خلع اور مبارات طلاق ہے کہ فسخ نکاح؟
فقہائے اسلام کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، بعض اسے فسخ شمار کرتے ہیں اور بعض طلاق اور بعض کہتے ہیں اگر طلاق کے لفظ سے ہو تو طلاق ہے اور اگر اس کے علاوہ کسی اور لفظ سے ہو گا تو فسخ ہے لیکن صحیح شرعی دلائل جس بات کے موید ہیں وہ یہی ہے کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں کیونکہ:
۱) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے سوال کیا کہ کسی نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں پھر ُس نے خلع کروالیا۔ کیا وہ اس سے نکاح کر سکتاہے؟ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہاں نکاح ہو سکتا ہے کیونکہ خلع طلاق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے (الطّلاق مرّتٰن) (البقرۃ) کو آیت کے شروع میں خلع کو درمیاں میں کہ (فان خفتم الاّ یقیما حدو اللہ فلا جناح علیھما فی ما افتدت به)اور تیسری طلاق کو بعد میں ذکر کیا اگر اس خلع کو بھی طلاق شمار کیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان (فان طللّقھا فلا تحلّ له)چوتھی طلاق بن جائے گی۔
۲) خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کی بیوی کو ایک حیض مدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ حدیث میں ہے:
''ثابت بن قیس کی بیوی نے خلع کروایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر کی۔''(سنن ابودائود کتاب الطلاق باب الخلع حدیث۲۲۲۹)
امام خطابی فرماتے ہیں:
(( فى هذا أقوى دليل لمن قال إن الخلع فسخ و ليس بطلاق .))''یہ قومی دلیل ہے کہ بے شک خلع فسخ ہے طلاق نہیں۔''(معالم السنن مع سنن ابی دائود)
امام محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی فرماتے ہیں:
((إذ لو كان طلاقا لم يكتف بحيضة للعدة .))''اگر خلع طلاق ہوتی تو ایک حیض عدت پر اکتفا نہ ہوتا بلکہ اسے تین حیض عدت گزارنا پڑتی۔ '' (سبل السلام)
۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ صحیح شرعی اور سنی طلاق وہ ہوتی ہے جو ایسے طہر میں دی جائے جس طہر میں عورت سے جماع نہ کیا گیا ہو خلع کا مطالبہ کرنے والی ثابت بن قیس کی بیوی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ حائضہ ہے یا طہر کی حالت میں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سے یہ چیز نہ پوچھنا واضح دلیل ہے کہ خلع حیض اور جس طہر میںجماع ہوا دونوں میں واقع ہو سکتاہے جبکہ طلاق صرف خاص طہر میں واقع ہوتی ہے تو ثابت ہوا کہ خلع طلاق نہیں۔