السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورج غروب ہوتا ہے یا چاروں اطراف گھومتا رہتا ہے اورپھر واپس اپنی جگہ سےآکرطلوع ہوتا ہے۔قرآن پاک میں ہے کہ ذوالقرنین نے سورج کو غروب ہوتےدیکھا کہ وہ کیچڑ والے پانی میں اتررہا تھااس کا کیا مطلب ہے؟اورصحیح بخاری میں ہے کہ سورج روزانہ اللہ تعالی کے عرش عظیم کے نیچے آکرسجدہ کرتا ہےاورواپس جانے کے لیےاجازت مانگتا ہے۔اللہ تعالی جب اسے مغرب سے طلوع کرنا چاہے گا اس رات سورج کو اجازت نہیں ملے گی اوراسے کہا جائے گا کہ جہاں سے غروب ہوا ہے وہیں سے جاکرطلوع ہوجا۔اس سے معلوم ہوا کہ سورج طلوع وغروب ہوتا ہے۔مگرجب اوقات کو دیکھا جاتا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ سورج غروب ہوتا ہی نہیں۔مغربی تہذیب والے کہتے ہیں کہ سائنس سے جوکچھ معلوم ہوا ہے وہ درست ہےباقی مولوی حضرات خوامخواہ اپنا سرکھپارہے ہیں۔اب تفصیل کے ساتھ سمجھائیے کہ قرآن کریم اورصحیح بخاری کی حدیث کا کیا مطلب ہے تاکہ حق بات معلوم ہوجائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولایہ حقیقت ذہن نشین رہے کہ کتاب وسنت میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں وہ انسانوں کے زمانے میں چلنے والے مماورات کے لحاظ سے لائے گئے ہیں اس لیے ان الفاظ دیکھ کران کے معنی بھی بالکل اسی طرح سمجھنا جس طرح بظاہر سمجھ میں آرہاہےدرست نہیں مثلاسورج کے نظروں سے غائب ہونے کو ہم اپنی زبان میں غروب ہونا کہتے ہیں اورعرب بھی غروب کے مادہ کو استعمال کرتے ہیں اس لیے قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہےلہذا اس سے یہ مطلب سمجھنا کہ سورج واقعتا نیچے کسی کھڈے میں غروب ہوگیا ہےقطعا غلط ہوگا،ظاہر ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لیے وہ کسی بات یا حقیقت کوبیان کرے کے لیے ضروروہی الفاظ استعمال کرتا جو عربی زبان میں مروج تھےایسا کوئی دوسرالفظ استعمال نہیں کرتا جو اس زبان میں مروج نہ تھا ورنہ وہ اہل زبان اس پر سخت انکارکرتے اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ گزارش ہے کہ قرآن وحدیث میں یہ بیان موجود نہیں کہ سورج زمین کے چاروں اطراف گھوم رہا ہے ۔البتہ قرآن میں اتنا ضرورہے کہ سورج اوپر خلا میں حرکت کررہا ہے اورایک خاص وقت تک حرکت کرتا رہے گا۔آج کل کی سائنس بھی اسے تسلیم کرتی ہے کہ واقعتا سورج چلتا رہتا ہے باقی زمین کے گردچلتا اورگھومتاہےیانہیں اس بارے میں قرآن شریف نے کچھ بھی بیان نہیں کیا۔
موجودہ سائنس تو کہتی ہے کہ زمین ہی اس کے گرد گھوم رہی ہےسواگرچہ انہوں نے اپنے اس دعوی پرکوئی مضبوط دلیل پیش نہیں کی تاہم اگرواقعتازمین سورج کے گردگھوم رہی ہےتوبھی اس کا قرآن وحدیث میں انکار نہیں ہےباقی قرآن شریف میں جو غروب کالفظ آیاہےاس کے متعلق پہلے ہی گزارش کردی گئی ہےکہ غروب سے مرادنظروں سے اوجھل ہونامراد ہے نہ کہ نیچے اترجاناباقی یہ لفظ کیوں استعمال ہوااس کے متعلق بھی گزارش کردی گئی کہ اس وقت عرب میں یہی لفظ مستعمل تھالہذا اسے استعمال کیاگیا ہے۔
مذکورہ بالاکلام کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج اوپر خلاء میں گھوم رہا ہے اورایک مقررہ وقت تک حرکت کرتا رہے گا۔موجودہ سائنس بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ واقعتا سورج حرکت کررہا ہےاورگھوم رہا ہے اگرچہ ان کے کہنے کے مطابق وہ اپنے مدار(حساب کتاب)سے گھوم رہا ہےنہ کہ زمین کے گرداوراس بات کوقرآن پاک نے نہیں چھیڑا۔
باقی سورج کے غروب ہونے کا مطلب اسی خطہ سے (جہاں غروب ہوا ہے)نظروں سے غائب ہوجاناہے اس کا مطلب نیچے کسی گڑاہے (یا کھائی)وغیرہ میں اترنا نہیں ہے۔
باقی رہی ذوالقرنین والی بات توسوال میں کہا گیا ہے کہ ذوالقرنین نے سورج کو کیچڑوالے پانی میں اترتے دیکھا یہ قرآن کریم کے لفظ کا صحیح ترجمہ نہیں کیونکہ قرآن پاک کےالفاظ ہیں کہ :
﴿حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ ٱلشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِى عَيْنٍ حَمِئَةٍ﴾ (الکهف:٨٦)
’’یعنی یہاں تک کہ ذوالقرنین جب سورج کے اترنے کی جگہ پر جاپہنچا(یعنی مغرب کی طرف انتہاتک جاپہنچایعنی جہاں خشک زمین ختم ہوجاتی ہے اورسمندرشروع ہوجاتا ہے اور(اسے بحرروم یا جسے جابہونوچ سمندرکہاجاتا ہےجو یورپ اورایشیا اورافریقہ کے درمیان میں)وہاں جاپہنچاتب اسے اس طرح سمجھ میں آیا کہ سورج کیچڑ والے پانی میں اتررہا ہے۔‘‘
یہ الفاظ اس لیے کہے گئے کہ ذوالقرنین ایسی جگہ پر جا پہنچا تھا جہاں سے آگے خشکی کاراستہ بالکل نہ تھابلکہ پانی ہی پانی تھا اور(اس کے کنارے پر کھڑے ہونے کے بعد ہرکسی کو یہی محسوس ہوگا کہ سورج پانی میں اترگیا جیسا کہ حجاج کرام کو جب وہ حج پر جاتے ہیں توکراچی سے کچھ آگے سمند رمیں پہنچنے کے بعد ہر روز سورج سمندر سے طلوع وغروب ہوتا ہوامحسوس ہوتا ہے یہاں تک کہ خشکی کے قریب نہ پہنچ جائیں۔
بہرحال ذوالقرنین مغرب کی جانب خشکی کی آخری حد پر جا پہنچاتھا (یعنی اقصائےمغرب)جس کے بعد پانی ہی پانی تھا۔لہذا اسے سورج اسی میں غروب ہوتا محسوس ہوا ہوگا نہ کہ واقعتا اس نے سورج کو اس میں غروب ہوتے دیکھا جیسا کہ سوال میں ہے اوروجدہاکاترجمہ اس طرح اس لیے کیا گیا ہے کہ اس مقام پر’’زار‘‘ ہوتا تواس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اس نے دیکھا مگر یہاں پر لفظ وجد ہے اوریہ افعال قلوب میں سے ہے یعنی جوبات انسان آنکھوں سے نہیں مگر دل سے محسوس کرے ،ظاہر ہے کہ سورج کا اس پانی میں غروب ہوناذوالقرنین کو محسوس ہوا نہ کہ واقعتا غروب ہوا۔
لیکن اگر اس کا معنی آنکھوں سے دیکھنا کیا جائے تو بھی مطلب بالکل واضح ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے کیونکہ یہ توذوالقرنین کا مشاہدہ بیان کیاگیا ہے۔
یعنی ذوالقرنین کو ایسا دیکھنے میں آیا اوریہ تو آج بھی کوئی سمندر کے کنارہ پر سورج کے غروب ہونے کے وقت کھڑا ہوتو اسے ظاہری طور پر دیکھنے میں آئے گا کہ سورج سمندر میں اترگیا،اگر کسی کو شک ہو تو تجربہ کرلےہم نے اوپر حجاج کی مثال ذکر کی ہے اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ واقعتا سورج اس پانی میں غروب ہوگیا یہی سبب ہے کہ اللہ تعالی نے لفظ ‘‘وجد’’ذکرکیا ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسے اس طرح دیکھنے میں آیا یا اسے اس طرح محسوس ہوا نہ کہ واقعتا سورج اس پانی میں غروب ہوا اس پر خوب غورکریں۔
مزید مطلب بالکل واضح ہے۔باقی کیچڑ والاپانی یا گدلا(مٹی آلود )پانی اس لیے کہاگیا ہے کہ جس جگہ پر ذوالقرنین بحراروم کے کنارہ پر پہنچاتھا وہاں کشتیوں کے آمدورفت بہت ہے لہذا مٹی کی وجہ سے سفید پانی بھی مٹیالے رنگ کا نظر آتا ہے ۔بہرکیف مطلب بالکل واضح ہے کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف انتہا تک جاپہنچاجہاں سے آگے جانے کے لیے خشکی کا راستہ اسے نہ ملااورسورج کو اس پانی میں غروب ہوتے ہوئے سمجھے کہ وہ گویا سورج کے اترنے کی جگہ پرجاکرپہنچے اب اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہوسکتاَ۔
انسان کو جس جگہ پر آگے جانے کا راستہ نہیں ملتا تواسے انتہایا حد ہی اس ملک یا زمین کی سمجھتا ہے ممکن ہے کہ حقیقت میں اس سے آگے بھی کوئی ملک یا زمین ہواسی طرح ذوالقرنین جس جگہ پر پہنچا(یعنی مغرب کی طرف کی انتہا کو)اس سے آگے اسے راستہ نہ ملااگرچہ کافی سفر کرنے کے بعد دوبارہ خشکی آتی ہے یعنی یورپ مگر تاہم اسے چونکہ آگے راستہ نہ ملالہذا وہاں سے ہی واپس پلٹے۔
باقی رہی صحیح بخاری والی حدیث سوحدیث شریف کے تمام الفاظ لکھ کرترجمہ وتشریح کرتاجاوں گا جس سے معلوم ہوگا کہ اللہ کے رسولﷺکی حدیث پاک میں کوئی بھی خرابی نہیں بلکہ ہمارے کج فہمی اورتحقیق نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہے۔کاش!اللہ ےتعالی تمام مسلمانوں کو صحیح راستہ پر توفیق عنایت فرمائے۔آمین!
حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’(فانها تذهب)‘‘یعنی سورج جاتا ہے یامادے کے لحاظ سے ترجمہ ہوگاکہ سورج غروب ہوتا ہے اترتا ہے ۔سورج کے چلنے کاذکر قرآن پاک میں بھی مذکورہےقرآن فرماتا ہےکہ﴿وَٱلشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ﴾ۢ (يس:٣٨)’’یعنی سورج اپنے مستقرکی طرف چلتا ہے۔مستقرکا مطلب جاءقرار‘‘ یعنی وہ نقطہ جہاں سے ہی اسے الٹی حرکت کرنی پڑے گی ۔’’یعنی نقطہ رجوع ،یعنی سورج ایک مقررہ وقت تک ایک نقطہ تک چل رہا ہے جہاں سے ہوکردوبارہ واپس پلٹے گایا الٹی حرکت کرے گا۔‘‘
اس طرح جدید سائنس نے بھی سورج کی حرکت یا چلنے کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے لہذا حدیث کے اس لفظ میں کوئی بھی خرابی نہیں اب اس لفظ کی بامحاورہ معنی یہ ہوا کہ سورج اترجاتا ہے اس سے آگے ہے کہ ’’حتي تسجد تحت العرش‘‘ ان الفاظ کے معنی نہ سمجھنے میں زیادہ وقت لفظ ’’حتي‘‘ کے معنی نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے عام طورپر اس کامعنی یہاں تک کیا جاتا ہے اوراس معنی سے مشکل پیش آجاتی ہے۔
حالانکہ یہاں’’حتي‘‘صرف حرف عطف ہے جس طرح واواورفاءحروف عاطفہ ہیں علامہ عبداللہ اپنی کتاب مشکلات الاحادیث النبویہ وبیانہامیں لکھا ہے کہ کتنے ہی مواقع پر حتی کالفظ عطوف کے لیے استعمال ہوتا ہے جس طرح واواورفاءآتے ہیں۔نحو کے علماء میں سےایک جماعت کا یہ مشہورقول ہے
’’بينات ترجمة مشكلات‘ص٣١٤‘‘
اب مطلب یہ ہوگا کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اوراللہ تعالی کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے یعنی حتی بمعنی‘‘اور’’کے ہے۔باقی رہا سورج کا سجدہ کرنا سواول تو خود قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے کہ:
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسْجُدُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلْجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌۭ مِّنَ النَّاسِ﴾ (الحج:١٨)
’’کیا آپ نہیں دیکھ رہے جو آسمانوں اورجوزمینوں میں ہیں وہ سب رب کےسامنے سجدہ میں ہیں،سورج،چاند،ستارے،پہاڑ اوردرخت ،جانوراوربہت سےانسان۔‘‘
دیکھئے اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ سورج بھی سجدہ کرتا ہے بلکہ پہاڑاوردرخت بھی سجدہ کرتے ہیں ۔پھر جوجوحدیث کو نہیں مانتے صرف قرآن کو مانتے ہیں وہ جواب دیں کہ یہ کس قدردرست ہے۔
درحقیقت انھوں نے سجدہ کا مطلب نہیں سمجھاصرف لفظ سجدہ کو دیکھ کر یہ کہنا کہ سورج یا دیگر اشیاء بھی ہم انسانوں کی طرح سجدہ کرتی ہیں سویہ قطعا غلط ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہرچیز نماز بھی پڑھتی ہے اوراللہ تعالی کی تسبیح بھی کرتی ہے مگرہر چیز کی نماز اورتسبیح کا اپنا اپنا طریقہ ہے قرآن کریم نے خود تصریح کی ہے کہ:
﴿كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُۥ وَتَسْبِيحَهُۥ﴾ (النور:٤١)
’’ہرایک کی نماز اورتسبیح اسے معلوم ہے۔‘‘
اس آیت سے اوپر بیان ہے کہ اللہ تعالی کی تسبیح زمین وآسمان میں جو کچھ سب بیان کرتے ہیں اورپرندے بھی اس کے بعد فرمایاکہ ان میں سے ہرکسی کو اپنی تسبیح اورنماز کا علم ہے یعنی پرندوں کے لفظ یہ مت سمجھوکہ وہ بھی ہماری طرح تسبیح کرتے ہیں بلکہ ان کی تسبیح اورنماز کا الگ ڈھنگ اورطورطریقہ ہے جو ان کو اللہ تعالی نے سمجھایا ہے اسی طرح دوسرے مقام پر ارشادربانی ہے کہ :
﴿وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾(بنی اسرائيل:٤٤)
’’اورہر چیز اللہ تعالی کی تسبیح بمع حمد کرتی ہے تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے (یعنی اس لیے کہ ان کی تسبیح کا الگ الگ طریقہ ہے)‘‘
مطلب یہ ہوا کہ سورج بھی واقعتا اللہ تعالی کو سجدہ کرتا ہے مگر اس کا سجدہ بعینہ ہمارےسجدہ کی طرح نہیں ہے اس کا سجدہ بھی اپنے طریقے کا ہوگاجو اللہ تعالی نے اس کے لیے مقررکیاہوگا باقی عرش کے نیچےکا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی حکومت کے ماتحت ہے جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ میراسربادشاہ سلامت کے تخت کے سامنے جھکا ہوا ہے باقی اس جگہ تخت یا عرش کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ تخت بادشاہ کی عظمت اورجلال وبزرگی کا مظہر ہوتا ہے۔
بہرحال حدیث کا مطلب یہ بنا کہ سورج اللہ تعالی کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے یعنی خود اللہ دتعالی کے حکم کے سامنے مطیع وفرمانبردارہے اورایک لمحہ کے لیے بھی اس کے حکم سےباہر نہیں حقیقت میں اس حدیث نے توایک بڑی حقیقت انسان کے سامنے بیان کی ہے کہ ہرچیز حتی کہ سورج،چاندوغیرہ سب اللہ تعالی کی حکومت کے ماتحت اپنا فرض نبھارہے ہیں اوراپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔
واقعتا کوئی ایک ذرہ بھی اللہ تعالی کی حکم کے سواحرکت نہیں کرسکتا ،اگرسجدہ کا مطلب اللہ تعالی کے حکم کے سامنے سرنگوں اوراس کی مرضی کے مطابق حرکت کرنا کی جائے تواصل اشکال نیست ونابودہوجاتی ہے حقیقت میں ایسی اشیاء کا سجدہ یہ ہی ہے کہ وہ ہر حالت میں اللہ کے حکم کےسامنے سرنگوں ہیں اوروہی کام کرتے ہیں جو کام مالک العلام نے ان کے ذمہ لگایا ہے۔
اب حدیث کے مذکورہ بالااجزاء کا بامحاورہ مطلب یہ بنا کہ سورج غروب ہوجاتا ہےاورعرش عظیم والی ذات پاک کے تکوینی حکم کے سامنے سرنگوں اوراس کے ارادہ اورمرضی کے مطابق اوراس کے مقررکردہ قوانین ،حرکات کے ماتحت چلتا رہتا ہے۔اس کے بعدحدیث کے یہ الفاظ ہیں۔
((فتساذن فيوذن لها.))
’’یعنی پھر اجازت طلب کرتا ہے اوراسے اجازت مل جاتی ہے۔‘‘ ان الفاظ میں کوئی خرابی نہیں کونکہ یہ مسلم اورطے شدہ اصول ہے کہ اللہ تعالی کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ بھی اپنی جگہ سے آگے حرکت نہیں کرتا۔جوکچھ ہوتا ہے وہ سب اسی کے قوانین فطرت اورراسی ہی کے اذن(مشیت)سے ہوتا ہے اسی طرح اس جگہ پر یہ اصول کارفرماہے ہر لمحہ ہرگھڑی جس جگہ پر بھی سورج غروب ہوتا ہے اورکسی جگہ پر طلوع ہوتا ہے یہ اللہ تعالی کے اذن سے ہے مطلب یہ ہے کہ سورج کا غروب ہونایاطلوع ہونا سب اپنے مالک کی مرضی اوراس کے ارادہ کے مطابق ہے اوروہ ہروقت حکم الہی کا منتظر رہتا ہے اورچونکہ اسے رک جانے یا واپس پلٹنے کاحکم نہیں ملتا ۔لہذا آگے بڑھتے رہنے کا اذن ہوجاتا ہے اوروہ آگے بڑھتا رہتا ہے اوراپنی گردش جاری رکھتے ہوئے آتا ہے ۔یعنی جس جگہ پر غروب ہوا وہاں اللہ کے حکم سے غائب ہوکراوردوبارہ اسی کے حکم سے آگے بڑھتا ہوا دوسرے ملک پر جاکرطلوع ہوجاتا ہے بتایاجائے کہ اس میں کیا خرابی ہے یا اس میں کون سی مشکل ہے جو سمجھ میں نہیں آرہی ؟آگےحدیث شریف کے الفاظ ہیں:
((ويو شك ان تسجدولا يقبل منها ولتستاذن ولا يوذن لها))
’’یعنی قریب ہے کہ وہ (سورج)سجدہ کرے اورسجدہ قبول نہ کیا جائےاوراجازت طلب کرے مگراسےاجازت نہ مل سکے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ عنقریب (قیامت سے پہلے)اس طرح ہوگا کہ سورج سجدہ کرے گا(یعنی اپنی فرمانبرداری اداکرنا چاہے گا اوراپنی مقررہ حرکت (یعنی جس طرح اب حرکت کرتاہے)جاری رکھنا چاہے گالیکن سجدہ (فرمانبرداری)قبول نہیں کی جائے گی(یعنی اب یہ حرکت تجھے جاری نہیں رکھنی)
یابالفاظ دیگر وہ قانون الہی کے مطابق چلتا رہنا چاہے گا لیکن اس کی یہ درخواست قبول نہیں ہوگی اوراسے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ملے گی۔آگے یہ الفاظ ہیں:
((فيقال لها ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها))
’’یعنی پھر اسے کہا جائے گا کہ جس طرف سے آئے ہو اسی طرف واپس پلٹ جاپھر وہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔‘‘
مطلب کہ قیامت کے قریب سورج کومغرب سے طلوع ہونے کاحکم ہوگا لہذا وہ حکم کی تعمیل میں مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اوراس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ اللہ تعالی کےلیے ہرکام آسان ہے۔‘‘والله علي كل شئي قدير’’اوریہ بات جدید سائنس کےبقول بھی درست ہے وہ اس طرح کہ وہ کہتے ہیں کہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے اوروہ اس وقت مغرب کی طرف سے مشرق کی طرف گھومتی ہے یعنی مشرق والے ممالک پہلے سورج کےسامنے آتے ہیں۔اس لیے قیامت کے قریب جب اللہ تعالی اس کائنات کے موجودنظام کودرہم برہم کرنا چاہے گاتوزمین کو حکم فرمائے گا کہ تواپنی موجودہ حرکت سے الٹی حرکت کر یعنی مغرب سے مشر ق کی طرف گھومنے کی بجائے مشرق سے مغرب کی طرف گھوم،بس نتیجہ ظاہرہے کہ موجودہ وقت کے برعکس مغرب والے ممالک پہلے سورج کے سامنے آئیں گے یعنی دوسرے الفاظ میں سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
اب غورکریں کہ اس میں کیا اشکال ہے یا اس میں کیا مشکل ہے؟کچھ بھی نہیں مگر یہ بھی ہم نے ان سائنس والوں کے کہنے کو صحیح فرض کرکے لکھا ہے ورنہ زمین کی حرکت کے متعلق انہوں نے کوئی ٹھوس اورمعقول دلیل پیش نہیں کی بہر حال حدیث میں کوئی بھی خرابی نہیں۔اللہ تعالی کےرسولﷺکا فرمان بالکلیہ صحیح ہے صرف ہماری سمجھ کا چکر ہے اورحدیث کے مطلب کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب