سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق کا حکم

  • 14729
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1673

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست محمد سلیم ولد شہاب الدین نے اپنی بیوی کو اس کی والدہ اور بھائی کے روبرو تین مرتبہ یہ کہہ کر کہ ''میں تجھے طلاق دیتا ہوں'' چلاگیا جبکہ اس کی بیوی سات آٹھ ماہ سے حاملہ بھی ہے اس کے بارے میں فتویٰ صادر فرمائیں کہ آیا صلح صفائی کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا کہ طلاق کامل ہو چکی ہے؟   (خواجہ رشید ، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالتِ حمل میں ہونے والی طلاق کو طلاق سنی کہا جاتا ہے ۔ اس طلاق میں عدت کے اندر رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہ والی روایت صحیح مسلم (۲/۱۰۴۵ (۱۴۷۱) میں ہے جس میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ سیدنا ابنِ عمر نے الت حیض میں طلاق دی تو سیدنا عمر کو رسول اللہ  ۖنے فرمایا کہ اسے حکم دیں کہ وہ رجوع کرے پھر حالت طہر یا حمل میں طلاق دے۔ معلوم ہوا کہ حالت حمل میں دی ہوئی طلاق کا وقوع ہو جاتا ہے اور مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ... ٢٢٨﴾... البقرة

   ''یعنی ان کے خاوند اگر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔''(البقرہ : ۲۲۸)

صورتِ مسئولہ میں عدت چونکہ وضع حمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ... ٤﴾...الطلاق

''اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔''

 تین بار اکھٹی طلاق دینے سے ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ... ٢٢٩﴾...البقرة

''رجعی طلاقیں وہ ہیں اس کے بعد یا تو بیوی کو آباد رکھنا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔''

اس آیت میں لفظ مرّتان کا مطلب مرّة بعد مرّة یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ طلاق دینا، نہ کہ محض لفظی تکرار اگر دو طلاقیں ہوتا تو آیت یوں ہوتی الطلاق طلقتان جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے اس کی مثالیں قرآن مجید میں مذکور ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ... ١٢٦﴾...التوبة

''کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔''(توبہ : ۱۲۶)

اور دوسری جگہ فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ... ٥٨﴾...النور

 ''اے ایمان والوں تمہارے مملوک اور تمہارے نابالغ بچے تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں۔''(نور : ۵۸)

اس آیت کے بعد ان تین اوقات کی تفصیل بیان کر دی۔ ظاہر ہے یہاں ثلاث کا مطلب الگ الگ تین اوقات ہیں نہ کہ ایک ہی زمانہ میں تین اوقات کا اجتماع۔ اس سے واضح ہوا کہ مرّتان کا مطلب ہے کہ طلاق رجعی دو دفعہ ہے نہ کہ دو طلاقیں اکھٹی۔

    اب چند ایک صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں:

((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً.)) الخ

            ''سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دو سال تک تین طلاقیں (اکھٹی ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔''   (مسلم۲/۱۰۹۹)

اب اس کے بعد ایک صحیح اور سچا واقعہ دورِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ملاحظہ کریں:

(( عن  ابن عباس  قال  طلق ركانة  بن عبد  اخو بنى مطلب  امرأنه  ثلاثا فى مجلس  واحد  فحزن  عليها  حزنا  شديدا  قال  فسأله  رسول الله  صلى الله  عليه  وسلم  كيف طلقها ؟ قال : طلقتها  ثلاثا  قال  فقال  :  فى مجلس واحد قال نعم  قال فإنما  تلك  واحدة  فارجعها  إن شئت  قال فرجعها .))

            ''رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر بہت رنجور اور غمگین ہوا۔ تو اُس نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو نے کیسے طلاق دی اُس نے کہا میں نے اکھٹی تین طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ایک ہی مجلس میں اُس نے کہا ہاں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ایک ہی واقع ہوئی ہے اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے تو اُس نے رجوع کر لیا۔''  (مسند احمد۱/۲۶۵، مسند ابی یعلیٰ(۲۴۹۵)۲۵/۳، بیہقی۷/۳۳۹، فتح الباری۹/۳۲۳، اغاثہ اللفہان۱/۳۰۵)۔

            تین اکھٹی طلاقوں میں یہی مسلک طائوس ، ابنِ اسحاق، حجاج بن ارطاة ، محمد بن مقاتل تلمیذ امام ابو حنیفہ اور ظاہریہ کا ہے۔ علامہ عینی حنفی نے عمدة القاری ٥٣٧٩ پر ایسے ہی درج کیا ہے۔

            قاضی شوکانی نے نیل الاوطار۶/۲۴۵ پر لکھا ہے کہ اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق، طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی اور ایسی صورت میں صرف ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ صاحب بحر نے اس کو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اور ایک روایت سیدنا علی اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہم سے طائوس ، عطاء بن جابر بن یزید ، ہادی قاسم، ناصر احمد بن عیسیٰ و عبداللہ بن موسیٰ بن عبداللہ اور زید بن علی اور متاخرین ائمہ فقہا ء محدثین میں سے امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہما وغیرہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے۔ مشائخ قرطبہ میں محمد بن بقی، محمد بن عبدالسلام وغیرہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

            لہٰذا مذکورہ بالا صورت میں محمد سلیم ولد شہاب الدین اپنی بیوی سے وضع حمل سے قبل رجوع کر سکتا ہے۔ ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوئی ہے حلالہ جیسے ملعون فعل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔  
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ