سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02)کسی آیت کو وظیفہ میں خاص کرلینا

  • 14787
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1974

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مختلف قرآنی آیات یا اسماء الہی کو مفید جا ن کر نماز یا کسی دوسرے وقت کاتعین کرکے پڑھنا جب کہ سنت سے اس طرح کرنا ثابت نہیں کیا یہ بدعت کے زمرہ میں آتا ہے؟مثلا ایک مشہورعمل یہ ہے کہ سورۃ الفاتحہ مابین سنت فجر٤١مرتبہ بیماری دورکرنے کےلیے پڑھنا اسی طرح یہ عمل دیگر ضروریات کو پوراکرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے کچھ لوگ اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ ‘‘بسم اللہ الرحمن الرحیم’’کے میم کو الحمد کے لام کے ساتھ ملاکرپڑھاجائے،اسی آیت

﴿وَأُفَوِّضُ أَمْرِ‌ىٓ إِلَى ٱللَّهِ۔۔۔۔۔۔﴾

كوہرنمازکے بعد مقررہ تعدادمیں پڑھناکہاجاتا ہےکہ ایسا کرنے سے مطلوبہ حاجت پوری ہوجاتی ہے۔یا پھر سورۃ التوبہ کی آخری دوآیات یا ایک آیت کو بعد نماز عشاء ١۰١مرتبہ پڑھنا کہا جاتا ہے کہ یہ عمل قید اوردشمنی سے بچنے کے لیے مفید ہے ۔کیا اس طرح کے  یہ اعمال شرعا ناجائز ہیں؟میری سمجھ کے مطابق اس طرح کے وظائف کو اختیارکرنے میں شرعا ممانعت نہیں اورنہ ہی یہ بدعت کےزمرہ میں آتے ہیں بشرطیکہ انہیں سنت یاماثورنہ سمجھا  جائے۔الغرض آپ دلائل کے ساتھ وضاحت کریں تاکہ اطمینان حاصل ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کا جواب یہی ہے کہ آیات قرآنیہ یا اسماء الہی کو کسی خاص تعداداورکسی مخصوص اوقات میں بطوروظیفہ یا دینی خواہ دنیوی خیروبھلائی کے حصول کےلیے پڑھا جاسکتا ہے۔(جیسا کہ خود محترم نے سوال کے آخر میں فرمایاہے)بشرطیکہ اسےسنت ماثورہ نہ سمجھا جائے اورمقررہ تعدادکو لازم وواجب تصورنہ کیا جائے۔

اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سفر میں تھے کسی قبیلہ کے سردارکوسانپ نے ڈس لیا پھر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر سورۃ الفاتحہ کا سات مرتبہ دم کیا اوروہ تندرست ہوگیا بالآخروہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اوریہ واقعہ آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا توآپﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ ’’ماادراك انها رقية۔‘‘ ’’یعنی آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ فاتحہ رقیہ(دم)ہے؟‘‘اس نے عرض کیا: ’’يارسول اللهﷺ ’’شئي القي في روعي‘‘ ’’یعنی ایک چیز تھی جو میرے دل میں ڈالی گئی۔‘‘

اس صحيح حديث سے معلوم ہوا کہ صحابی رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے نبی کریمﷺسےیہ علم حاصل نہ کیا تھا کہ سورۃ فاتحہ دم ہے اورڈسے ہوئے شخص پر سات مرتبہ پڑھنا بھی اس صحابی کے دل میں القاء کی ہوئی بات کے ماتحت اسی تعدادمیں یہ سورۃ مبارکہ پڑھی۔

پھر رسول اکرمﷺ نے ان کی ان دونوں باتوں کو بحال رکھا۔ لہذا یہ تقریری دلیل ہے  کہ کوئی شخص قرآن کریم کی کوئی سورت یا ایک یا دوآیات کسی خاص مقدارمیں کسی مرض کی شفایاکسی مشکل کے حل وغیرہ کے لیے پڑھے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں،اگریہ بات درست نہ ہوتی تو صحابی رضی اللہ عنہ کے جواب

’’شئي القي في روعي‘‘ پرضرورآپﷺ اسے زجر وتوبیخ فرماتے کہ یہ کیا ہے کہ جو بات دل میں آئے اس پر عمل کرتے پھرگے؟لیکن آپ ﷺکا سے بحال رکھنا اوراس فعل کو ثابت رکھنا اس پر واضح دلیل ہے کہ یہ بات شریعت کے ہرگز خلاف نہ تھی اورمسئلہ ہذا کی عمومی دلیل:

﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْ‌ءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَ‌حْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارً‌ۭا﴾ (الاسراء:٨٢)

’’اورہم قرآن وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااوررحمت ہےمگرظالموں کے لیے خسارے کے سواکچھ نہیں۔‘‘

بھی ہوسکتی ہے اورشفا سے روحانی وجسمانی ،مادی،معنوی شفاء مرادلی جاسکتی ہے۔تخصیص کی کوئی بھی وجہ نہیں،وجہ یہی ہے کہ جب صحابی رضی اللہ عنہ نے فاتحہ کو دم سمجھ کرپڑھا تواللہ سبحانہ وتعالی کے رسولﷺ نے اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا:

باقی رہا اسماء الالہیہ کا معاملہ توخود قرآن کریم میں ہے کہ:

﴿وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا﴾ (الاعراف: ۰ ١٨)

لہذا اسماء الالہیہ میں جس اسم میں بھی قاری کو مشکل حل ہونے کی توقع ہوتواسے کچھ تعداد مقررکرکے (محض اپنی سہولت کی خاطرنہ کراسے لازم سمجھتے ہوئے) پڑھے اورنمازکے بعدبھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے یا کسی اوروقت میں پڑھے توبھی اس میں کچھ حرج نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 62

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ