ایک آدمی گورنمنٹ کی ملازمت کرتا ہے اس کو گورنمنٹ جو تنخواہ دیتی ہے اس میں کچھ حصہ کٹوتی کرتی ہے جس کو جی پی فنڈ کہتے ہیں۔ یہ فنڈ ریٹائر ہونے پر ملتاہے اس کی مقدار تقریباً دو تین لاکھ روپے ہوتی ہے جبکہ کٹوتی سو روپے سے لے کر تین چار سو تک ہوتی ہے لیکن فنڈ جو ملتا ہے اس حساب سے زیادہ ہوتا ہے کیا یہ فنڈ جس کو جی پی فنڈ کہتے ہیں لینا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ (محمد عباس، مرکز صالحوال اوکاڑہ)
سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے حکومت جو ہر ماہ مخصوص حصہ کاٹتی ہے اسے جی پی فنڈ کہتے ہیں پھر بینک کاری کے طریقہ کے مطابق اس فنڈ پر سالانہ منافع یا سود جمع ہوتا رہتا ہے ۔ یہ رقم سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کے موقع پر اصل رقم مع سود دی جاتی ہے تو اس میں قابل غور چند باتیں ہیں:
۱) تنخواہ سے کاٹی گئی رقم سے زائد رقم وصول کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
۲) اگر ناجائز ہے تو اس کو وصول کرے یا نہ کرے؟
۳) اگر وصولی نہیں کرنی تو کیا متعلقہ محکمہ کے افسران وہ رقم کھا جائیں گے؟
۴) اگر وصول کر چکا ہے تو کہاں خرچ کرے؟
قرآن و سنت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل رقم سے زائد رقم وصول کرنا سود ہے اور اللہ تعالیٰ نے سود کھانے سے منع فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والوں اللہ دے ڈرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے ، چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بس اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑائی کے لئے تیار ہو جائو اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیاجائے۔''(البقرہ ۲۷۸: ۲۷۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنی اصل رقم لینے کا حکم دیا اور زائد رقم کی وصولی سے منع فرما دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ سودی رقم کا حاصل کرنا ایمان کے منافی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ سود کھانے والے اور کھلانے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث ملاحظہ فرمائی:
''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے ولاے کھلانے والے اس کے لکھنے اور گواہی دینے والے پر اور فرمایا کہ یہ سب برابر کے لعنتی ہیں۔'' (مسلم)
''عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم سود اگر کوئی آدمی جان بوجھ کر کھائے تو وہ چھتیس دفعہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔'' (مجمع الزوائد۱۱۷/۴، دار قطنی۱۶/۳، مسند احمد بیہقی فی شعب الایمان)
''سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کے ستر (۷۰) حصے ہیں سب سے چھوٹا حصہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔'' (صحیح ابنِ ماجہ ۲۷/۲ التعلیق الرغیب۳/۵۱۔۸۰)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سود مطلقاً حرام ہے۔ سود لینے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے ۔ یہ ایمان کے منافی جہنمی اور ملعون بننے کا سبب ہے۔ اس کا ایک ایک درہم چھتیس چھتیس زنا کے برابر ہے اور سب سے کم گناہ ماں کے ساتھ نکاح کرنا ہے۔ ایک آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے:
''جو پھر سود لے تو یہ لوگ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔''(البقرہ : ۲۷۸)
جی پی فنڈ جو ایک ملازم آدمی وصول کرتا ہے اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ملازم کو جو سودی رقم ملتی ہے اس کا مالک کون ہے ۔ کیونکہ ملازم کی تنخواہ سے جو رقم کاٹی جاتی ہے وہ اسی کا ہی مالک ہے ، اس سے زائد کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ ... ٢٧٩﴾...البقرة ''تم صرف اصل مال کے مالک ہو۔ لہٰذا جب ملازم سودی رقم کا ملک ہی نہیں ہوتا تو اس کو حاصل کرنااس کے لئے جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس زائد رقم کو چھوڑ دینے کا حکم دے رہا ہے : ﴿وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾...البقرة
''جو سود باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔''
جو ملازم اس سود سے بچنا چاہتا ہے تو اس کے لئے طریقہ موجود ہے۔ حکومت جب کسی ملازم کے پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی کرتی ہے تو اس ملازم سے ایک فارم پر کرایا جاتا ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ درخواست دہندہ جمع شدہ رقم چاہتا ہے یا نہیں۔ گورنمنٹ اکائونٹ سے جو فارم ملتا ہے ، اس سے خانہ نمبر ١۱۴میں یہ عبارت درج ہے:
''کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟'' اگر ملازم لکھ دے کہ میں سود نہیں لیتا تو اس کی جمع شدہ رقم پر سود نہیں لگایا جاتا اور ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے درخواست دے کر اپنی جمع شدہ رقم پر سودی اضافہ ختم کرا دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جی پی فنڈ کی صورت میں جمع شدہ رقم پر جو سود لگایا جاتا ہے اگر محکمہ کے افسران زائد رقم کھاتے ہیں تو اس کا گناہ ان کے ذمہ ہے۔ بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ زائد رقم وصول کر کے وہاں صرف کر دینی چاہیے جہاں گورنمنٹ کسی پر زیادتی کرتی ہے۔ رشوت کے بغیر چھوڑتی نہیں وغیرہ۔ خود استعمال نہ کرے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ایسی رقم کی وصولی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ ... ٢٧٩﴾...البقرة کہہ کر اصل مال لینے کا حکم دیا ہے اور ﴿وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾...البقرة کہہ کر باقی سود چھوڑنے کا حکم فرمایا ہے۔