سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) اہل کتاب کے ساتھ کھانا پینا

  • 14761
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6805

سوال

(161) اہل کتاب کے ساتھ کھانا پینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسلمان عیسائی سے کوئی چیز لے کر یا عیسائی کے ساتھ بیٹھ کر کوئی چیز کھا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل کتاب ، عیسائیوں اور یہودیوں سے کوئی چیز لے کر کھانا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ... ٥﴾...المائدة

            ''اہل کتاب کا کھانا (ذبیحہ ) تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے۔''(المائدہ :۵)

            اسی آیت میں مزید فرمایا کہ اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں سے نکاح تمہارے لئے حلال ہے۔ تو ظاہر ہے بیوی کھانا بھی پکائے گی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا بھی جائے گا۔ البتہ سنن دائود (حدیث۳۸۳۹) میں صحیح سند کے ساتھ ابو ثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ ''میں نے عرض کی:  ہم اہل کتاب کی ہمسائیگی میں رہتے ہیں اور وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر پکاتے اوراپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اگر تمہیں ان کے علاوہ برتن مل جائیں تو انہی میں کھاؤ اور اگر ان کے علاوہ نہ ملیں تو ان کو پانی سے دھو لو اور ان میں کھائو۔''(ارواء الغلیل ص۷۵، ج۱)

            صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مشرکہ عورت کا مشکیزہ لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا کہ خود بھی پیو اور جانوروں کو بھی پلائو۔''  (صفحہ۴۹، ج۱)

            اس حدیث پر حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں : اس حدیث سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین کے برتنوں میں اگر نجاست نہ ہو اور اس میں یقین ہو تو ان کا استعمال جائز ہے ۔ خلاصہ یہ کہ کسی بھی غیر مسلم سے کھانے ک چیز لے کر کھانا (جس میں نجاست نہ ہونے کا یقین ہو) جائز ہے ۔ البتہ ذبیحہ صرف اہل کتاب کا جائز ہے۔ مشرکین کا ذبیحہ جائز نہیں۔ کفار سے لی ہوئی عام اشیاء اگر ان کے پاک ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ کھانا جائز نہیں۔ وہ برتن ضرورت کے بغیر دھونے کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے