السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کریم میں ہے کہ آسمان کے دروازے ہیں ۔سورۃ الاعراف میں ہےکہ کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اورسورۃ النباء میں ہےکہ قیامت والے دن آسمان کے دروازے کھولے جائیں گئے معلوم ہواکہ آسمان کے دروازے ہیں اسی طرح معراج والی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺجب پہلے آسمان پرپہنچے توجبرئیل علیہ السلام سے پوچھا گیا آپ کے ساتھ دوسرے کون ہیں جبریل علیہ السلام نے جواب دیاکہ محمدﷺہیں پھر آسمان کے محافظ نے سوال کیا ان کو بلایا گیا ہے جبریل علیہ السلام نے جواب دیا جی توآسمان دنیا کا دروازہ کھولاگیاپھر آپﷺاوپر کی طرف چڑھے اوراسی طرح تمام آسمانوں پر اس طرح کے سوالات وجوابات ہوئے اورجوابات ملنے کے بعد ہی دروازہ کھلتا گیااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریمﷺاورجبریل علیہ السلام کے لیے بھی اجازت کے بعد ہی آسمان کے دروازے کھلے ہیں اوربغیر اجازت کے نہیں کھل سکتے تھے توپھر امریکن خلابازوں کے لیے آسمانوں کے دروازے کس طرح کھل گئے کہ وہ بغیر کسی روک ٹوک کے آسمانوں سے ہوتے ہوئے سیدھا جاکرچاند پر اترے اوراس وقت اخباروں اورمیڈیا کی چاند کے متعلق باتوں کو سن کر جب حدیث کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یاالہی یہ کیا ہے واقعی چاند کو فتح کیا گیا ہے؟اورادھر قرآن میں یہ فرمایاگیا ہے کہ سورج اورچاند چلتے ہیں اب یہ بتائیں کہ اگر چاند چلتا ہے توپھر کس طرح امریکن خلابازوہاں پر پہنچےکیونکہ جتنا راکٹ چلے گا اس سے کہیں زیادہ تیز چاند چلتا رہے گا پھر کس طرح چاند کو فتح کیاگیا ہےیہاں پراسلام اورسائنس کا زبردست ٹکراوہےاس کے متعلق وضاحت کے ساتھ جواب دیا جائے تاکہ حیرانگی دورہوجائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال نمبر٢کے جواب میں عرض رکھا کہ دروازوں سے مرادشرعی آسمان کے دروازے ہیں نہ کہ یہ آسمان یا عالم بالاکے وہ خطہ جو مشاہد ہ میں آتے ہیں کیونکہ معراج والی روایت میں جو بیان ہے وہ اس عالم محسوسات سے ماوراءاورغیب کے علم سے تعلق رکھنے والاہے جس کا مشاہدات اورمحسوسات سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ہمارامکمل ایمان ہے کہ وہ دروازے بھی تھے اورکھولے بھی گئے تھے اس کے محافظ بھی تھے لیکن اس حقیقت کا ہمیں پوری طرح ادراک نہیں ہے۔اس کی پوری حقیقت اللہ سبحانہ وتعالی اوراس کے رسولﷺکو ہی معلوم ہوگی ہماراکا م اس حقیقت پر بغیر چوں چراں ایمان لانا ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریمﷺنے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکوفرمایاکہ یہ جبریل علیہ السلام کھڑا ہے جو آپ کو سلام کہہ رہا ہے سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا:’’وعليه السلام ورحمة الله وبركاته‘‘ آپ(یعنی نبی کریمﷺ)وہ دیکھتے ہوجومیں نہیں دیکھ سکتی ۔تودیکھو سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا پاس کھڑی ہیں لیکن حضرت جبریل علیہ السلام کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن آپ ﷺ ان کو دیکھ رہے تھے اوراس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایمان تھا۔
اسی طرح نبیﷺنے جبریل علیہ السلام کوصرف دومرتبہ اصلی حالت میں دیکھاجس طرح حدیث میں آتا ہے کہ آپﷺنے فرمایاکہ میں نے ان کو دیکھا کہ آسمان کے پورے افق پر گھیراہواتھا(کرسی پر)تواتنی بڑی جسامت رکھنے کے باوجودوہ ہستیاں ہمیں کیوں نظر نہیں آتیں؟کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان کے وجود کے ہی منکر ہوجائیں؟کیایہ کوئی عقلمندی ہوگی یا اس کو حددرجہ کی جہالت اوربیوقوفی کہا جائے ؟دراصل بات یہ ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں بیشمار ایسی چیزیں ہیں جن کو ہم نہیں دیکھ سکتے ۔ایسا بھی کوئی وقت تھا جب بیکٹیریا(Gersomes)کے بارے میں لوگوں کو کچھ پتا نہیں تھالیکن طاقتورخوردبین کےذریعے اس کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے۔
حالانکہ ایک صدی قبل ان کے متعلق کوئی بات بھی کرتا توکوئی ماننے کے لیے تیار بھی نہ ہوتا لیکن کیا ان کا نہ ماننا علمی دنیا میں کوئی وقعت رکھتا ہے؟ہرگز نہیں!لیکن آج اس کے مشاہد ہ کے ذرائع فراہم ہوچکے ہیں اس لیے اگر کوئی انکارکرے گاتواس پر نہ صرف جگ ہنسائی ہوگی بلکہ ہر کوئی اسکی جہالت اوربے علمی پرافسوس کا اظہارکرے گا۔
بعینہ اس طرح فرشتے اوربہت ساری دوسری چیزیں جن کا تعلق غیب سے ہے موجودہیں لیکن فی الحال ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔کیونکہ اس وقت ہم سے ایمان بالغیب مطلوب ہے اوردوسراکوئی ایساذریعہ بھی موجود نہیں ہے کہ جس کے سبب اس کا مشاہدہ کیا جاسکے۔لیکن قیامت کے دن یہ تمام پردے چاک ہوجائیں گے اور حائل تمام رکاوٹیں دورہوجائیں گی۔پھر بہت ساری غیب کی چیزیں مشاہدہ میں آجائیں گی۔
حتی کہ خود اللہ تبارک وتعالی اپنا دیدارنصیب کریں گے ۔اس لیے کوئی بھی عقلمند کسی چیزکاصرف اس لیے انکار نہیں کرسکتا کہ وہ چیز اس کو نظر نہیں آتی ۔یہ تو ہمارے روزمرہ کادستورہےکہ اگر کوئی قابل اعتمادآدمی خبر دیتا ہے توہم اس پر اعتبارکرلیتے ہیں صرف اس لیے کہ خبردینے والاقابل اعتماد ہے۔
اسی طرح اگر ان حقائق کے بارے میں ہمیں اصدق القائلین جناب محمدﷺکوئی خبردیں توہمیں بغیر کسی چوں چراں اس پر کامل یقین ایمان رکھنا ہے۔کیا آپﷺکی باتوں پر ہمارااتنا پختہ یقین نہیں ہے جتنا ایک عام آدمی کی بات پر ہوتا ہے؟اگر اس طرح ہے تو پھر ہمارے اندرایمان ہی نہ رہا۔اسی طرح بہشت (جنت)وغیرہ جس کا مومن بندوں کے ساتھ وعدہ ہے جو ک ہ آسمان پر ہے جس کا ہم مشاہدہ بھی نہیں کرسکتے:
﴿وَفِى ٱلسَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ﴾ (الذاريات:٢٢)
’’تمھاری روزی اورجوتم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘
توکیا اس کا مطلب کہ ہوگا کہ ہمارااتنا اوپرجانے کے باوجودبھی(یعنی راکٹوں اورہوائی جہازوں کے ذریعے)وہ ہمیں نظر نہیں آتے لہذا وہ ہیں ہی نہیں؟کیا ایک مومن یہ عقیدہ رکھ سکتا ہے؟دراصل بات یہ ہے کہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ہمارے امتحان کی وجہ سے ان کو پردہ میں رکھا ہے کہ ہم اللہ اوراس کے رسولﷺکی باتوں پر ایمان رکھتےہیں یا نہیں؟پھر قیامت کے دن اس پردے کو ہٹایاجائے گاجیسے قرآن میں ہے:
﴿وَإِذَا ٱلسَّمَآءُ كُشِطَتْ﴾ (التكوير:١١)
’’اورجب آسمان کی کھال اتارلی جائے گی۔‘‘
یہاں مراداس پردہ کے ہٹانے کا ہے جو تمام چیزوں کے سامنے حائل ہے ۔لیکن جیسے ہی وہ ہٹے گا توپوری حقیقت بالکلیہ آنکھوں کے سامنے آجائے گی اورسورۃ نباء کا جو ترجمہ کیا گیا ہےکہ قیامت کے دن آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے یہ ترجمہ غلط ہے اصل آیت کریمہ اس طرح ہے:
﴿وَفُتِحَتِ ٱلسَّمَآءُ فَكَانَتْ أَبْوَٰبًا﴾ (النبا:١٩)
’’کہ آسمان کھولاجائے گاپس وہ ہوجائے گا دروازے دروازے۔‘‘
یہ بعینہ وہی بات جس کو ہم نے پیچھے ذکرکیا یعنی عالم بالاجوہماری نظروں سےمستورہےوہ کھولاجائے گااورغیبی پردےہٹادیئے جائیں گےپھر اس کے دروازے ظاہرہوجائیں گے۔
معلوم ہواکہ آسمان میں بھی بھی دروازے ہیں جو ہماری آنکھوں سے مستورہیں۔
سورۃ النباء کی یہ آیت ان دروازوں کے متعلق بالکلیہ فیصلہ کن بات بتاتی ہے اگر اس پرغورکیاجاتایااس کے مطلب کی تہہ تک پہنچنے کی سعی کی جاتی تواس طرح کے اعتراضات یاشبہات پیش ہی نہ آتے۔اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعد آتے ہیں چاند پرپہنچنے والی بات کی طرف ۔اگر اندھی تقلید مانع نہ آئے اورہرتحقیق کو قبول کرنے کا سبب صرف اسی کانیا ہونا نہ ہوتومعاملہ بالکل آسان ہے۔جتنا بھی غورسےقرآن کریم کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت واضح ہوکرسامنے آتی ہے کہ قرآن حکیم اس کائنات اورمشاہد ہ میں آنے والی موجودات کی ہرچیزپر پہنچنے کا قائل ہے۔چند آیات ملاحظہ کریں۔
﴿أَلَمْ تَرَوْا۟ أَنَّ ٱللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُۥ ظَـٰهِرَةً وَبَاطِنَةً﴾ (لقمان: ٢۰)
’’کیا تم نے نہیں دیکھا اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی ہرچیز کو تمھارے کام میں لگارکھا ہے اورتمھیں اپنی ظاہری اورباطنی نعمتیں بھرپوردیے رکھی ہیں۔‘‘
﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ ٱلْبَحْرَ لِتَجْرِىَ ٱلْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِۦ وَلِتَبْتَغُوا۟ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿١٢﴾ وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (الجاثيه: ١٢/١٣)
’’اللہ ہی ہےجس نےتمھارےلیےدریاکومطبع بنادیاتاکہ تم اس میں چل پھرکراس کافضل(رزق)تلاش کرواورممکن ہےکہ تم شکربجالاواورآسمان وزمین کی ہرہرچیزبھی اس نےاپنی طرف سےتمھارےتابع کردی جواس میں غورکریں وہ یقینابہت سےدلائل پالیں گے۔‘‘
ان دونوں آیات کریمہ میں بیان ہےکہ اللہ تعالیٰ نےاوپرنیچےہرچیزکوانسان کےتابع بنایاہے۔(مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ)میں چانداوردوسرےسیارےبھی آجاتےہیں۔لہٰذاآج اگرانسان چاندپرپہنچاہےتوپہنچ سکتاہےاس میں کون سی تعجب والی بات ہےیہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اوربرحق نبی ہونےکی ایک ٹھوس دلیل ہےکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبذریعہ وحی وہ خبردی جس کےمتعلق اس وقت کوئی تصوربھی نہیں کرسکتاتھالیکن چودھویں صدی کےاختتام پروہ سچ ثابت ہوئی ہےیہ آپ کی صداقت کی کتنی بڑی دلیل ہےاس میں اسلام اورسائنس کی کون سی ٹکرہےاس کےبرعکس خودسائنس نےعملی طرح اس وحی کی بتائی ہوئی بات کی چودہ سوسال کےبعدتصدیق کی ہے۔علامہ اقبال ڑحمۃاللہ علیہ کاایک شعرہے
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےاوپرچڑھ جانےسےمجھےیہ سبق ملاہےکہ اوپرکےعالم یافضائےبسیط یاکائنات کی دوسری مشاہدہ میں آنےوالی چیزیں انسانی پہنچ پرہیں۔انسان ان تک پہنچ سکتاہے۔
بہرحال کائنات میں جوبھی چیزمشاہدہ میں آنےواکی ہےچاہےاوپرہویانیچے،وہاں انسانی رسائی ممکن ہے قرآن اس حقیقت کو مانتا ہے۔یہاں یہ الگ بات ہے۔كہ ان چیزوں میں سے عملا کن کن چیزوں پر انسان واقعی پہنچے گاکیونکہ یہ تومستقبل کی بات ہے جس کا علم رب البرکات کے علاوہ کسی کو بھی نہیں ہے۔لیکن اگر کہیں بھی پہنچاتویہ قرآن وحدیث کی بتائی ہوئی حقیقت کے متصادم نہیں ہوگا۔
بلکہ خود اس کا مئویداورصداقت کا قائل ہوگا۔شرعی آسمان کا الگ ہونا اورچاندوسورج کی گردش کے مداروں کا الگ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔بلکہ مجھ سے قبل ٩نویں صدی کےزبردست عالم حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب’’ فتح الباری شرح التصیح البخاری‘‘میں فرماتے ہیں:
’’والحق ان الشمس في الفلك الرابع والسموات للسبع عن اهل الشرع غيرالافلاك انتهي.‘‘ (فتح الباري:ج٦’ص٢٥٩)
’’یعنی حق بات یہ ہے کہ سورج چوتھے فلک میں ہے اورسات آسمان شریعت والوں کے ہاں افلاک کے علاوہ دوسرے ہیں۔‘‘
یعنی فلک دوسری چیز ہے اورآسمان شرعی دوسری چیز۔اورفلک کہا جاتا ہے اس کھلی فضا میں کسی سیارے یاستارے کی گردش کی حد یا دائرہ یامدارکوباقی آسمان شرعی دوسری چیز ہے۔جس کے متعلق سیر حاصل بحث دوسرے سوال کے جواب اوراس سوال کے جواب میں عرض رکھی کہ انسان کی پہنچ آسمان شرعی پرناممکن ہے نہ کہ ان افلاک یہ افلاک توانسان کی زد میں ہیں ان تک انسانی رسائی ممکن ہے۔
قرآن کریم نے بھی ان کی گردش یا پھر نے کو فلک میں فرمایاہے نہ کہ آسمان میں جس طرح سورۃ یس اورسورۃ الانبیاء کے اندر یہ الفاظ ہیں:
﴿كُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴾
’’یعنی وہ سارے کے سارے اپنے اپنے فلک یا دائرے میں گھوم رہے ہیں۔‘‘اورانسان کی پہنچ آسمان شرعی پر محال ہے کیوں کہ یہ غیب کے علم سے ہے اورپیچھے جو فتح الباری کی عبارت نقل کی اس میں بھی یہ صراحت ہے کہ آسمان شرعی اورفلک دوالگ چیزیں ہیں دونوں کو خلط ملط کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
باقی یہ سوال رہے گا کہ قرآن کریم میں ہے کہ عالم بالامیں ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ شیطان ملاالاعلی کی گفتگونہیں سنتے۔اوراگرکوئی شیطان اس گفتگوکو سننے کی کوشش بھی کرتا ہے تواس پر دھکتا ہوا انگارہ پھینکا جاتا ہے توپھر جب اوپر شیطان بھی نہیں پہنچ سکتا تو انسان کس طرح پہنچ سکتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی درحقیقت شرعی آسمان کو محسوس اورمشاہدہ میں آنے والے آسمان یا عالم بالاکو خلط ملط کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے،یعنی وہ شیاطین ملاالاعلی کی باتوں کو کان لگا کرسننے کی کوشش کرتے ہیں اورملاالاعلی کی آسمان میں ہیں نہ کہ اس کلی فضا میں چونکہ ابلیس فرشتوں کے ساتھ کافی عرصہ رہا تھا پھر اللہ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے اس کو وہاں سے نکالا گیا اس لیے اس کی اولادبھی ان فرشتوں تک پہنچنے اوربات سننے کی ناکام کوشش کرتی ہے اورچونکہ شیطان جنوں میں ہیں انسان کے مقابلے ان کو زیادہ اختیار حاصل ہے اوراللہ کی طرف سے اختیار چلانے کی قدرت حاصل ہے۔
مثلا وہ شکلیں بدل سکتے ہیں۔دورسے وسوسہ ڈال سکتے ہیں اورحدیث میں آتا ہےشیطان انسان کے خون کے اندرچلتا ہے اسی طرح کئی دوسری باتیں ہیں لہذا شیطان جوکہ اصل میں وہان کا رہائش پذیر تھا اس لیے وہاں تک پہنچنا اوروہاں کی گفتگو سننا اوراس کے اوراس کی اولاد کے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔البتہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا انتظام کیا ہےکہ جب بھی کوئی وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تووہاں سے اس پر دھکتا ہواانگارہ پھینکا جاتا ہے اوراتنی قدرت ان کو اس وجہ سے ملی ہوئی ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کےلیے دن رات کوشاں ہوتے ہیں اورانسان کے امتحان کے لیے یہ(اجازت)ان کو قیامت کے دن تک ملی ہوئی ہے اس لیے وہ ملاالاعلی تک پہنچ کر ایک آدھی بات سن کر پھر اس میں کئی جھوٹ ملاکراپنے دھوکے بازنجومیوں کے کان میں ڈالتے ہیں جو خلق خدا کو ہر وقت گمراہ کرتےرہتے ہیں۔بس اس حقیقت پر اگرغورکیاجائے تو سوال حل ہوجائے گا۔
باقی رہی یہ بات کہ چاند چلتا رہتا ہے پھر راکٹ وہاں پر کیسے پہنچا؟تویہ سوال شاید کچھ غورفکرکئےبغیررکھاگیا ہے۔چاند برابرچل رہا ہے لیکن اس کی چال چلن اللہ تعالی کی طرف سے مقررہےاس رفتارپرچلتا ہے اس طرح نہیں کہ کوئی چیز اگر اس کے پیچھے سے آتی ہے تووہ دوڑ لگاکرتیز بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پیچھے والااس تک نہ پہنچ سکے۔چاند کا معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ اس کی رفتاررب کریم عزوجل کی طرف سے مقررکی ہوئی ہے لہذا وہ اپنی رفتار میں ہی چلتا ہے چاہے اس کے پیچھے کوئی آئے یانہ آئے۔اس بات کو سمجھنے کے بعد اب دیکھیں کہ ایک جیپ حیدآبادسےتقریباصبح٨بجے نکلتی ہے جو آدھے گھنٹے میں خیبرپہنچتی ہے اورخیبرحیدرآبادسے٤میل دورہےاس کے بعد ساڑھے ٨بجے حیدرآبادسےایک تیز رفتارکارنکلتی ہے جس کی رفتاراس جیب سےدگنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا جس جگہ ٩بجے وہ جیپ پہنچے گی وہاں پر بعینہ اسی وقت ساڑھے٨بجے نکلی ہوئی کاربھی آکر پہنچے گی۔حالانکہ جیپ بھی چلتی رہی اورکاربھی اس کے پیچھے چلتی رہی لیکن چونکہ کارکی رفتارجیپ کی رفتارسےدگنی تھی۔یہ تو ہماراروزمرہ کا مشاہد ہ ہے اورواضح بات ہے معمولی سمجھ والابھی اس کو سمجھ سکتا ہےبس اس طرح چاند کی رفتاربھی معلوم ہےپھر اگر انسان کوئی ایسی سواری ایجاد کردے جس کی رفتارچاندسےزیادہ تیزہوتووہ چاندکو پہنچ سکتی ہے۔
تیز سےتیز سواریاں آج ہرروزمشاہدہ میں آرہی ہیں۔راکٹ کو توچھوڑواس کی رفتاربہت تیز ہے لیکن آج کل کے ہوائی جہازجوایک گھنٹہ کے اندرہی ہزارمیل سے بھی زیادہ کافاصلہ طے کرتے ہیں تواس سے اندازہ لگائیں کہ اللہ نے انسان کو کتنی قدرت عطافرمائی ہےاوریہ سب کچھ اس ارشادکاظہورہےجوابوناآدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت رب تعالی نےفرشتوں کو فرمایاتھا:
﴿إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة: ٣۰)
’’بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
پھر جب اللہ تعالی نے انسان کو اتنی قدرت عطافرمائی ہے تو اس میں تعجب اوحیرانگی کی کیا بات ہے کہ انسان ایسی تیز رفتارسواری ایجادکردے جوچاندتک پہنچ جائے۔
گزشتہ اوراق میں یہ آیت بھی گزرچکی ہےجس میں یہ حقیقت بیان ہے کہ عالم بالااورعالم ارضی کی ہرچیزجومشاہدہ میں آئے وہ انسان کے تابع بنائی گئی ہے یعنی چاند وغیرہ پرانسانی رسائی ممکن ہے(قرآن کریم کے مطابق)پھر خوامخواہ انکارکرکے جگ ہنسائی کا کیوںموقع دیا جائے۔بلکہ یہ تو خودقرآن اورحضوراکرمﷺ کی صداقت پربڑی دلیل ہے۔
باقی یہ بات کہ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے اوپر سے آسمان کا ٹکڑا عذاب کی خاطر گرادے تواس کو سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے،کیونکہ ہمارے اوپر بے شمار سیارےاورتارے وغیرہ ہیں جن میں کچھ ستارے زمین سے بھی بڑے ہوتے ہیں اورظاہر ہے کہ ایسی چیزیں زمین کے اوپر چھت کاکام دیتی ہیں پھر ان سے کوئی ٹکڑاآکرزمین پر گر ےتووہ بھی آسما ن سے ہی آیا یعنی عالم بالایااوپرکی دنیا سےاورایسے گرے ہوئے ٹکڑے دنیا کے مختلف ممالک میں مشاہدہ میں آئے ہیں۔
اوردنیا کی مختلف جگہوں پر ایسے ٹکڑے گرےتھے اورزورسےگرنے کی وجہ سے زمین میں کافی نیچے چلے گئے اوروزن کے اعتبارسےکئی ٹن تھے اس لیے اس بات میں کوئی استبعادنہیں ہےاوپر یہ بھی ذکر کیا کہ لغت میں بادلوں کو بھی سماء کہا جاتا ہے تواس میں کون سی قباحت کی بات ہے؟کہ ان بڑے بڑے سیاروں کو بھی سماء کہا جائے بلکہ یہ عین لغت کے مطابق ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب