روزانہ کنگھی کرنا منع ہے ، ناپسندیدہ ہے یا روزانہ کر سکتے ہیں؟ دلیل مع حوالہ لکھیں کچھ ساتھیوں کو حوالے دکھانے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو سنوار کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( من كان شعره فليكرمه.))''جس کے بال ہوں وہ ان کی عزت کرے۔'' (ابو داؤد ، کتاب الترجل)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ایک پراگندہ سر آدمی دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے تو فرمایا:
''کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی تھی جس سے اپنے ساکن کر لے (یعنی بکھرنے سے روک لے )۔''
ایک اور آدمی دیکھا جس نے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے تو فرمایا:
(( أما كان هذا يجد ماء يغسل به ثوبه.))''کیا اسے پانی نہیں ملتا تھا کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لیتا۔'' (ابوداؤد کتاب اللباس باب فی غسل الثوب)
حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور ذہبی نے بھی ان کی موافقت فرمائی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے صاف ستھرے رکھنے چاہیے اور بال بھی سنوار کر رکھنے چاہیے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ آدمی زیب و زینت اور بنائو سنگھار میں لگا رہے اور ہر وقت بالوں کی آرائش میں ہی الجھا رہے بلکہ آپ نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن شفیق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ مصر کے عمال (امیر ) تھے ان کے پاس ان کا ایک ساتھی آیا تو ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے کہ میں آپ کے بال بکھرے ہوئے دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ امیر ہیں تو انہوں نے جواب دیا : " كان النبى صلى الله عليه وسلم ينهانا عن الإرفاة"'اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ارفاہ اور آرام طلبی (نزاکت) سے منع فرماتے تھے۔'' ہم نے پوچھا ارفاہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
''روزانہ کنگھی کرنا۔'' (نسائی باب الترجل)
شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلہ صحیحہ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مصر کے یہ امیر فضالہ بن عبید تھے ۔ چنانچہ ابو داؤد میں ہے کہ عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے فضالہ بن عبید کی طرف سفر کیا جب کہ وہ مصر میں تھے۔ان کے پاس پہنچے تو کہا کہ میں تمہاری زیارت (ملاقات) کے لئے نہیں آیا بلکہ میں نے اور آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے آپ کے پاس اس کا علم ہو گا انہوں نے پوچھا کونسی حدیث ؟ تو انہوں نے حدیث بتائی۔ اس صحابی نے فضالہ سے پوچھا کیا بات ہے کہ آپ کے بکھرے ہوئے بالوں والا دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس علاقے کے امیر ہیں تو انہوں نے فرمایا:
''رسول اللہ ہمیں ارفاہ (آرام طلبی اور نزاکت) سے منع فرمایا کرتے تھے۔''
پوچھا کیا بات ہے آپ کو جوتا پہنے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ:
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ کبھی کبھی ہم ننگے پائوں چلا کریں۔''(ابو داؤد اوّل کتاب الرجل)
شیخ البانی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند بھی بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا مگر ناغے سے۔'' (نسائی باب الرجل غبا)
اس کے علاوہ یہ حدیث ابوداؤد ترمذی ، احمد ابنِ حبان اور بہت سے محدثین نے ذکر فرمائی ہے ۔ ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی نے فرمایا کہ اس کے راوی بخاری مسلم کے راوی ہیں مگر حسن بصری مدلس ہیں اور انہوں نے تمام سندوں میں ''عَنْ''کے لفظ سے روایت کی ہے لیکن اس کے شاہد موجود ہیں جو اسے قوی کرتے ہیں ۔ فضالہ بن عبید کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بالوں کو روزانہ کنگھی نہیں کرنی چاہیے لیکن نسائی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بال بہت زیادہ بکھرے ہوں تو روزانہ کنگھی کی اجازت ہے:
''ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ان کے سر پر بھاری بال تھے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ بالوں سے اچھا سلوک کریں اور ہر روز کنگھی کریں ۔'' (سنن نسائی باب الرجل)
اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض حضرات نے یہ تطبیق دی ہے کہ اگر بھاری بال ہوں تو روزانہ کی اجازت ہے ورنہ روزانہ کنگھی کرنا ناجائز ہے۔ لیکن شیخ ناصر الدین البانی نے سلسلة الاحادیث الصحیحہ کی حدیث۲۲۵۲ کے تحت فرمایا ہے کہ ابو قتادہ کی طرف منسوب یہ روایت جس میں انہیں روزانہ کنگھی کرنے کا حکم دیا ہے صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ان احادیث کے خلاف ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ کنگھی سے منع فرمایا ہے۔ اس کی سند میں کئی خرابیاں ہیں نسائی کی سند اس طرح ہے:
شیخ ناصر الدین حفظہ اللہ نے جو خرابیاں بیان کی ہیں ان میں سے موٹی چند خرابیاں بیان کی جاتی ہیں پوری تفصیل سلسلہ صحیحہ کی پانچویں جلد میں دیکھیں۔
۱) محمد بن المنکدر اور ابو قتادہ کے درمیان سند کٹی ہوئی ہے کیونکہ محمد بن المنکدر نے ابوقتادہ سے سنا نہیں ہے جیسا کہ حافظ ابنِ جریر نے التہذیب میں تحقیق بیان فرمائی ہے۔
۲) عمر بن علی بن مقدم کی تدلیس ہے۔ یہ ابنِ مقدم عجیب تدلیس کرتے تھے جو علماء کے نزدیک تدلیس سکوت کے نام سے معروف ہے ۔ تہذیب میں ان کے حالات کا مطالعہ فرمائیے۔
۳) محمد بن منکدر سے عمر بن علی بن مقدم کے علاوہ سفیان (ثوری) نے بھی یہ حدیث بیان کی ہے مگر اس میں" و كان يدهنه و يدعه يوما ''ابو قتادہ ایک دن بالوں کو تیل لگاتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔'' یہ روایت بیہقی میں ہے۔
سفیان ثوری کی روایت صحیح احادیث کے مطابق ہے کہ روزانہ کنگھی نہیں کرنی چاہیے اور اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عمر بن علی بن مقدم کی روایت منکر ہے اور ابو قتادہ جیسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق گمان بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ صحیح احادیث کے مطابق ناغے سے ہی کنگھی کرتے ہوں گے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ صحیح مسئلہ کے مطابق روزانہ کنگھی کرنی چاہیے۔ روزانہ کنگھی کرنے کے جواز کی کوئی حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔