سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) متعہ کیا چیز ہے؟

  • 14724
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3676

سوال

(119) متعہ کیا چیز ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

متعہ کیا چیز ہے؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا کوئی صحابی اس کا قائل تھا۔ شیعہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں متعہ کا حکم واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

متعہ کا لغوی معنی فائدہ حاصل کرنا ہے جیسا کہ امام ابو بکر جصاص نے احکام القرآن ۲/۱۴۲ میں لکھا ہے ''الا ستمتاع ھو الانتفاع''اوراصطلاح میں معتہ کا معنی یہ ہے کہ خاص مدت کے لئے کسی قدر معاوضہ پر نکاح کیا جائے۔ لیکن فقہ جعفریہ کی اصطلاح میں جب کوئی مرد کسی عورت کو وقت مقررہ اور اجرت مقررہ کے عوض مجامعت کی خاطر ٹھیکہ پر حاصل کرے تو اس فعل کو متعہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ شیعہ کی کتاب فروع کافی۲/۱۹۱ پر لکھا ہے کہ:

"  إنما  هى  مستاجرة."

    ''ممنوعہ عورت ٹھیکہ کی چیز ہوتی ہے''

 ابتدائے اسلام میں متعہ حلال تھا جسے بعد میں قطعی طور پر حرام قرار دے دیا گیا شروع اسلام میں جتنی مرتبہ بھی متعہ حلال ہوا وہ صرف ضرورت شدید ہ اور غزوات وغیرہ میں حالتِ سفر میں ہوا ہے کسی موقعہ پر بھی اس کی حلت حضر میں نہیں ہوئی۔ چنانچہ امام ابو بکر محمد بن موسیٰ حازمی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الاعتبار ۳۳۱١ پر راقم طراز ہیں:

" إنما  كان ذلك يكون فى أسفارهم  ولم  يبلغنا أن النبى  صلى الله عليه وسلم  أباحة  لهم  وهم  فى بيوتهم ."

   ''متعہ کی حلت سفروں میں ہوئی اور ہمیں کوئی حدیث نہیں ملی جس میں یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے حالتِ حضر میں متعہ کی اجازت دی ہو''۔

سیدنا ابو ذر فرماتے ہیں جیسا کہ السنن الکبری۷/۲۰۷ میں ہے کہ :

" إنما  كانت المتعة  لخوفنا   و لحربنا ."

 ''حالت خوف اور غزوات کی وجہ سے متعہ حلال ہوا تھا''

 ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ متعہ صرف اضطرار اورضرورت شدیدہ کے وقت مباح تھا عام حالات میں نہیں جیسا کہ شیعہ حضرات سمجھتے ہیں۔ قرآنی نصوص اور احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ متعہ قطعی طور پر حرام ہو چکا ہے اور اسلام نے نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ ہی طریقے روا رکھے ہیں چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

  ''وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین (لونڈیاں) ہوں وہ قابل ملامت نہیں البتہ جو ان کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔''(المومنون : ۵۷۔۲۳' المعارج : ۳۱۔۲۹'۷۰)

  اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن نے حلت جماع کو دو چیزوں (زوجیت و ملک یمین) میں منحصر کر دیا ہے زن متعہ ان دو صورتوں میں سے کسی بھی میں بھی داخل نہیں۔ زوجہ اس لئے نہیں کہ لوازم زوجیت، میراث ، طلاق ، عدت ، نفقہ، ایلاء و ظہار، لعان وغیرہ کی یہاں مستحق نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مملوکہ بھی نہیں کیونکہ اس کی بیع، ہبہ اور اعتاق وغیرہ بھی جائز نہیں۔

  علماء شیعہ بھی اس بات کے معترف ہیں کہ زن متعہ زوجیت میں داخل نہیں چنانچہ کتاب اعتقادات ابنِ بابویہ میں تصریح ہے کہ:

" أسباب حل المرأة  عندنا  أربعة  ألنكاح  و ملك  اليمين  و المتعة  و التحليل و قد روى  أبو  بصير  فى البصحيح  عن أبى  عبد الله  الصادق أنه  سئل  عن المتعة  أهى من الأربعة  قال لا."

 ''ہمارے ہاں عورت کی حلت کے چار اسباب ہیں(۱) نکاح(۲) ملک یمین(۳) متعہ(۴) حلالہ اور ابو بصیر نے صحیح میں امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ کیا متعہ چار سے ہے تو فرمایا نہیں''۔

امام قرطبی اپنی تفسیر الجامع لا حکام القرآن۱۲/۷۲ پر رقمطراز ہیں:

" هذا يقتضى تحريم – نكاح  المتعة  لأن  المتمتع  بها لا تجرى  مجرى الزوجات  لا ترث  ولا تورث  ولا يلحق به  ولدها ولا يخرج  من نكاحها  بطلاق  يستأنف لها و إنما  يخرج  بانقضاء التى عقدت  عليها  و صارت  كالمستاجرة ."

''یہ آیت حرمت متعہ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ممتوعہ عورت زوجات کے حکم میں نہیں ہے۔ ممتوعہ عورت نہ خود کسی کی وارث ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی وارث ہوتا ہے اور نہ بچے کا الحاق متعہ کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے اور نہ ہی طلاق کے ساتھ اس سے جدا ہوتی ہے بلکہ طے شدہ مدت کے ختم ہوتے ہی خود بخود اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بیوی کے حکم میں نہیں بلکہ یہ اجرت پر حاصل شدہ چیز ہے۔''

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

   ''جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کرو لیکن اگر تمہیں ان کے ساتھ انصاف نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمہارے قبضہ میں ہیں۔''(النساء : ۳)

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نکاح چار تک محدود ہے اور متعہ میں کوئی عدد مقرر نہیں ہوتا جیسا کہ شیعہ کی معتبر کتاب تہذیب الاحکام کتاب النکاح میں ہے:

" تزوج منهن ألفا فإنهن  مستأجرات."

  ''چاہے ہزار سے متعہ کرے کیونکہ وہ ٹھیکہ کی چیز ہے''

 اس آیت سے دوسرا مقصود ایسی صورتوں کا بیان کرنا ہے جس میں حق تلفی کا کوف نہ ہو اور یہ معنی متعہ و حلالہ میں بہ نسبت منکوحہ و مملوکہ کے زیادہ ہے کیونکہ مملوکہ کے کچھ ایسے حقوق ہیں جن کو ادا نہ کرنا ظلم ہے بخلاف زن متعہ کے کہ اس کا سوائے اُجرت مقررہ کے اور کوئی حق نہیں اور حلالہ میں تو یہ بھی نہیں ہے مفت کا سودا ہے پس اگر متعہ و حلالہ مباح ہوتے تو اس موقع پر ان کا ذکر ضرور ہوتا کیونکہ ان میں حق تلفی کا کوئی خوف نہیں۔ حرمت متعہ کے متعلق قرآنی دو آیات کے بعد اب چند ایک صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں:

((وَعَنْ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ: «أَنَّهُ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَتْحَ مَكَّةَ، قَالَ: فَأَقَمْنَا بِهَا خَمْسَةَ عَشَرَ، فَأَذِنَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ إلَى أَنْ قَالَ: فَلَمْ أَخْرُجْ حَتَّى حَرَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -» وَفِي رِوَايَةٍ «أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إنِّي كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنْ النِّسَاءِ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهُ وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا ))

            ''سبرۃ  جہنی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگوں میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لئے حرام کر دیا ہے سو جن کے پاس ان میں کوئی ہوتو چاہیے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔'' (ابو دائود۲۹۰، مسلم۱/۴۵۱، نیل الاوطار ۴/۱۳۴)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

((  حرم  المتعة الطلاق و العدة  و الميراث.))

    ''رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیبر کے دن متعہ سے منع فرما دیا اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے۔''  (مسلم۱۴۰۷،۱۰۲۷)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((  عن على قال حرم  رسول الله  صلى الله  عليه و سلم  يوم  خيبر  لحوم  الحمر الأهلية  ونكاح المتعة.))

 ''طلاق ، عدت اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔''

 امامیہ شیعہ کی معتبر کتاب فروع کافی اور تہذیب الاحکام میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

''سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت اور متعہ حرام کر دیا۔'' (تہذیب الاحکام۲/۱۸۶، استبصار۳/۱۴۲، فروع کافی۲/۱۹۲)

    سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ وہ متعہ کو حلال سمجھتے تھے اس کی حقیقت یہ ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ تک متعہ کو اضطرار اور شدید ضرورت میں جائز سمجھتے رہے پھر بعد میں انہین اس کے نسخ و حرمت کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اس سے بھی رجوع کر لیا تھا او ر اس کے بعد ہمیشہ متعہ کو حرام ہی سمجھتے رہے۔ امام ترمذی نے ترمذی شریف میں باب ما جاء فی نکاح المتعۃ کا باب قائم کر کے دو حدیثیں نقل کی ہیں پہلی حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو اوپر ذکر کر دی گئی ہے اور دوسری حدیث یہ ہے:

(( عن ابن عباس قال إنما كانت  المتعة  فى أول الإسلام  حتى  إذا  نزلت الأية (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم) قال  ابن  عباس فكل فرج سوا هما فهو حرام.))

  ''سیدنا ابِن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ متعہ اوّل اسلام میں جائز تھا یہاں تک کہ آیت (الّا علیٰ ازواجھم اوماملکت ایمانھم)نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا اس کے بعد ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زوجہ اور مملوکہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔''   (ترمذی۱/۱۳۳)

امام ابو بکر جصاص ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے رجوع کے متعلق فرماتے ہیں:

" ولا نعلم  أحدا من الصحابة  روى عنه  تجريد القول فى إباحة  المتعة  غير  ابن عباس  و قد  رجع عنه حين  استقر عنجه  تحريمها  بتواتر  الأخبار من جبهة الصحابة .))

 ''تمام صحابہ رضی اللہ عنہ میں سوائے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی حلت متعہ کا قائل نہیں اور انہوں نے بھی متعہ کے جواز سے اس وقت رجوع کر لیا تھا جب تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعہ کی حرمت ان کے ہاں تواتر کے ساتھ ثابت ہو گئی۔'' (احکام القرآن۲/۱۵۶)

مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ متعہ النساء قیامت تک حرام ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے