سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) علاتی بھائی کا وراثت سے حصہ

  • 14745
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2456

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حافظ نور محمد گزشتہ دنوں وفات پا گئے۔ باپ نہ ماں، بیوی نہ بچے ، دو بھائی تھے جو عرصہ ہوا ان کی زندگی میں ہی وفات پا گئے۔ سلیمان اور عبدالرحمن دونوں علاتی بھائی تھے۔ عبدالرحمن کی ایک بچی تھی وفات پا گئی تھی اور وہ دو بچیاں چھوڑ گئی جو زندہ ہیں۔ سلیمان مرحوم کے تین بچے تھے۔ ایک لڑکی صفیہ موجود ایک لڑکا محمد افضل موجود ایک لڑکا فوت ہو گیا عزیز نامی اور اولاد چھوڑ گیا دو لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ بڑا پیچیدہ وراثت کا مسئلہ ہے حل فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وراثت کی شروط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت کی وراثت اس کے مرنے کے بعد صرف اس کے ان ورثاء میں تقسیم ہو گی جو اس کی موت کے وقت زندہ تھے اور جو اس کی زندگی میں ہی وفات پا گئے وراثت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ مسئلہ مسئولہ میں نور محمد کی موت کے وقت اس کے عزیزوں میں سے صرف ایک بھتیجا محمد افضل اور ایک بھتیجی صفیہ بیگم اور ایک دوسرے بھتیجے عبدالرحمن کی دوھتیاں اور تیسرے بھتیجے عزیز کا ایک بیٹا اور دوبیٹیاں زندہ ہیں۔ ان سب ورثاء میں سے ایک بھتیجا محمد افضل اور تیسرے بھتیجے کا لڑکا عصبہ ہیں۔ ان کے علاوہ بھتیجی صفیہ ، عبدالرحمن کی دو دوھتیاں اور عزیز کی دو بیٹیاں ذوی الارحام سے ہیں (ذوی الارحام ان قریبی عزیزوں کو کہتے ہیں جو نہ اصحاب الفروض سے اور نہ عصبات میں سے ہوں) اصحاب الفروض اور عصبات کی موجودگی میں یہ میراث سے محروم ہوتے ہیں۔  (التحقیقات المرضیہ فی المباحث الفرضیہ ص۲۶۰)

            مذکورہ صورت میں ذوی الارحام کے علاوہ صرف عصبہ کے دو افراد موجود ہیں جو کہ درجہ میں مختلف ہیں۔    ۱)  بھتیجا اور(۲)بھتیجے کا لڑکا ہے۔ تو وراثت صرف اسے ملے گی جو درجہ میں میت کے زیادہ قریب ہو کیونکہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے کہ

(( ألحقوا الفرائض  بأهلها  غما بقى  فهو  لأولى رجل  ذكر))

            ''میراث کے مقررہ حصے انہیں دو، جن کے وہ حصے ہیں جو باقی رہ جاتے ہیں وہ سب سے قریبی مرد کے لئے ہے۔''  (صحیح بخاری مع ۱ الفتح ، ص۱۲، ج۱۲)

            لہٰذا وراثت کا مستحق صرف محمد افضل ہو گا باقی سب محروم رہیں گے۔ ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ بہن اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ مع الغیر بن جاتی ہے اور بھائی کے حصہ میں سے نصف کی مستحق ٹھہرے گی اور صورت مسئولہ میں صفیہ محمد افضل کی بہن ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بھائی اپنی بہن کو عصبہ بنا دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف وہ بھائی جو میت کا عینی یا علاتی بھائی ہے اور صورتِ مذکورہ میں صفیہ اور محمد افضل میت کے بھتیجا اور بھتیجی ہیں۔ جیسا کہ اس قاعدہ کی تصریح ابو عبداللہ محمد بن علی الرحبی نے کی ہے فرماتے ہیں:

" و ليس ابن الأخ  بمعصب من مثله  أو فوقه بالنسب"

            ''کہ بھائی کا بیٹا اپنی ہم درجہ اور اوپر والی مؤنث کو عصبہ نہیں بناتا۔''(شرح الرحبیہ :۹۳)

            حافظ ابنِ حجر اور شوکانی نے فھو لا ولیٰ رجلٍ کی تفسیر میں ابن التین کا قول نقل کیا ہے کہ اولی رجلٍ سے مراد کون ہے؟ فرماتے ہیں:

(( إنما المراد به العمة  مع العم  وبنت  الأخ  مع ابن الأخ  و بنت العم  مع ابن العم  وخرج  من ذلك الأخ  و الأخت  لأبوين  او لأب  فإنهم  برثون  بنص قوله  تعالى  ( و إن كانوا  إخوة  رجالا و نساء  فللذكر مثل حظ الأنثيين )

            ''کہ چچا اور بھتیجا کا بیٹا یہ سب اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتا بلکہ ان کی بہنیں ذوی الارحام میں داخل ہیں لہٰذا وارث نہیں بنیں گی۔''(فتح الباری۱۲/۱۳، نیل الاوطا۵۸/۶)  

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ