کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص زید اور اس کی بیوی کے درمیان ساڑھے پانچ سال سے تنازعہ چل رہا تھا جس کی بنا پر زید نے عرصہ چار سال ہوئے اپنی بیوی کو ایک طلاق زبانی دی۔ پھر لوگوں نے صلح کرادی اور شوہر نے بیوی سے رجوع کر لیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد زید نے دوسری مرتبہ ایک طلاق زبانی دے دی لیکن اہل محلہ کی مداخلت پر پھر صلح ہو گئی اور زید نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ اب مورخہ ۵/۵/۹۶ کو پھر تین طلاق یکدم تحریر کر کے بذریعہ رجسٹری ڈاک زید نے اپنی بیوی کو ارسال کر دی ہیں۔ بیوی اپنے ذاتی مکان میں رہتی ہے۔ شوہر بھی اس کے ہمراہ رہتا ہے۔ اب ایسی صورت میں کیا بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو گئیں یا پھر کوئی صلح کی گنجائش باقی ہے؟ اور اس صورت میں شوہر بیوی کے ہمراہ رہ سکتا ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔
زمانۂ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ خاوند جتنی چاہتا اپنی بیوی کو طلاقیں دے دیتا اور عدت کے اندر رجوع کر لیتا۔ اس سے مقصود عورتوں کو تنگ کرنا ہوتا تھا۔ عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ خاوند نے طلاق دی اور عدت گزرنے کے قریب آئی تورجوع کر لیا پھر طلاق دے دی پھر عدت کے اندر رجوع کر لیا۔ اسی طرح ساری زندگی بیوی کو ظلم و ستم کی چکی میں پیستے رہنا ان کی عادت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کار کو ختم کر کے طلاق کی تعداد کی حد بندی کر دی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں:
''کہ مرد اپنی منکوحہ کو جتنی چاہتا طلاقیں دے دیتا اور دوران عدت وہ جب بھی اس سے رجوع کر لیتا، وہ اس کی بیوی ہی رہتی خواہ اسے سو یا اس سے زائد طلاقیں دے دیتا یہاں تک کہ ایک وہر نے اپنی بیوی سے کہا اللہ کی قسم نہ میں تمہیں ایسی طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے اور نہ ہی تجھ کو اپنے پاس رکھوں گا۔ اس نے کہا وہ کیسے؟ خاوند نے کہا جب تیری عدت ختم ہونے لگے گی ، میں تجھ سے رجوع کر لوں گا۔ وہ عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئی اور ان کو اس واقعہ کی خبر دی۔ وہ خاموش ہو گئیں۔ یہاں تک کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اس بات کی اطلاع انہیں دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا: ''طلاق دو مرتبہ ہے (وقفہ بعد وقفہ) معروف طریقے پر رجوع کرنا ہو گا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہوگا۔'' (ترمذی۱/۲۲۴، مستدرک حاکم۲/۲۷۹)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ لوگوں نے مستقبل میں اس طریقہ طلاق کو جاری کر دیا جس نے پہلے طلاق دی تھی یا نہیں دی تھی۔ (الطّلاق مرّتٰن)کے شانِ نزول سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ ٔ جاہلیت کے طریقہ طلاق جس میں مرد کئی بار طلاق دیتا اور رجوع کرتا تھا کو محدود کر کے دو مرتبہ طلاق تک رجوع کا حکم رکھا۔ یعنی مرد اپنی بیوی کو وقفہ بعد وقفہ دو طلاقیں دے سکتا ہے اور ان کے دوران مرد کو اپنی بیوی سے تعلقات بحال رکھنے کی اجازت ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ دورانِ عدت رجوع کر لے یا عدت کے گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کر لے اور اگر دوبارہ طلاق دے کر پھر دوبارہ تعلقات بحال کر لینے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دے تو یہ عورت اس مرد پر قطعی طور پر حرام ہو جائے گی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اگر اس نے (تیسری ) طلاق دے دی تو وہ اس کے لئے اتنی دیر تک حلال نہیں جب تک وہ کسی دوسرے آدمی سے نکاح نہ کر لے۔''(البقرہ)
یعنی وہ عورت نکاح کے مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لے اور وہ مرد فوت ہو جائے یا اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو یہ عورت اور پہلا خاوند اگر دونوں رضامند ہو جائیں اور یقین ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم رکھ سکیں گے تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" و المقصود من الزوج الثانى أن يكون راغبا فى المرأة قاصدا لدوام عشرتها كما هو المشروع من التزويج."
''یعنی دوسرا خاوند عورت میں رغبت رکھنے والا اور اس کے ساتھ ہمیشہ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھنے والا ہو جیسا کہ مقاصد نکاح میں یہ افعال جائز رکھے گئے ہیں۔''(تفسیر ابنِ کثیر ۱/۲۹۹)
آگے فرماتے ہیں:
" فإذا كان الناس إنما قصده أن يحلها للأول فإذا هو المحلل الذى وردت الأحاديث بذمه و لعنه ."''اگر دوسرے خاوند نے اس عورت کو پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے غرض سے نکاح کیا تو یہ شخص محلل (حلالہ کرنے والا) ہے جس کی مزمت اور لعنت کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں" (ابن کثیر ۱/۲۹۹)
دوسرے خاوند کے ساتھ جب زندگی گزارنے کی غرض سے نکاح کیا تو اس میں یہ شرط ہے کہ اس خاوند نے طلاق دینے سے قبل اس عورت کے ساتھ جماع کیا ہو وگر نہ یہ عورت پہلے خاوند کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ رفاعہ قرظی نے جب اپنی بیوی تمیمہ بنت وہب کو آخری (تیسری) طلاق بھیجی تو اس کا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہو گیا۔ وہ عوت رسول ِ مکرم ۖکے پاس شکایت لے کر آئی کہ عبدالرحمن اس کے مطلب کا آدمی نہیں۔ میں تو اپنے پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ تم سے اور تم اس سے بذریعہ مجامعت لطف اندوز نہ ہو جائو۔ یہ حدیث مسند احمد اور ابنِ ماجہ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ تین طلاقیں وقفہ بعد قفہ ہو جانے کے بعد عورت پہلے خاوند پر قطعی حرام ہو جاتی ہے۔ اب ان دونوں کے دوبارہ تعلقات بحال ہونے کی ایک ہی شکل ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے آدمی سے مقاصد نکاح یعنی عفت و پاکدامنی ، خانہ آبادی وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے اور وہ مرد اس کے حقوق زوجیت ادا کرے ۔ پھر کبھی ان میں ناچاقی ہو جائے جس کی بنا پر وہ طلاق دے دے یا فوت ہو جائے اور عدت کے اختتام کے بعد اگر یہ عورت اور پہلا خاوند آپس میں رضا مند ہو جائیں اور یقین ہو کہ اب وہ مل کر حدود اللہ کو قائم رکھ سکیں گے تو دوبارہ آپس میں نکاح کر سکتے ہیں۔ اور اگر دوسرے خاوند کے ساتھ پہلے کے لئے حلال ہونے کی غرض سے نکاح کیا تو یہ فعل حرام ہو گا اور لعنت کے مستحق ٹھہریں گے اور عورت پہلے خاوند کی طرف دوبارہ واپس نہیں لوٹ سکتی۔
صورت مسئولہ میں زید اپنی بیوی کو وقفہ بعد وقفہ تین طلاقیں پوری دے چکا ہے جو کہ تینوں لاگو ہو چکی ہیں۔ اب اس کے بعد زید کو اس عورت کے ساتھ رہنے کا شرعاً کوئی حق نہیں رہا۔ یاد رہے کہ مرد اپنی عورت کو اکھٹی تین طلاقیں ایک مجلس میں اگر دے تو از روئے شریعت ایک ہی سمجھی جائے گی جس میںرجوع ممکن ہے۔ صورت مسئولہ میں زید چونکہ پہلے دو طلاقیں الگ الگ دے چکا ہے ، اب وہ آخری طلاق ایک مجلس میں چاہے ایک مرتبہ چاہے اکھٹی تین یا تین سے زائد مرتبہ دے، وہ ایک ہی ہوگی۔ لیکن پہلی دو طلاقوں کے ساتھ یہ طلاق شامل ہونے کی وجہ سے اب تینوں طلاقیں پوری ہو گئیں۔ اب عورت مرد پر یقینی طور پر حرام ہے اور مرد اب اس عورت سے کسی صورت رجوع نہیں کر سکتا۔ سوائے اس صورت کے کہ جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ وہ عورت نئے خاوند کے ساتھ نکاح کرے ۔ یہ نکاح عارضی طور پر پہلے خاوند کے لئے حلال ہونے کی غرض سے نہ کیا جائے کیونکہ یہ حلالہ ہے اور حلالہ پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے البتہ نیا خاوند اگر اتفاقاً اسے طلاق دے دے یا وہ فوت ہو جائے تو تب وہ عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔