سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(162) کھانا کھاتے وقت بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم؟

  • 14762
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3221

سوال

(162) کھانا کھاتے وقت بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کھانا وغیرہ کھاتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھی جائے یا صرف بسم اللہ کہا جائے؟ صحیح احادیث کی رو سے وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کی رو سے کھانا کھاتے وقت یا وضو وغیرہ کرتے وقت صرف بسم اللہ ہی پڑھنا ثابت ہے۔ مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا آپ کے قول و عمل سے ثابت نہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق صرف دو مقامات پر بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھنا ثابت ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:

((عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ادْنُ بُنَيَّ فَسَمِّ اللَّهَ وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ.))

''عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا، اے لڑکے اللہ کا نام لو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھائو۔''(بخاری۴۹۲/۳، مسلم۱۰۹، مسند احمد (۱۵۸۹۶)۶۰۶ طبع قدیم ص۲۶/۴)

            اس حدیث سے نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمر بن ابی سلمہ کو جو فرمایا (بسم اللہ ) ''اللہ کا نام لو۔''

اس اجمال کی تفصیل طبرانی کبیر ١٤٩ اور کتاب الدعا للطبرانی (۸۸۶) کی روایت سے معلوم ہو جاتی ہے۔ طبرانی میں ہے( (يا غلام إذا أكلت  فقل بسم الله.)) ''اے لڑکے جب تو کھانے لگے تو ''بسم اللہ '' کہہ۔ بقول علامہ البانی حفظہ اللہ ارواء الغلیل ٣١٧ اسنادہ صحیح علی شرط الشیخیں'' اس حدیث کی سند شیخیں کی شرط پر صحیح ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:

" ففيه ما أطلق فى الروايات  الأخرى  بأن  التسمية على الطعام إنما السنة فيها أن يقول  بإختصار " بسم الله " و مما يشهد  لذلك  الحديث المتقدم  (1965) فأحفظ هنا فإنه  مهم  عند من يقدرون  السنة  ولا يجيرون الزيادة  عليها"

            ''جو بات مطلق بیان ہوئی تھی ، دیگر روایات میں اس کی وضاحت موجود ہے (اور اس میں یہ بھی ہے کہ )کھاتے وقت ''بسم اللہ '' مختصر پڑھنا ہی مسنون ہے۔ اس کی تائید حدیث نمبر ۱۹۶۵سے بھی ہوتی ہے اس بات کو اچھی طرح یاد کر لو کیونکہ یہ ان افراد کے نزدیک بڑی اہمیت ک حامل ہے جو سنت کی تعظیم کرتے ہین اور اس پر کسی قسم کا اضافہ و زیادتی نہیں سمجھتے۔''

            وہ حدیث جس کی طرف علامہ البانی حفظہ نے اشارہ کیا ہے درج ذیل ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( إذا أكل أحدكم فليذكر اسم الله نسى أن يذكر اسم الله فى أوله  فليقل بسم الله  أوله و أخره.))

            ''جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو اسے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے اگر کھانے کی ابتداء میں اللہ کا ذکر کرنا بھول جائے تو ''بسم اللّٰہ اوّلہ واٰخرہ''بھی وارد ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت صرف بسم اللہ پڑھا جائے کیونکہ اس کے ساتھ الرحمن الرحیم کا اضافہ مسنون ہوتا تو اللہ کے نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  اس مقام اس مقام پر ضرور سکھاتے کیونکہ یہ مقام تعلیم تھا اور اصولیین  نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے۔

" تأخير  البيان عند وقت الحاجة  لا يجوز "

            ''ضرورت کے وقت بیان (تفصیل ) سے تاخیر جائز نہیں۔''

            سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا (تو ضّووابسم اللہ) ''بسم اللہ کہتے ہوئے وضو کرو۔''  (ابنِ خزیمہ۴۷/۱ نسائی) لہٰذا کھانا کھاتے وقت اور وجوء کرتے وقت ہمیں صرف بسم اللہ پڑھنا چاہئے۔ یہی مسنون ہے۔ اس میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے:

(( عن سمرة  عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إذا حدثتكم  حديثا فلا تزيدن عليه الحديث.))

            ''آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب میں تم سے کوئی حدیث بیان کروں تو اس پر ہر گز اضافہ نہ کرنا۔'' (مسند احمد (۱۹۲۱۸)۲۳۸/۵، قدیم ص۱۱/۵)

            وہ دو مقامات جہاں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکمل پڑھنی چاہیے یہ ہیں:

            ۱)         قر آن مجید کی تلاوت کے وقت، جب تلاوت کی ابتداء کسی سورت سے کی جائے تو تعوذ کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھی جائے۔

            ۲)        اسی طرح جب خطوط و رسائل لکھے جائیں تو مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں سورة نمل آیت ٣٠ میں سلیمان علیہ السلام کا ملکہ بلقیس کے نام خط میں مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم درج ہے۔ اسی طرح آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر قل کے نام جو خط لکھا اس میں بھی مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الوحی اور کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد)

            اس مسئلہ کی مکمل تفصیل ہمارے بھائی حافظ عبدالرؤف عبدالحنان نے اپنی کتاب ''مسنون تسمیہ '' میں بڑے احسن انداز سے ذکر کی ہے۔ مزید تفصیل کا طالب اس کتاب کا مطالعہ کرے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے