سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01)معانی قرآن

  • 14786
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2035

سوال

(01)معانی قرآن

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کے دومعانی ہوتے ہیں ایک ظاہری اوردوسراباطنی۔ظاہری معنی توہرصاحب علم سمجھ سکتا ہےلیکن باطنی کو کسی امام وپیشواکے بغیرنہیں سمجھاجاسکتااس لیے کسی‘‘امام’’کی تقلیدلازمی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن حکیم کے معنی کی ظاہری اورباطنی تقسیم کا مطلب اگریہ ہے کہ ایک معنی وہ ہے جو قرآن کے الفاظ مبارکہ سے لغت کے اعتبارسےسمجھ میں آتی ہےاوردوسری وہ ہے جو اشارۃ یا اقتضاء یا دلالۃ معلوم ہوتی ہے یعنی اس میں استنباط واستخراج کودخل ہے یا اس میں ان الفاظ کے حقائق شرعیہ (حقائق لغویہ)کا علم ہونا ضروری ہے تو یہ تقسیم درست ہے لیکن ان معانی کو جاننے کے لیے اہل علم کے لیے آخرتقلیدکیونکرضروری ہے؟اہل دنیا کی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ لڑتے ہیں اورہاتھ میں تلوار نہیں،استنباط واستخراج کے لیےاصول وقواعد مستنبط کیے گئے ہیں اصول روایت واصول درایت وضع ہوچکے ہیں ایک صاحب علم کے لیے ان قواعد واصول کو مدنظر رکھ کرمسائل ومعانی کے استخراج میں کوئی بھی مشکل درپیش نہیں آسکتی،دیکھیں فقہ کی کتب میں کتنے ہی مسائل کے اجزاء مرقوم ہیں اورمسائل کی تفریع درتفریع موجود ہےاورتمام مقلدین ان پر آمناوصدقناکہہ کربیٹھے ہیں اوران کی قوت استنباط واستخراج کے قائل ہیں۔

مثلاصاحب ہدایہ وغیرہ۔اب خداراانصاف کے ساتھ بتائیے کہ  کیا یہ بھی مقلد ہیں۔

اپنے آپ کو کہتے تومقلد ہیں مگراس قسم کی تفرح اورتخریج کا مقلد سے کیا تعلق؟مقلد کو تو علم ہی نہیں بلکہ اس کا توفرض ہے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایاہے باقی اس پراشارہ یا اقتضاء وغیرہاطریق سے تفرح یا استخراج قطعا اس کے دائرہ عمل سے خارج ہے۔اس طرح حقائق شرعیہ کا اورکتاب وسنت کاپورے انہماک کے ساتھ تتبع اورکتب حدیث کا دل کی چاہت کے ساتھ مطالعہ ہوسکتا ہے اس کے لیے کسی امام یا پیشواء کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں ہے باقی اگر تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ قرآنیہ کا کوئی ایسا مطلبوومعنی ہے جو قواعد وغیرہ کے ماتحت بالکل نہیں،یعنی اس کے حصول کے لیےکسب کی ضرورت نہیں توایسا مطلب ومعنی بالفاظ دیگر الہام ہوئے اورالہام وہی معتبر ہے جو شریعت کے موافق ہوباقی وہ الہام جو کتاب وسنت کے معارض ہے وہ قطعا قابل اعتبارنہیں،اس کے علاوہ ایسا الہام کوئی ان ائمہ کے ساتھ مخصوص نہیں جن کو عوام کالانعام نے زبردستی اورجبرآپناقائد ورہبربنارکھا ہے اوران کی غیر مشروط اطاعت اپنے اوپر لازم قراردے دی ہے۔مطلب کہ اگر ایسی کوئی وہبی یا الہامی معنی ومطلب کسی خدا پرست انسان نے پیش بھی کیا ہے تو اسے بھی ظاہری شریعت پر پیش کیاجائے گا پھر اس کے موافق ہونے کی صورت میں وہ معنی ومطلب اس آیت یا حدیث کے اسرارمیں سے کوئی سرہی ہے جو کہ محض ایک اللہ کی طرف سے مزید انعام واکرام ہے وہ بات کوئی واجبات شرعیہ یا ایسی باتوں میں سے نہیں جن کا علم حاصل کرنا ہمارے لیے ایمانا ضروری ہے جب ان کا علم ازروئے ایمان ہمارے اوپر لازم نہیں ہے توپھر اس کے لیے تقلید کی کیاضرورت ؟اس پر خوب غوروتعمق کے ساتھ توجہ دیں۔

اوراگر اس تقسیم کا مقصد یہ ہے جیسا کہ کچھ ملحد اورزندیق لوگ کہتے ہیں کہ قرآن شریف کی ظاہری اورباطنی معنی ومطلب ہے یعنی جو حکم کسی آیت سے ظاہر طورپر معلوم ہورہا ہوتودوسری معنی ومطلب اس کے بالکل برعکس ہے جو کچھ چیدہ چیدہ بزرگوں اورائمہ عظام کومعلوم ہوتا ہے ۔مثلا قرآنی حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ:

﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟ أَيْدِيَهُمَا﴾ (المائدة:٣٨)

’’چورمرداورعورت کاہاتھ کاٹ ڈالاجائے۔‘‘

اب کوئی بے دین اورملحد قسم کا آدمی یہ دعوی کرے کہ اس کا ظاہری مطلب تویہی ہےلیکن اس کا باطنی مطلب دوسرا ہے،پھروہ کوئی ایسا مطلب بیان کرے جو اس حکم ربانی کی صورت کو مسخ کردے توکیا وہ طلب قالب اعتبار ہوگا؟کیا کوئی صاحب عقل ودانش ہوش وحواس کے صحیح سالم ہونے کی صورت میں ایسے اقدام پر جرات کرسکتا ہے؟ہاں اگر اس معافی ومطالب کے لیے تقلید ضروری ہے تویہ تقلید آپ ہی کو مبارک ہو اورپھر ایسی معافی ومطالب اسرارورموزبیان کرنے والے جوائمہ ہوتے ہیں وہ ائمۃ الہدی نہیں بلکہ قرآن کی اس آیت کے بمصداق:

﴿وَجَعَلْنَـٰهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ﴾‌ (القصص٤١)

’’وہ خود بھی گمراہ اوردوسروں کو بھی گمراہی کے عمیق گڑھے میں پھینکنے والے ہوں گے۔‘‘

بہرحال اللہ تبارک وتعالی ایسی تقلید اورایسے مقلدین (بکسراللام)اورمقلدین(بفتح اللام)سے ہر مسلمان کو محفوظ ومامون رکھے۔اللهم آمين!

بالفرض:۔۔۔۔۔۔اگرباطنی سے مراداستنباطی معنی اوراستخراجی مسائل اورحکم واسرارہیں توان تک پہنچنے کے لیے علماء حقہ نے اصول وضوابط کردیئے ہیں جن کو عمل میں لاکر کتاب وسنت سے استنباط واستخراج کی لیاقت پیدا کی جاسکتی ہے لہذا ان کے لیے تقلید کو ضروری سمجھنا نادانی ہے۔باقی اگر اس سے مرادملحدین والامطلب ہے تو اس کا حکم آپ خود معلوم کرسکتے ہیں۔اس لیے اس سے تقلید شخصی کے لیے دلیل نہیں پیش کی جاسکتی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 60

محدث فتویٰ

تبصرے