سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(131)، بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت

  • 14737
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6221

سوال

(131)، بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں کہ انشورنس (بیمہ زندگی) وغیرہ کا اسلام میں کیا حکم ہے؟ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے نمائندے گھر گھر پھرتے ہیں۔ دلائل دیتے ہیں اور بہت سے علماء کے فتاویٰ بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ ان کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ مستقبل کے لئے ایک احتیاطی تدبیر ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو آدمی مرتے وقت  اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ جائے ، وہ بہتر ہے اس سے جو ان کو  محتاج اور فقیر چھوڑ کرجائے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسٹیٹ لائف کا کاروبار بالکل سود سے پاک ہے اور اس کا شراکت دار اس کے نفع اور نقصان میں شریک ہوتا ہے۔  


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سرکاری ملازمین کی ہر ماہ تنخواہ سے جو رقم کاٹ لی جاتی ہے اور پھر اس کی ریٹائر منٹ (Retirement)پر بمع اضافہ اس کو رقم دی جاتی ہے اسے جی پی فنڈ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی

بیمہ مطلقاً ناجائز اور حرام ہے خواہ زندگی کا ہو یا مکان اور گاڑیوں وغیرہ کا کیونکہ جوئے اور سود کا مرکب ہے۔

            ۱)         یہ اپنی اصل وضع میںجوئے اور سود کا مرکب ہے اور اسلام میں سود اور جوادونوں حرام ہیں۔ اگر مدت مقررہ سے پہلے بیمہ دار کی موت یا املاک کا نقصان ہو جائے تو کمپنی کو نقصان ہوتا ہے اگر وہ پوری قسطیں جمع کرا دے تو کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ قسطیں پوری ادا ہو سکیں گی یا نہیں؟ اور سود اس لئے ہے کہ بیمہ دار اگر پوری قسطیں جمع کروائے تو اس کو اس رقم کے ساتھ سود دیا جاتا ہے۔

            ۲)        بیمہ سے وراثت کا شرعی نظام ختم ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ بیمہ کی رقم بیمہ دار کے مرنے کے بعد اس کے نامزد کردہ شخص کو دی جاتی ہے ، جبکہ ہر شرعی وارث ترکہ کا مستحق ہوتا ہے، جو چیز قرآن و سنت کے نظام کو درہم برہم کرنے والی ہو، وہ کیسے جائز ہو سکتی ہے؟

            ۳)        عقیدۂ تقدی پر ایمان کا تقاضا یہ ہے  کہ جائز اور شرعی اسباب بروئے کار لانے کے بعد مستقبل میں پیش آنے والے حوادث اللہ تعالیٰ کے سپر کر دیئے جائیں اور بیمہ اس سے فرار ہے، کیونکہ وہ پہلے سے حوادث کی پیش بندیاں ناجائز طریقوں سے کر رہے ہوتے ہیں۔

            رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمة اللہ علیہم بھی تو دنیا میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بھی آل اولاد چھوڑی تھی۔ جب انہوں نے ایسے ناجائز تحفظات کا انتظام نہیں کیا تو آج کے مسلمانوں کو کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟

            باقی جس حدیث کا آپ نے سوال میں حوالہ دیا ہے وہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیحین میں موجود ہے۔ اس فرمان رسول کو غور سے پڑھ لیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان مستقبل کی احتیاطی تدبیر کے متعلق نہیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جائز موجود جائیداد کو بلاوجہ خرچ کر ڈالنا مناسب نہیں بعد میں وارثوں کے کام آئے گی۔ باقی اسٹیٹ لائف والوں کا یہ کہنا کہ ہمارا شراکت دار نفع و نقصان میں شریک ہوتا ہے۔ یہ جھوٹ و دروغ گوئی اور سادہ لوح انسانوں کو اپنے شکنجے میں پھنسانے کا ایک حیلہ ہے۔ کیونکہ بیمہ کمپنی اگرچہ اس رقم سے تجارت بھی کرتی ہو لیکن اس کے منافع میں سے ایک معین اور طے شدہ حصہ بیمہ دار کے کھاتے میں جمع کرتی ہے اور یہ بلاشبہ سود ہے۔ کیونکہ اصل رقم کے علاوہ معین اور طے شدہ منافع کے ادا کرنے کا ہی نام سود ہے۔ اگر یہ نفع اور نقصان کی بنیاد پر ہی قائم ہو تو پھر بھی بیمہ کرانے والوں کو ایک طے شدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہیے بلکہ کمی و بیشی کے ساتھ نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہنا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل رقم سے زائد جو کچھ بھی دیتی ہیں۔ اس کی شرح اور مقدار پہلے ہی سے متعین کر دیتی ہیں۔ اگر کوئی کمپنی اس کو معین نہ بھی کرتی ہو بلکہ زائد رقم کو سالانہ منافع اور نقصان کا لحاظ کر کے فیصد پر رکھتی ہو، تب بھی یہ طریقہ بیمہ کے جائز ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا کیونکہ اس کاروبار میں نقصان کا سوال ہی نہیں آنے دیا جاتا۔ پھر یہ بات بالکل واضح ہے کہ بیمہ کمپنیاں تمام حاصل شدہ سرمایہ سود پر آگے دے دیتی ہیں اور سودی معاملہ میں واقع نقصان کی ذمہ دار ی قبول نہیں کی جاتی۔ پھر ان کمپنیوں کے متفقہ اصولوں میں سے بعض ایسے اصول بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ سارا کاروبار اور ڈھانچہ ہی شرعاً ناجائز بن جاتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ نظام یہودیوں کا ایجاد کردہ ہے جن کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تا کہ مسلمانوں کو اسلام نے جو سرمایہ محفوظ رکھنے اور مال میں اضافہ کرنے ، حوادث کی صورت میں مالی معاونت اور پسماندگان کی مالی امداد کے بارے میں جو زبانی ہدایات دی ہیں ان سب چیزوں سے محروم کر کے اسلام سے دور کر دیا جائے۔

            ایسے تعلیم یافتہ اور نام نہاد علماء جنہوں نے یہودیوں کے غزو فکری سے شکست خوردہ ہو کر یورپ کے موجودہ اقتصادی نظام کی چند خوبیاں اور خوشنما پہلوؤں کو دیکھ کر بیمہ کی حلت اور جواز کا فتویٰ دیا ہے جو سراسر جوا اور سود ہے ، ایسے لوگوں کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے اور بعض تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ یورپ کی ذہنی غلامی نے ان کے دماغوں پر یہ عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ سود کے بغیر معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ ایسے علماء کو ایسا فتویٰ دینے سے پہلے اس آیت کریمہ کو اچھی طرح پڑھ لینا چاہیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـٰذَا حَلَالٌ وَهَـٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿١١٦﴾...النحل
            ''اوراپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو۔ یقینا اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔'' 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے