سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(142) دَم کا شرعی حکم

  • 14748
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2501

سوال

(142) دَم کا شرعی حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا دَم کرنا جائز ہے اور جو آدمی سر کو پکڑ کر دَم کرتے ہیں یا جس جگہ درد ہو وہاں پر ہاتھ رکھ کر دَم کرنا درست ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے واضح کریں۔   


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دَم کرنا درست ہے اور کئی احادیث سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ بخاری و مسلم کی متفق حدیث ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کے کچھ اصحاب سفر میں تھے کہ انہوں نے عرب کے قبائل میں سے کسی ایک قبیلے کے علاج کے لئے کافی تک و دو کی لیکن وہ شفا یاب نہ ہوا تو ان میں سے کسی نے کہا لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے سردار کو کسی موذی چیز نے ڈسا ہے اور ہم نے بڑی بھاگ دوڑ کی ہے لیکن اس کو افاقہ نہیں ہوا۔ کیا تم میں سے کوئی دَ م کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی گیا اور اُس نے کچھ بکریوں کے عوض سورة فاتحہ پڑھ کر دَم کیا وہ آدمی تندرست ہو گیا۔ وہ بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا ۔ انہوں نے اس کو برا سمجھا اور کہا تو نے اللہ کی کتاب پر مزدوری لی ہے تو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس پر مزدوری لینے کے تم سب سے زیادہ حق دار ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔ جس جگہ پر درد ہو وہاں پر ہاتھ رکھ کر دَم کرنا بھی درست ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں آتا ہے عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس شکایت کی کہ جب سے مسلمان ہوا ہوں اپنے جسم میں درد پاتا ہوں تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( ضع  يدك  على الذى تألم  من جسدك  و قل : بسم الله  ثلاثا  و قل سبع مرات  : أعوذ  بعزة الله  وقدرته من شرما أجد  و أحاذر .))

            ''اپنا ہاتھ درد والی جگہ پر رکھ ا اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھی اور ساتھ مرتبہ (اعوذبعزّة اللّٰہ و قدرتہ من شرّمااجدوااحاذر) کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں اللہ کی عزت اور قدرت کے ساتھ ہر چیز کی برائی سے جسے میں پاتا ہوں اور ڈرتا ہوں۔''

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس جگہ درد ہو وہاں پر ہاتھ رکھ کر دم کرنا درست ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے