديث کا علم بہت کم رہ گیا ہے خصوصا رجال کے فن اوراصول حدیث کا علم بہت ہی مشکل سے کہیں ملتا ہے۔اللہ تعالی ہمیں ہدایت دے آمین!
اصل بات یہ ہے کہ ان مشہوراورمستنداول کتب کو صحاح اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی اکثر احادیث صحیح اورقابل عمل ہیں اورقاعدہ ہے کہ حکم اکثریت پر لاگوہوتا ہے یعنی جس کی اکثریت ہوتی ہے ۔اس کااعتبارکیا جاتا ہے قلت کو معدوم سمجھاجاتاہے اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ القلیل کالمعدوم بعینہ اسی طرح چونکہ ان چھ کتب میں اکثر احادیث قوی ہیں اورامت مسلمہ ان پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔
لہذا اکثریت کے اعتبارسے ان کتب کوصحاح کا لقب دیا گیا ہے انہیں صحاح ستہ کہا گیا ہے اورباقی جو بہت کم احادیث ضعیف اورناقابل حجت ہیں انہیں نظر اندازکرکے ترک کردیاگیا ہے،کیونکہ وہ قلیل ہیں اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان میں ضعیف احادیث سرے سےہیں ہی نہیں اگریہ بات کہی جائے توپھر ان کتب کے مصنفین مثلا ابوداود،ترمذی ،نسائی،وغیرہ ہم نے خود ان کتب میں موجود کچھ احادیث پر ضعف کا حکم لگایاہے توپھر اس کا مطلب کیاہے یہ تو اس مثال کی طرح ہواکہ مدعی سست گواہ چست یعنی خود مصنفین توان کتب کی احادیث کی تضعیف کریں اوریہ ان کی وکالت کرنے والے یہ دعوی کریں کہ ان کتب میں کوئی بھی حدیث ضعیف نہیں ہے ۔وکیل سچایاصیل؟باقی ان کتب کے مصنفین کا اپنی کتب میں ضعیف احادیث لانے سے ان پر کوئی قصورنہیں آتاکیونکہ انہوں نے احادیث کی اسانیدذکرکردی ہیں۔
لہذا وہ اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔باقی کوئی یہ دریافت کرسکتا ہے کہ آخر ان ضعیف احادیث کے ذکر کرنے کا مقصد کیا ہے تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اس طرز عمل کے کئی مقاصد ہیں۔
(١):۔۔۔۔۔۔مثلا کسی مسئلہ کے متعلق صحیح احادیث بھی واردہوئی ہیں تواسی مسئلہ کی مخالفت میں کچھ ضعیف حدیثیں بھی ہیں تواس صورت میں محدثین کرام دونوں ذکر کرکے ضعیف کےمتعلق وضاحت کردیتے ہیں کہ ضعیف حدیث ہے تاکہ ان ضعیف احایث کے سننے کے بعدکوئی یہ نہ کہے سکے کہ اس مسئلہ کے متعلق فلاں حدیث
(صحیح )واردہے اسی طرح اس کے مقابلہ میں یہ حدیث (ضعیف)بھی واردہوئی ہے۔
لہذا اس مسئلہ کے متعلق ہم جو راستہ بھی اختیارکریں درست ہے دونوں طریقے درست ہیں اورآپ کے اسم مبارک پر جلد حدیثیں مشہورہ ہوجاتی تھیں۔خصوصا اسلام کے اول دورمیں اس لیے کتنے ہی واضعین حدثیں گھڑ گھڑ کربیان کرتےرہتےتھے۔لیکن اب ان بزرگوں نے ان حدیثوں (ضعیف)کو مقابلہ میں ذکر کرکےان کے حال سے واقف کردیاہے لہذا اب کسی کو یہ موقعہ نہیں مل سکتا کہ اس طرح کرسکے کیونکہ ہمارے پاس بھی دلیل موجود ہے ۔لہذا دونوں طریقے درست ہیں کیونکہ اب کہا جاسکتا ہے کہ بھائی آپ کی دلیل چونکہ کمزورہےلہذا ہماری دلیل کے مدمقابل نہیں بن سکتی۔اس کی ایک مثال یہ سمجھیں کہ فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے متعلق بالکل صحیح بلکہ اصح احادیث واردہوئی ہیں مگرساتھ ہی کچھ قرات خلف الامام(مطلق قراۃ نہ کہ قراۃ الفاتحہ)سے مانع روایات بھی موجود ہیں۔
لہذا محدثین دونوں احادیث کو ذکر کرکے ان ضعیف احادیث کاحال بیان کرتے آئےہیں تاکہ مقابل ان سے استدلال نہ کرسکے۔
(٢):۔۔۔۔۔۔کسی مسئلہ کے متعلق صحیح حدیث بھی ہے مگر اس کے موافق کچھ ضعیف حدیثیں بھی ہیں جن کا ضعف خفیف ہے تومحدثین ان ضعیف احادیث کو بھی ذکر کردیتے ہیں تاکہ صحیح کچھ طرق(خواہ ضعیف ہی سہی)کی وجہ سے زیادہ قوی بن جائے یعنی اصل دلیل کی بنیاد صحیح حدیث ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے موافق ضعیف حدیثیں بھی آگئیں توثابت شدہ دلیل کو مزید تقویت حاصل ہوگئی۔
(٣):۔۔۔۔۔۔کسی مسئلہ کے متعلق یا کسی بات کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث واردنہیں ہوئی مگراس مسئلہ کے متعلق کسی صحابی کا قول یا فعل واردہوا ہے تومحدثین کرام رحمہم اللہ کسی ضعف خفیف کی حامل حدیث کو ذکر کرتے ہیں تاکہ اس قول یا فعل صحابی کو کچھ تقویت حاصل ہویا اس طرح کہا جائے کہ اس طرف یہ پہلو کو ترجیح دی جاسکے۔
(٤):۔۔۔۔۔۔کوئی بھی صحیح حدیث واردنہیں ہوئی مگرایک ضعیف حدیث واردہوئی ہے لیکن وہ شدید ضعف کی حامل ہے ۔لہذا محدثین کرام ایسی حدیث کو بھی بسااوقات ذکر کرتے ہیں لیکن اس لیے نہیں کہ اس کو دلیل بنایاجائے بلکہ اس لیے کہ اس کا حال معلوم کرکے عوام کو اس سےاحتراز کی تلقین کریں کیونکہ جناب محمد رسول اللہﷺجن سے ہر مسلم کو بے حد عقیدت مندی ہوتی ہے پھر جب وہ یہ سنتاہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق یا فلاں معاملہ کے متعلق آپ کاارشاد واردہےتووہ اس کی اتباع کی کوشش کرتا ہے ،اس لیے محدثین رحمہم اللہ کو وہ حدیث لاکرتصریح کرنی پڑتی ہے تاکہ عوام بھی ان ضعیف یا موضوع حدیثوں کو بیان کرنے نہ لگ جائیں۔کیونکہ ایسی روایتوں کی نسبت بھی آپ کی طرف کرنا گناہ ہے آپﷺکا ارشادگرامی ہے:
((من حدث عنى حديثا وهويرى انه كذب فهواحد الكاذبين.)) سنن ترمذي’كتاب العلم ’باب ماجاءفي من روي حديثاوهويري انه كذاب’رقم الحديث:٢٦٦٢.
’’یعنی جو کوئی ایسی حدیث بیان کرتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے تو وہ دوجھوٹوں یعنی بنانے والااوربیان کرنے والامیں سے ایک جھوٹا ہے۔‘‘
آپﷺکی ذات گرامی پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہ ہے ۔اگر ایسا شخص توبہ تائب نہیں ہوتا تواس پر جہنم واجب ہے۔
ایسی ہی ضعیف اورموضوع حدیثوں میں کتنی ہی بدعات شنیعہ اورکئی شرکیہ اعمال مسلمانوں میں رائج ہوچکے ہیں،اس لیے محدثین جیسے خداپرست انسانوں اورحق پرست علماءپریہ تھا کہ وہ ایسی روایات سے امت مسلمہ کوآگاہ کریں تاکہ لاعلمی کی وجہ سے ہلاکت کےگڑھے میں نہ گریں۔
اس طرح کے کئی اوراسباب بھی ہوسکتے ہیں اگرکوئی اہل دانش شخص غورکرے گا تواسےتھوڑا سا غورکرنے سے ہی ان پر اطلاع حاصل ہوسکتی ہے ۔مگر ہمارے اس کلام سے شایدکوئی شخص یہ خیال کرے کہ ایسی ضعیف احادیث کے متعلق محدثین کرام رحمہم اللہ ہر جگہ لامحالہ اوربالضرورتصریح کرتے ہوں گے اوران کے اسانید کے رواۃ کے متعلق آگاہ فرماتے ہوں گے ہرجگہ یہ سمجھنادرست نہیں۔
کیونکہ کچھ جگہوں پر وہ دانستہ رواۃ کے متعلق تصریح نہیں کرتے اس لیے کہ وہ مجروح راوی اتنا معروف ومشہورہوتا ہے اوراس کی بیان کردہ حدیثوں کاحال اتنا واضح ہوتا ہے کہ بہت کم حدیث کے ساتھ ممارست رکھنے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے وہ راوی کتنے پانی میں ہے۔اوروہ کون سی آفت ہے۔
مثلا جابرجعفی وغیرہ تواس صورت یہ بزرگ اس کی شہرت اورحدیث میں اس کے حال کے عام ہونے کی وجہ سے صرف سندذکرکردیتے ہیں تاکہ اس سند کو دیکھنے والافورامعلوم کرکے ترک کردے۔لہذا اس صورت میں محدثین کی تصریح کی کوئی ضرورت نہیں۔افسوس!کہ آج کل اتنے بڑے مجروح راویوں کا علم رکھنے والے بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔
محدثین دوسرے انسانوں کو بھی اس فن وعلم کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھی بسااوقات کچھ احادیث کا ضعف بیان نہیں کرتے تاکہ طالب حدیث میں اس فن کا شوق وجزبہ پید اہواوروہ خود اس فن میں مہارت حاصل کرلے تاکہ اس میں اتنی استعدادپیدا ہوجائے کہ وہ خودبھی کسی روایت کی کماحقہ تحقیق کرسکے ورنہ دوسری صورت میں حدیث کے طالب محض مقلدبن جائیں گے۔
باقی اس میں اتنی استعدادنہیں ہوگی کہ کسی حدیث کی تحقیق کرسکے۔لہذا محدثین اس غرض سے بھی کہ طالب حدیث خود اتنی استعدادپیداکرے کہ کسی حدیث کی تحقیق کرسکے رواۃکے حالات بیان نہیں کرتے۔
امام محدثین امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں جو ابواب اوراحادیث کے تراجم میں جو قابلیت دکھلائی ہے وہ کسی دوسرے محدث میں بمشکل نظرآتی ہے۔باب باندھ کر اس کا ترجمہ لکھتے ہیں پھر اس کے تحت حدیث ذکر کرتے ہیں اورپھر کتنی ہی باران احادیث کو تراجم الابواب پرمنطبق کرنے کے لیے شارح حیران رہ جاتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ طرز عمل اس لیے اپناتے ہیں کہ طالب علم بھی اپنے ذہن کر تیز کرےاوروہ احادیث سے مسائل کے استنباط پر قدرت حاصل کرے۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف مجتہد ہے بلکہ مجتہدگربھی ہے یعنی غیر مجتہد کومجتہد بنانے والاہے۔
بہرحال محدثین کرام رحمہم اللہ کا ضعف احادیث کو اپنی کتب میں ذکر کرنے کے کئی مقاصد ہیں لہذا انہیں ان احادیث کو لانے کی وجہ سے مطعون نہیں کیا جاسکتا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب