ولی کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت
شریعت اسلامیہ میں مردو زن کو بدکاری فحاشی ، عریانی اور بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی انتہائی اہمیت وارد ہوئی ہے ۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں بدکاری و فحاشی کو عروج دینے کے لئے مختلف یہودی ادارے اور ان کے متبعین دن رات مصروف عمل ہیںجنہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور آزادی نسواں کے نام پر کئی ادارے اور سوسائٹیز بنا کر مسلمان ممالک میں فحاشی اور بے حیائی کے پنجے تیز کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یوب کی طرح ہمارے مسلمان معاشرے کو بھی آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قباحیت سے بچانے کے لئے آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے مسلم مرد و زن کے لئے نکاح کی بڑی اہمیت بیان کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا اللہ بڑی وسعت والا اور علم والا ہے۔''(النور : ۳۲)
آگے فرمایا:
''اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مابی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے ''۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا امر بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ جنہیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور بدکاری و زنا سے بچے رہیں۔ اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص اسبابِ نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کر دیتے ہیں''۔ (بخاری و مسلم)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا:
''نکاح کرنا میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں''(ابنِ ماجہ : ۱۸۴۶)
اسی طرح قرآن مجید میں نکاح کو سکون اور محبت و رحمت کا باعث قرار دیا گیا ہے اور کہیں (محصنین غیر مصافحین)کہہ کر بدکاری سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا بد کاری اور زناکاری سے بچنے کے لے ہمیں نکاح جیسے اہم کام کو سر انجام دینا چاہیے اور اس کے لئے طریقہ کار رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے اگر لڑکی اپنی مرضی گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لئے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب وسنت سے دلائل درج ذیل ہیں:
۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
''اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام، مشرک سے بہتر ہے۔ اگر چہ تمہیں بہت پسند ہو''۔(البقرہ : ۲۲۱)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی ارقام فرماتے ہیں:
" فى هذه الأية دليل بالنص على ان لا نكاح إلا بولى قال محمد بن علىبن الحسين النكاح بولى فى كتاب الله تعالى ثم قرأ (وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ)''یہ آیت کریمہ اس بات پر بطور نص کے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا امام محمد باقر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کا بذریعہ ولی منعقد ہونا اللہ کی کتاب میں موجود ہے پھر انہوں نے (ولا تنکحو المشرکین)آیت کریمہ پڑھی۔ (الجامع الاحکام القرآن۳/۴۹)
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: (ولا تنکحوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہ ِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جائو۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص۸۹)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی طراز ہیں:
''یہ خطاب یا ت (عورتوں ) کے ولیوں کو ہے یا حکام کو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مشرک مردوں سے نکاح نہ کرنے دو''۔ (تفسیر مظہری۱/۴۵۸)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی توضیح فرما دی ہے کہ مسلمان عورت کے نکاح کا انعقاد اس کے ولی کے ذریعے ہونا چاہیے اس لئے فرمایا: (ولا تنکحو)کہ تم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاھ مٰں نہ دو اگر ولی کا نکاح میں ہونا لازم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس انداز سے خطاب نہ فرماتا بلکہ عورتوں کو حکم دیتا کہ تم ان کے ساتھ نکاح نہ کرو۔ حالانکہ ایسے نہیں فرمایا۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہو جائیں۔''(بقرہ : ۲۳۲)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی الباری شرح صحیح بخاری۹/۹۴ رقمطراز ہیں:
" وهى أصرح دليل على اعتبار الولى و إلا لما لعضله معنى ولانها لو كان لها ان تزوج نفسها لم إلى أخيها و من كان امره إليه لا يقال إن غيره منعه منه "''یہ آیت ولی کے معتبر ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہو تا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ اگر معقل کی بہن کے لئے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے اس کو روک دیا۔''
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
" ففى الأية دليل على أنه لا يجوز النكاح بغير ولى لأن اخت معقل كانت ثيبا و لو كان الأمر إليها دون لزوجت نفسها و لم تحتج إلى وليها معقل فالخطاب إذا فى قوله (فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ) للألياء وإن الأمر فى التزويج مع رضاهن ."''اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اس لئے کہ معقل بن یسار کی بہن طلاق یافتہ تھیں اور اگر ولی کے بغیر معاملہ اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اس آیت کریمہ میں (فلا تعضلو ھن)میں خطاب اولیاء کو ہے نکاح میں عورت کی رضا مدنی کے باوجودمعاملہ مردوں پر موقوف ہے۔ ''
مذکورہ بالا آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ معقل بن یسار کی بہن کو ان کے خاوند نے طلاق دے دی پھر عدت کے پورا ہوجانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہو گئے تو معقل بن یسار نے اپنی بہن کا نکاح دینے سے انکار کر دیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ سمجھا دیا کہ عورت کے ولی کا حق اس کے نکاح کے انعقاد میں موجود ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ مردوں کو منع نہ کرتا۔ مردوں کو خطاب کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حق ولایت اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لئے رکھا ہے اور یہی بات امام بغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل۲/۱۱۲ امام ابنِ قدامہ نے المغنی۷/۳۳۸ اور امام ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر۱/۳۰۲١ میں لکھی ہے اور اسی بات کو امام طبری نے اپنی تفسیر طبری ۲/۴۸۸ میں صحیح قرار دیا ہے۔ فح الباری کتاب النکاح ٩٠٩۔
اسی طرح نکاح کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
ان آیات میں بھی اللہ تعالی نے عورت کے اولیاء کو خطاب کیا ہے کہ وہ نکاح کرنے کے امر کو سر انجام دیں ۔اگر نکاح کا معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ عورتوں کو خطاب کرتے مردوں کو خطاب نہ کرتے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی۳/۴۹۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کئی ایک احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
دورِ جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح بخاری میں اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں:
(( فنكاحها منها نكاح الناس اليوم يخطب الرجل لإلى الرجل وليه او ابنته فيصدقها ثم ينكحها.))''ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ۔ اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔''
پھر نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر رائج تھیں آخر میں فرمایا:
(( فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله إلا نكاح الناس اليوم.))''جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دیئے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے''۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں نکاح کی صرف ایک صورت باقی رکھی جو کہ ولی کی اجازت پر مبنی ہے اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی تمام صورتوں کو منہدم کر دیا۔ لہٰذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا جائے وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ مرفوعہ ملاحظہ فرمائیں:
''سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے''۔ (ابو دائود مع عون۲/۱۰۱،۱۰۲۔ ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۲۱، ابنِ حبان (۱۲۴۳)، طحاوی۴/۸،۹،۴/۳۶۴، احمد۴/۴۱۳،۴۹۴، طیالسی (۵۲۳)، دار قطنی۳/۲۱۸۔۲۱۹،حاکم۲/۱۷۰، بیہقی۷/۱۷۰، المھلی۹/۴۵۲، شرح السنہ۹/۳۸، عقود الجواہر المنیفہ۲/۱۴۶)
امام حاکم فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں سیدنا علی ، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا معاذبن جبل ، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابو ذر غفاری، سیدنا مقداد بن اسود، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا جابر بن عبداللہ ، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا عمران بن حصین، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا مسور بن محزمہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں اور اکثر صحیح ہیں اور اسی طرح اس مسئلہ میں ازواج النبی سیدہ عائشہ ، سیدہ اُم سلمہ اور سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہن سے روایت مروی ہیں۔ (مستدرک حاکم۲/۱۷۲)
یعنی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے علاوہ تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس حدیث کے راوی ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عالی شان اس بات پر نص قطعی کا حکم رکھتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اگر اس مرد نے اس کے ساتھ صحبت کر لی تو عورت کو مہر دینا ہے اس وجہ سے کہ جو اُس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا۔ اگر وہ (اولیا) جھگڑا کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم اس کا ولی ہے''۔ (شرح السنہ ۲/۳۹، ابو داؤد۶/۹۸، ترمذی۴/۲۲۷، ابن ماجہ۱/۵۸، دارمی۲/۲۶، شافعی۲/۱۱، احمد۶/۴۷،۱۶۵، طیالسی (۱۴۶۳)، حمیدی۱۱۲/۱،۱۱۳، ابنِ حبان (۱۲۴۱)طحاوی۳/۷٧، دارقطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵)
اس حدیث کی شرح میں محدث عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
" والحديث يدل على أن لا يصح النكاح إلا بولى ."
''یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں''۔
آگے مزید فرماتے ہیں:
" و الحق ان النكاح بغير الولى باطل كما يدل أحاديث الباب."''حق یہی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے جیسا کہ اس پر باب کی احادیث دلالت کرتی ہی۔'' (عون المعبود ۲/۱۹۱، طبع ملتانی)
علاوہ ازیں حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں ''ایّما''کلمہ عموم ہے جس میں باکرہ 'ثیبہ چھوٹی بڑی ہر طرح کی عورت داخل ہے کہ جو بھی عورت ولی کے بغیر اپنا نکاح از خود کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔ رسول مکرم ۖکی یہ حدیث اس بات پر نص و قطعی ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے ۔ امام ترمذی فرماتے ہی:
''اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ ''ولی کے بغیر نکاح نہیں '' پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عباس ، اور ابو ہریرہ کا عمل ہے اور اسی طرح تابعین فقہا میں سے سعید بن مسیب ، حسن بصری ، شریح، ابراہیم النخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ اور امام ثوری ، امام اوزاعی، امام عبداللہ بن مبارک ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہو رحمة اللہ علیہم کا بھی یہی موقف ہے''۔ (ترمذی۳/۴۱۰،۴۱۱)
اب ائمہ محدثین کے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ: صاحب بدایۃ المجتحد۲/۷ لکھتے ہیں:
"فذهب مالك إلى أنه لا يكون نكاح إلا بولى و أنها شرط فى الصحة."''امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مذہب ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے اور یہ ولایت نکاح کی صحت میں شرط ہے یعنی اگر ولایت مفقود ہوئی تو نکاح درست نہیں ہوگا۔''
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ: فقہ حنبلی میں بھی نکاح کے لئے ولی ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ امام ابنِ قدامہ حنبلی رقمطراز ہیں:
" أَنَّ النِّكَاحَ لَا يَصِحُّ إلَّا بِوَلِيٍّ، وَلَا تَمْلِكُ الْمَرْأَةُ تَزْوِيجَ نَفْسِهَا وَلَا غَيْرِهَا، وَلَا تَوْكِيلَ غَيْرِ وَلِيِّهَا فِي تَزْوِيجِهَا. فَإِنْ فَعَلَتْ، لَمْ يَصِحَّ النِّكَاحُ. رُوِيَ هَذَا عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ -. وَإِلَيْهِ ذَهَبَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَالْحَسَنُ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَجَابِرُ بْنُ زَيْدٍ، وَالثَّوْرِيُّ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَابْنُ شُبْرُمَةَ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ الْعَنْبَرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاقُ، وَأَبُو عُبَيْدٍ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، وَالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَالْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ "''یقینا ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں اور عورت اپنے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نکاح کی مختار نہیں اور نہ ہی اپنا نکاح کرانے کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ولی بنانے کی مختار ہے اگر اُس نے ایسا کیا تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ یہ بات صیدنا عمر، سیدنا علی ، سیدنا ابنِ مسعود، سیدنا ابنِ عباس، سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور اس کی طرف امام سعید بن المسیب ، امام حسن بصری، امام عمر بن عبدالعزیز، امام جابر بن زید، امام سفیان ثوری، امام ابنِ ابی لیلی، امام ابنِ شبرمہ، امام ابن مبارک، امام عبید اللہ العنبری ، امام شافعی، امام اسحاق بن راہویہ اور امام بو عبیدہ گئے ہیں اور یہی بات امام ابن سیرین، امام قاسم بن محمد اور امام حسن بن صالح سے بھی راویت کی گئی ہے ۔'' (المغنی لابن قدامہ۹/۳۴۵)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ: اس آیت﴿ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ... ٢٣٢﴾...البقرة کے بارے میں فرماتے ہیں:
" و هذه أبين أية فى كتاب الله دلالة على أن ليس للمرأة ان تتزوج بغير ولى ."''یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس بات پر دلالت کے اعتبار سے واضح ترین ہے کہ عورت کو بغیر ولی کے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔''
اور آگے مزید فرماتے ہیں:
" إن العقد يغير ولى باطل ( كتاب الام مختصر للامام مزنى ص 163)''ولی کے بغیر عقد قائم کرنا باطل ہے''۔
امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ:
" لا نكاح إلا بولى و على هذا فلا يجوز للمرأة أن تزوج نفسها ولا يجوز لها أن توكل فى زواجها غير وليها وإذا كان لا بجوز لها ان تزوج مفسها فلا تجوز لها ان تزوج غيرها من باب أولى ."''ولی کے بغیر نکاح نہیں اور اسی بنا پر عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے نکاح کے لئے اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو متعین کرے اور جب اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کر سکے تو اس کے لئے کسی دوسری عورت کا نکاح کرنا بالا ولیٰ جائز نہیں۔''(موسوعۃ فقہ سفیان ثوری ص ۷۹۳)
امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" لا نكاح إلا بولى و قال الذى بيده عقدة النكاح هو الولى فإن زو جت المرأة نفسها بغير ولى او و كلت غير وليها فى تزوبجها فالنكاح باطل و يفرق بينهما قبل الدخول و بعده."''ولی کے بغیر نکاح نہیں اور (الّذی بیدہ عقدة النّکاح)سے مراد ولی ہے اگر عورت نے اپنا نکاح ولی کے بغیر خود کر لیا یا نکاح کرنے میں اپنے ولی کے علاوہ کسی دوسرے کو ولی بنا لیا تو یہ نکاح باطل ہے اور ان دونوں کے درمیان صحبت کرنے سے پہلے اور بعد جدائی کرادی جائے گی۔'' (موسوعہ فقہ الحسن بصری۸۹۷)
امام ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ: یہ امام ابو حنیفہ کے استاد الاستاد ہیں اور ان کے اقوال پر فقہ حنفی کا دارومدار ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے فرماتے ہیں:
" ليس العقد بيدها النساء إنما العقد بيد الرجال."''عقد قائم کرنا عورتوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ مردوں کے ہاتھ میں ہے''۔ (ابنِ ابی شیبہ۱/۲۰۸، موسوعہ فقہ ابراہیم النخعی۱/۶۷۷)
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کتاب و سنت اور جمہور ائمہ محدثین کے نزدیک عورت کا نکاح ولی کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا ۔ جو عورت اپنا نکاح خود کر لیتی ہے ایسا نکاح باطل ہے اور ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی تا کہ وہ ناجائز فعل کے مرتکب نہ ہوں۔
موجودہ دور میں کئی ایک ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ لڑکیاں گھروں سے فرار اختیار کر کے اپنے عاشقوں کے ساتھ عدالت میں جا کر نکاح کر الیتی ہیں اور مسلم معاشرے کے لئے بالعموم اور ان کے والدین کے لئے بالخصوص ذلت و رسوائی کا باعث بنتی ہیں۔ صائمہ کیس کا فیصلہ جو کہ دس مارچ ٩٧ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے کیا وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور صریح قرآن و سنت کے خلاف ہے ۔ ہمارے ملک کے جن دو ججوں نے اس پر جو ریمارکس (Remarks)لکھے وہ یہودیت کی حقوقِ نسواں کے نام سے پھیلائی ہوئی تحریکوں سے مرعوبیت کا شاخسانہ ہے جیسا کہ ایک جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ''میں اپنی کوشش کے باوجود ایسا اصول نہین ڈھونڈ سکا جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہو کہ بالغ مسلم لڑکی کا اپنے ولی کی مرضی کے بغیر نکاح ناجائز ہے۔ ''
مندرجہ بالا صریح دلائل کی روشنی میں مذکورہ جسٹس کا یہ بیان انتہائی غلط اور قرآن و سنت کے دلائل سے لا علمی و ناواقفیت پر مبنی ہے اور انتہائی قابل افسوس ہے مسلمانوں کا قانون کتاب و سنت ہے جس میں ایسے دلائل اور اصول تواتر کے ساتھ موجود ہیں کہ مسلم لڑکی بالغ ہو یا مطلقہ یا کنواری کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جیسا کہ اوپر دلائل ذکر کر دیئے ہیں۔ ہمارے ملک میں چونکہ انگریزی قانون رائج ہے جس کی بنا پر اکثر فیصلے کئے جاتے ہیں اور قرآن و سنت کو عملاً قانون سمجھا ہی نہیں جاتا اور یہ چیز کسی بھی مسلم کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ تمام مسلمانوں کو اپنے ہر قسم کے فیصلے طاغوتی عدالتوں کی بجائے قرآن و سنت کے ذریعے کروانے چاہئیں تا کہ عند اللہ ماجور ہو سکیں۔