سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) گھوڑا اور جنگلی گدھا

  • 14752
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4360

سوال

(146) گھوڑا اور جنگلی گدھا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برائلر مرغی والے جو اب کے ضمن میں گھوڑے اور جنگلی گدھے کی حلت کے بارے میں اشارہ تھا جس پر بہت زیادہ بھائیوں نے سوالات بھیجے ہیں اور کچھ لوگوں کے طعنوں کا تذکرہ بھی کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی مفصل وضاحت کریں؟  


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تفصیل کے ساتھ وہی جواب حاضر ہے۔ گھوڑا حلال ہے اس کی دلیل حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ:

(( أن الله رسول الله صلى الله عليه وسلم  نهى  يوم خيبر  عن لحوم  الحمر و أذن  فى لحوم  الخيل.))

            ''کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیبر کے دن گدھوں کے گوشت کے بارے میں منع کیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔''  (متفق علیہ)

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

(( أكلنا  لحم  فرس  على عهد  النبى  صلى الله عليه وسلم .))

            ''کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں ہم نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔''  (متفق علیہ)

            مصنف ابنِ ابی شیبہ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے ابنِ جریج نے گھوڑے کے گوشت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:

(( لم يزل سلفك  يأكلونه  ؟  قلت : أصحاب  رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال نعم .))

            ''کیا آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے سلف ہمیشہ اس کو کھاتے رہے ہیں؟  میں نے کہا رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم؟ تو انہوں نے کہا ہاں۔''   (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج۸، ص۲۵۰)

            امام صلاح الدین خلیل بن کیکلدی العلائی نے اپنی کتاب توفیة الکیل لمن حرم لھوم الخیل میں لکھا ہے کہ جمہور سلف و خلف ائمہ محدثین سوید بن غفلہ ، علقمہ بن اسود اصحاب عبداللہ بن مسعود ، ابراہیم نخعی، شریح، سعید بن جبیر، حسن بصری ، ابنِ شہاب زہری ، حماد بن ابی سلیمان ، امام شافعی ، احمد بن حنبل ، قاضی ابو یوسف، محمد بن حسن الشیبانی ، اسحاق بن راہویہ ، دائود ظاہری، عبداللہ بن مبارک اور جمہور اہل حدیث کے نزدیک گھوڑا حلال ہے۔ اس کی حلت میں کوئی شک و شبہ نہیں صرف امام ابو حنیفہ اور بعض مالکیوں نے اسے حرام یا مکروہ کہا تھا۔

            ہمارے ملک میں چونکہ ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور ان کے ہاں گھوڑا حرام سمجھا جاتا ہے ۔ اس لئے جب اس کی حلت کی بات کی جاتی ہے تو اسے بڑا عجیب سمجھا جاتا ہے اور لوگ مختلف انداز سے اس کے متعلق سوال کرتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں کئی حرام اشیاء مثلاًسود، شراب ، جوا غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی اشیاء وغیرہ لوگ سر عام استعمال کرتے ہیں اور ان پر کبھی اتنے سوال نہیں اٹھائے جاتے صرف اس لئے کہ یہ چیزیں لوگوں کی ہڈیوں میں رچ چکی ہیں اور جونہی کسی ایسی چیز کی حلت کے متعلق سوال ہو جو ان کے ہاں غیر معروف ہو تو بلا سوچے سمجھے اس پر حرمت کا فتویٰ جڑ کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں سے ابو یوسف اور امام محمد ا س کی حلت کے قائل ہین۔ کتاب منیہ المصلی اردو میں جو ٹھے پانیوں کے بیان میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی گھوڑے کے جھوتے پانی میں چار روایات ہیں۔ ایک میں نجس ایک میں مشکوک اور ایک میں مکروہ اور ایک میں پاک ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک پاک ہے اس واسطے کہ اس کا گوشت حلال ہے۔ کنز الدقائق فارسی مترجم ملا نصیر الدین کرمانی میں ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے:

(( نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم  عن لحوم  الحمر و الخيل و البغال .))

            ''کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے گدھے ، گھوڑے اور خچر کے گوشت سے منع کیا۔''

            لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اس میں عکرمہ بن عمار یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتا ہے جب یہ عکرمہ یحییٰ سے بیان کرے تو حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں:  کہ اس کی حدیثیں یحییٰ بن ابی کثیر سے ضعیف ہیں۔ اما م بخاری کہتے ہیں کہ سوائے یحییٰ کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح گھوڑے کے گوشت کی حرمت میں خالد بن ولید کی بھی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے وہ حدیث بھی شاذ اور منکر ہے۔ پھر اس حدیث میںیہ ہے کہ خالد خیبر میں شریک ہوئے حالانکہ وہ خیبر کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔

            جنگلی گدھے کے بارے میں بھی صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے۔ ابو قتادہ کہتے ہیں ہم نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر میں تھے۔ کچھ ہم میں احرام پہنے ہوئے اور کچھ بغیر احرا م کے تھے۔ ۔۔میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس لے آیا۔

(( فقال  بعضهم  كلوا و قال  بعضهم  لا ت؟لا تأكلوا فأتيت النبى صلى الله عليه وسلم  وهو امامنا فسألته فقال كلوا حلالا.))

            ''بعض نے کہا کھا لو بعض نے کہا نہ کھائو میں نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا جو ہمارے آگے تھے اور پوچھا تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اس کو کھالو۔ یہ حلال ہے۔'' (بخاری مع الفتح۴/۳۵ )

حافظ ابنِ حجر نے امام طحاوی حنفی کا قول نقل کیا ہے ، فرماتے ہیں:

" قال الطحاوى  و قد  أجمع  العلماء  على حل  الحمار  الوحشى."

            ''کہ علماء کا جنگلی گدھے کے حلال ہونے پر اجماع ہے۔''  (فتح الباری۶۵۶/۱)

            یہ بھی یاد رہے کہ جنگلی گدھا ایک اور جانور ہے نام میں اشتراک کی وجہ سے اسے گھریلو گدھا نہ سمجھا جائے۔ بقول ابی یوسف اور محمد و شافعی ''بخوردن گوشت اسپ با کے نیست''۔ ابو یوسف اور امام شافعی کے نزدیک گھوڑے کے گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

            مولوی ثنا ء اللہ امرتسری پانی پتی حنفی نے اپنی کتاب مالا بدّمنہ کے صفحہ ۱۱۰پر لکھا ہے ''اسپ حلال است'' گھوڑا حلال ہے۔ مولوی اشرف علی تھانوی بھی دبی زبان میں گھوڑے کی حلت کا اقرار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ''گھوڑی کا کھانا جائز ہے لیکن بہترین ''(بہشتی زیور حصہ سوم ، ص۵۶) بلکہ خود امام ابو حنیفہ نے اپنے پہلے فتویٰ سے رجوع کر لیا تھا اور گھوڑے کی حلت کے قائل ہو گئے تھے۔ علامہ آلوسی حنفی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے کہ:

" إنه رجع  عن حرمته قبل موته بثلاثة أيام  و عليه الفتوى "

            ''کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی وفات سے تین دن قبل گھوڑے کی حرمت سے رجوع کر لیا تھا اور اسی قول پر فتویٰ ہے۔''

جامع الرموز، کتاب الذبائع ، ج۳، ص۳۵۰ میں ہے:

" إنه رجع عن حرمته  قبل  موته  بثلاثة  أيام  عن حرمته  لحمه  و عليه  الفتوى ."

            بات ختم کرنے سے پہلے چند شبہات کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ قرآن مجیدکی آیت﴿  وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ... ٨﴾...النحل  کہ گھوڑے خچر اور گدھوں کو سواری کے لئے زینت بنایا ہے، سے گھوڑے کی حرمت پر استدلال کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ یہ بالا تفاق مکی ہے اور گھوڑے کی حلت کا حکم مدنی ہے۔ ہجرت سے تقریباً۶ سال بعد کا اگر نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   اس آیت سے گھوڑے کی حرمت سمجھتے تو اس کی اجازت کبھی نہ دیتے۔ پھر یہ آیت گھوڑے کی حرمت میں نص بھی نہیں اور حدیث میں اس کی حلت کی صراحت موجود ہے۔

نوٹ:  امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا اپنے سابقہ مؤقف سے رجوع رَد المختار۹/۴۴۲، طبع بیروت، کتاب الذبائح میں بھی موجود ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے