شادی کے دو تین ماہ بعد رمضان کا مہینہ آ گیا۔ میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے۔ ایسا مجھ سے دو مرتبہ ہوا ہے جبکہ مجھے اس بارے میں بالکل نہیں معلوم کہ اس طرح گناہ ہو گا، برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل مجھے بتائیں۔
صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا ، یا رسول اللہ میں ہلا ک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوگیا؟ کہنے لگا! میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پا س کوئی گردن (غلام یا لونڈی) ہے جسے آزاد کرو؟ اُس نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اُس نے کہا: نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ دیر) ٹھہر گئے۔ اسی دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسئلہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا ، میں حاضر ہوں۔ فرمایا: یہ لے لو اور صدقہ کر دو۔ (صحیح بخاری، ج١۱، ص۲۵۹)
اس حدیث میں روزہ کی حالت میں جماع کرنے کا کفارہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک گردن آزاد کرے۔ یہ طاقت نہ ہو تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھے۔ یہ بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرنے سے گناہ ہو گا۔ اگر واقعی سائل کو یہ بات معلوم نہیں تھی تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔ اسے چاہیے آئندہ احتیاط کرے۔ قیامت کے دن مواخذہ علم پر ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ابنِ آدم کے قدم اپنے رب کے پاس سے نہیں ہلیں گے جب تک پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔ اس کی عمر کے متعلق کہ اسے کس چیز میں فنا کیا، جوانی کے متعلق کہ کہاں گزاری اور اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور جو جانتا تھا اس پر کتنا عمل کیا۔ (ترمذی ابواب صفة القیامه، صحیح الترمذی شیخ ناصر الدین البانی حدیث۱۹۱۹)