سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) "لا اكراه فى الدين"کا مفہوم

  • 14788
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1162

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

‘‘لااكراه في ادين’’کے متعلق بحث کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ وحکمت اورموعظ حسنۃ کےساتھ پھیلاتھا،کسی نے بھی زبردستی نہیں کی تھی قرآن کریم نے جن بھی انبیاء کرام کے احوال بیان کئے ہیں ان میں غورکرنے کے بعد یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ان بزرگ ہستیوں نے تو خود دین کی تبلیغ کی خاطر دشمنوں کی تکالیف برداشت کیں مگر ان پر زبردستی نہیں کی اورپوری کوشش کے باوجودجب وہ کفر پر ڈٹے رہے تو یہ بزرگ ہستیاں صرف یہ کہہ کران سے الگ ہوگئیں کہ:

﴿وَمَا عَلَيْنَآ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ﴾

اس طرح قرآن كريم میں اصولی طورپرفرمایاگیا ہے کہ :

﴿لَآ إِكْرَ‌اهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّ‌شْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ‌ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْ‌وَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ (البقرة:۲۰٦)

‘‘دین میں زبردستی نہیں ہے ہدایت گمراہی سے الگ کی گئی ہے،پھر جو کوئی طاغوت کا انکارکرے اوراللہ پر ایمان لائے تواس نے ایک مضبوط سہاراتھام لیا جوکبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اوراللہ سننے والااورجاننے والا ہے۔’’

بہر حال اصل دین اسلام میں نہ زبرستی جائز ہے اورنہ ہی کرنی چاہئے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 64

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ