جہیز کا اسلامی شریعت میں کیا تصور ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
شادی سے قبل رشتہ کی بات چیت کے وقت لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سرپرستوں سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا خواہ وہ جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کی صورت میں ہو یا نقدی اور مختلف سامان کی صورت می ہو اور رشتہ کی منظوری کو اس پر معلق و موقوف کرنا شرعاً ناجائز ہے اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے لڑکے والوں سے یہ کہان کہ اگر آپ یہ رشتہ منظور کر لیں تو ہم جہیز میں نقد اور فلاں فلاں اشیاء دیں گے سراسر غلط اور شریعت کے خلاف ہے ۔ اس لین دین کی رسم کا نام چاہے جو بھی رکھا جائے یہ شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:
۱) ہر ایک مسلمان کے لئے رسول اللہ کی حیات طیبہ پر عمل کرنا اور زندگی کے تمام معاملات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر پرکھنا ضروری ہے کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے :
''تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کی یاد کرتا ہے اس کے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے''۔(الاحزب : ۲۱)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ ۖکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسوۂ ھسنہ عملی نمونہ ہے جس کی پیروی اور اتباع و اقتداء سب کے لئے ضروری ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے تمام افعال ، ختنہ ، عقیقہ ، منگنی اور شادی وغیرہ کی تقریبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ۖکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انجام دیا ہے لیکن ان کے ایام ہائے زندگی میں یہ رسومات اور مطالبات ہمیں نہیں ملتے۔ غرضیکہ شرع میں اس کا وجود تک نہیں ہے۔
۲٢) ہر مسلمان کے لئے شریعت مطہرہ میں شادی کے موقع پر یا رشتہ طے کرتے وقت یا شادی کے بعد لڑکی والوں پر کسی قسم کا خرچ اور بوجھ نہیں رکھا گیا۔ بلکہ یہ سارا بوجھ لڑکی کا لڑکے پر رکھا گیا ہے کہ یہ اس کو ضروریات زندگی کے اسباب مہیا کرے اس لئے شوہر کو قرآن میں قوام کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور اس واسطے کہ خرچ کئے انہوں نے اپنے مال۔"
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نان و نفقہ مہر وغیرہ تمام اخراجات بذمہ مرد ہیں بس لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سرپرستوں سے کسی مال و متاع کا مطالبہ شریعت کی منشاء کے خلاف ہے۔
۳٣) ہندو مذہب میں لڑکی کو والدین سے وراثت نہیں ملتی س لئے لڑکے والے چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو اور جس شکل میں ہو لڑکی والوں سے زیادہ سے زیادہ مال و متاع حاصل کر لیا جائے اس لئے وہ شادی کے موقع پر مذکورہ مطالبہ کرتے ہیں اور لڑکی والے ان کے مطالبہ کو پورا کرتے ہیں ان ہی کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں حالانکہ وراثت کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور قرآن نے انہیں حدود اللہ کہا ہے اور اس کے ادا کرنے پر فوز عظیم کی خوشخبری سنائی ہے اور وراثت سے محروم کرنے پر ہمیشہ جہنم میں رہنے کی وعید فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''یہ اللہ کی حدیں ہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اس کو وہ جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدود سے تجاوز کرے گا وہ اس کو جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہو گا۔''(نساء : ۱۳'۱۴)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ وراثت کو ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ہے اور جو لوگ اس کی ادائیگی نہیں کرتے وہ اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے ابدی جہنم کی وعید ہے اور جہیز در حقیقت وراثت کی نفی ہے۔
۴) ان وجوہات کے علاوہ جہیز کے نقصانات اس قدر ہیں کہ عام طور پر غریب لوگوں کی بیٹیوں کا نکاح جہیز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے منعقد ہی نہیں ہوتا اور نوجوان لڑکیاں اسی طرح گھر میں بیٹھ کر اپنی عمر برباد کر دیتی ہیں اور کئی لڑکیاں نکاح نہ ہونے کے باعث مختلف جرائم کا شکار ہو جاتی ہیں جس کے معاشرے پربہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں خلاف شرع کاموں سے محفوظ فرمائے اور جہیز جیسی لعنت سے بچنے کی توفیق بخشے۔