کیا تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ ہیں؟
بعض لوگ مذکورہ حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا تعلق نماز تہجد کے ساتھ ہے تراویح کے ساتھ نہیں۔ آپ ۖنے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہیں اور یہ بات بڑے بڑے حنفی علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تہجد اور تراویح کے علیحدہ علیحدہ پڑھنے پر کوئی دلیل موجود نہیں جیسا کہ مولانا انور شاہ کاشمیری دیوبندی رقمطراز ہیں:
" ولا مناص من تسليم ان التراويح عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الرويات لنه عليه السلام صلى التراويح والتهجد على حدة فى رمضان ."''یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھیں اور کسی روایت سے ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد کو رمضان میں علیحدہ علیحدہ پڑھا ہو''۔
یعنی اگر تراویح اور تہجد الگ الگ نماز یں ہوتیں تو رمضان میں ان کے الگ الگ پڑھنے کا آپ سے کوئی ثبوت ملنا چاہیے تھا۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو گیارہ رکعات عام دنوں میں تہجد کے طور پر پڑھتے تھے، وہی گیارہ رکعت رمضان میں ادا کرتے تھے فرق صرف ان کے اوقات اور قیام میں طوالت کا تھا۔ ابو دائود وغیرہ کے حوالے سے مذکورہ روایت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین راتوں میں جماعت کرانے کا تذکرہ ہے، اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نمازِ تراویح کورات کے تین حصوں میں پڑھا اور تراویح کا وقت عشاء کے بعد سے اخیر رات تک اپنے عمل سے بتادیا جس میں تہجد کا وقت آگیا پس فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ عشاء کے بعد طلوع فجر تک ایک ہی نماز ہے ۔ یہی بات مولوی عبدالحی لکھنوی حنفی نے اپنے فتاویٰ اُردو۱/۴۲۹ پر لکھی ہے۔
علاوہ ازیں ائمہ محدثین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا والی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں کتاب صلوة التراویح باب فضل من قام رمضان کے تحت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہ حدیث ذکر کر کے بتادیا کہ اس کا تعلق نمازِ تراویح کے ساتھ ہے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں۲/۴۹۵،۴۹۶ پر باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان اورامام محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابو حنیفہ نے اپنی موطا میں ص۱۴۱ پر باب قیام شھر رمضانوما فیہ من الفضل قائم کیا ہے یعنی اس حدیث کا تعلق قیام رمضان کے ساتھ ہے۔ ا کے علاوہ متعددائمہ نے اس حدیث کو ۲۰رکعت والی موجوع و منکر روایت کے مقابلہ میں بطورِ معارضہ پیش کیا ہے جیسا کہ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ۲/۱۸۳، علامہ ابن ِ حجر عسقلانی نے الدریہ۱/۲۰۳، علامہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر ۱/۴۶۷، علامہ عینی نے عمدة القاری۱۱/۱۲۸ میں اور امام سیوطی نے الحادی للفتاوی۱/۳۴۸ پر ذکر کیا ہے۔
سیدنا جابر انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
''ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھائے۔ (صحیح ابنِ خزیمہ۲/۱۳۸ ، ابنِ حبان۴/۲۶،۶۴)
امام ذہبی میزان میں فرماتے اور اس حدیث کی سند وسط (حسن) ہے۔ اسی طرح ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ آج رات میرے ساتھ ایک بات ہو گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ، اے ابی وہ کیا بات ہے ؟ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا ہم قرآن نہیں پڑھتیں، اس لئے تمہاری اقتداء میں نماز ادا کریں گی۔
فصليت بهن ثمان ركعات ثم أو ترت قال فكان شبه الرضا ولم يقل شيئا " مسند ابی یعلی۳/۲۳۶) امام ہیثمی نے اس سند کو حسن کہا ہے۔ (مجمع الزوائد) ''میں نے انہیں آٹھ رکعات پڑھائیں۔ پھر وتر ادا کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا گویا اس پر رضا مندی ظاہر کی۔ '' ان احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نمازِ تراویح میں آٹھ رکعات ہے۔