سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) شیو کی کمائی کا حکم

  • 14739
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2460

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا شیو کی کمائی حلال ہے؟ یعنی ڈاڑھی مونڈ کر جو شخص رقم وصول کرتا ہے، اس کی کمائی کا شرعاً کیا حکم ہے؟   (ابو اسد اللہ ، سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بہترین سانچے میں کی ہے اور مرد و عورت میں جو امتیازات رکھے ہین ، ان میں سے ایک امتیاز اور فرق ڈاڑھی ہے۔ ڈاڑھی مرد کی زینت ہے اور یہ ایسی زینت ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء و رُسل علیھم السلام کو مزین فرمایا ہے۔ اگر یہ بد صورتی اور قبح کا باعث ہوتی تو یہ کسی نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ عطا نہ کرتا۔ ڈاڑھی فطرتِ اسلام میں داخل ہے جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے :

((قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ))

            ''رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  دس خصلتیں فطرت سے ہیں ۔ ان میں سے مونچھیں تراشنا اور ڈاڑھی بڑھانا ہے۔''   (صحیح مسلم۱/۲۲۳، کتاب الایمان)

            اعفاء اللحیہ کا معنی ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دے اس میں کانٹ چھانٹ نہ کرے۔

            امام نووی شرح مسلم ۱/۱۲۹ پر پ" أعفوا , أوفوا, أرخوا, أرجوا, اور  وفروا"انچ طرح کے الفاظ نقل کر کے فرماتے ہیں ، ان سب کا معنی ''ترکھا علیٰ حالھا'' یعنی ڈاڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دینا ہے۔ قاضی امام شوکانی ایک مقام پر رقمطراز ہیں:

((أن هذه الأشياء إذا فعلت  اتصف فاعلها  بالفطرة  اللتى فطرة  الله  العباد عليها و حثهم عليها و استحبها  لهم ليكونوا  على أكمل الصفات  و أشرفها صورة.))

            ''ان اشیاء پر جب عمل کیا گیا تو ان کا عامل اس فطرت سے موصوف ہوا جس پر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پیدا کیا اور ان کو اس پر رغبت دلائی اور ان کے لئے پسند فرمایا تا کہ وہ صورت کے لحاظ سے کامل ترین اور اعلیٰ صفات کے مالک بن جائیں۔''   (نیلالاوطار ۱/۱۳۰)

اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:

(( هى السنة  القديمة  التى إهتارها الأبياء  واتفقت  عليها  الشرائع  فكأنما أمر جبلتى ينطوون  عليها.))

            ''یہ سنت قدیمہ ہے جس کو تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیا اور تمام شریعتیں اس پر متفق ہیں کیونکہ یہ پیدائشی اور طبعی چیز ہے جس پر سب اکھٹے ہیں۔''(نیل الاوطار۱/۱۳۰)

            صحیح مسلم کی اس حدیث سے واضح ہوا کہ ڈاڑھی بڑھانا فطری اور جبلی امر ہے۔ اس کو منڈوانا یا کتروانا فطرت کو بدلنا ہے اور شیطانی عمل ہے کیونکہ جب شیطان کو باری تعالیٰ نے دھتکار ا اور ملعون قرار دیا تواُس نے انسان کو گمراہ کرنے کے جو راستے اور طرق ذکر کئے ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اُس نے کہا:

﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ... ١١٩﴾...النساء

            ''اور میں انہیں بالضرور حکم دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی (صورت) کو بدل ڈالیں گے۔''(النساء :۱۱۹)

            علاوہ ازیں مرد کا ڈاڑھی کو مونڈنا، یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کر تے ہیں۔ اور جس فعل پر شریعت میں لعنت ہوئی ہے، وہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، اسی لئے علامہ ابنِ حجر ہیثمی نے اپنی کتاب ''الزّواجر عن اقتراف الکبائر'' ١٥٥١ پر اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔

            نبی اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کی بے شمار احادیث میں ڈاڑھی کے بڑھانے کا حکم موجود ہے اور ڈاڑھی کٹانا یا مونڈنا اہل کتاب کی علامت ہے جیسا کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

(( قال رسول الله صلى الله  عليه وسلم  خالفواا المشركين  او فروا اللحى  و أحفوا الشوارب  و فى  رواية  إنهكوا الشوارب و أعفوا اللحى .))

            ''رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مشرکوں کی مخالفت کرو۔ ڈاڑھی کو بڑھائو اور مونچھوں کو پست کرو۔''  (متفق علیہ، مشکوة)

            اسی طرح مسند احمد۵/۲۶۴ میں ہے۔ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اہل کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

(( فقلنا   يا رسول الله صلى الله عليه وسلم  إن أهل الكتاب  يقصون  عثانينهم  و يوفرون  سبا لهم  قال فقال النبى  صلى الله عليه وسلم  قصوا سبلكم  و وفرون  عثانينكم  و خالفوا أهل الكتاب.))

            ''ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے کہا اے اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے ہیں اور مونچھوں کو چھوڑتے ہیں، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم مونچھوں کا کاٹو اور داڑھیاں بڑھائو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔''

            حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری ۱۰/ ۳۵۴ پر اور علامہ عینی نے عمدة القاری ٥٠٢٢ پر اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ نیل الاوطار۱/۱۳۲ پر ہے۔

(( و كان  من  عادة  الفرس قص اللحية .))

            ''داڑھی تراشنا فارسیوں کی عادت سے ہے۔''

            ان احادیث میں ڈاڑھی کو بڑھانے کا حکم کیا گیا ہے اور شرعی قاعدہ ہے الامر للوجوب لہٰذا ڈاڑھی بڑھانا واجب ہے اور اس کو تراشنا یا منڈوانا اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کے امر کی مخالفت ہے۔ آپ کے امر کی مخالفت عذابِ الہٰی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾...النور

            ''پس جو لوگ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو اس بات سے ڈر نا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت آن پڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب اترے۔''النور 63

            اس بات پر تمام اہل اسلام فقہاء و محدثین کا اتفاق ہے کہ داڑھی مونڈنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ڈاڑھی مونڈتا ہے تو وہ اس کے ساتھ گناہ پر تعاون کرتا ہے جو شرعاً بالکل منع ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾...المائدة

            ''نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو۔ گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو یقینا اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔''

            جب ڈاڑھی مونڈنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے تو اس پر تعاون کرنا گناہ پر تعاون ہے اور شرعاً حرام ہے۔ شریعت اسلامیہ نے جس فعل کو حرام قرار دیا اس فعل پر اُجرت لینا بھی حرام ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢﴾...الإسراء

            ''زنا کے قریب نہ جائو اس لئے کہ یہ بہت بڑا گناہ اور برا راستہ ہے۔''الاسراء

حدیث میں ہے:

(( عن  أبى مسعود قال نهى  النبى صلى الله عليه وسلم  عن ثمن الكب  و حلوان  الكاهن  ومهر  البغى .))

            ''ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے کتے کی قیمت ، نجومی کی کمائی اور زانیہ عورت کی اُجرت کو منع فرمایا ہے۔''   (بخاری۸۰۵/۲۔۳۰۵/۱،ابودائود۲۶۷/۳،۲۳۵ احمد۱۴۷/۱،۲۹۹/۲،۵۰۰/۲،۱۱۸/۴،۱۲۰)

ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں ، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(( مهر البغى خبيث.))

            ''زانیہ عورت کی اُجرت پلید ہے۔''(مسلم۱۱۹۹/۳،ترمذی۵۷۴/۳،(۱۲۷۰)

            اس آیت کریمہ اور حدیث سے معلوم ہوا زنا حرام ہے اور اس کی اُجرت بھی حرام ہے۔ دوسری مثال یہ سمجھ لیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾...المائدة

            ''اے ایمان والوں! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور فالنامے یہ سب پلید ہیں۔ شیطانی کام ہیں ۔ ان (سب)سے اجتناب کرو تا کہ تم کامیاب ہو جائو۔''

حدیث میں ہے:

(( عن عائشة  قالت  لما نزلت  الأيات من  آخر  سورة  البقرة فى  الربا خرج  رسول الله  عليه  و سلم  فحرم  التجارة  فى الخمر.))

            ''سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ جب سورة بقرة کی آخری آیات سود کے متعلق ناز ل ہوئیں تو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نکلے آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے شراب کی تجارت حرام قرار دے دی۔''  (ابنِ ماجہ۱۲۲۲/۲ (۳۳۸۲)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

(( لعن رسول الله  صلى  الله  عليه  وسلم  فى الخمرة  عشرة  عاصرها  ومعتصرها  وشاربها  و حاملها و المحمولة  إليها و ساقيها  و بائعها  و المشترى لها  و المشترى له .))

            ''رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے شراب کے متعلق دس آدمیوں پر لعنت کی ہے شراب بنانے والا ، نچوڑنے والا، پینے والا، اس کو اٹھانے والا، جس کی طرف اس کو اٹھایا جائے، پلانے والا، بیچنے والا ، اس کی قیمت کھانے والا، خریدنے والا جس کے لئے خریدی جائے۔''(ترمذی۵۸۷/۳ (۱۲۹۵)، ابنِ ماجہ۱۲۲۲/۲(۳۳۸۱)، مسند احمد۷۱/۲،۹۷)

            ان دونوں مثالوں سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ جس کام کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اس کی اُجرت اور کمائی بھی حرام ہے بعینہ ڈاڑھی مونڈنا، پھر اس پر اجرت لینا حرام ہے ۔ اسی طرح ڈاڑھی مونڈنے والے کو دکان کرایہ پر دینا اس کے ساتھ فعل حرام پر تعاون ہے، یہ بھی حرام ہے ۔ لہٰذا میرے وہ بھائی جو ڈاڑھیاں مونڈنتے اور اس پر اجرت لیتے ہیں انہیں اس فعل حرام سے باز آ جانا چاہیے اور فعل حرام کو ترک کر کے حلال رزق کمانا چاہیے۔ بعض علاقوں میں مساجد کی دُکانوں میں یہ فعل حرام کیا جاتا ہے ائمہ مساجد اور مساجد کی کمیٹی پر مبنی افراد کو خصوصاً اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے اور اس کے متعلقات کو بھی ایسے کاموں کے لئے استعمال کریں جو شریعت کے مطابق ہوں نہ کہ مساجدجو اسلام کے قلعے ہیں، ان کی دُکانوں اور متعلقات میں فعل حرام کا ارتکاب کیا جائے۔ لہٰذا اس فعل حرام سے اجتناب اختیار کرتے ہوئے صحیح سنت پر عمل کی طرف توجہ دی جائے۔ کہیں اس فعل حرام کے ارتکاب کی وجہ سے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہ بنالیں۔ 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ