کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں جو واثلہ بن اسقع کی روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر پڑھا ( اللھم فلان بن فلان ) الخ نبوی طریقہ کیا ہے کہ میت پر یہی الفاظ پڑھے جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ؟
یا میت کا نام لے کر یہ دعا پڑھنی چاہئے ؟ اگر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نام لے کر پڑھنا ہے توا س کا ثبوت کس کتاب میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت کے نام لے کر دعا کی یا راوی نے غلطی سے فلان بن فلان کہا ہے ؟ اگر نام نہ لیا جائے یہ الفاظ دہرائیے جائیں تو کوئی حرج ہے ؟واثلہ بن اسقع کی روایت میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ الفاظ آئے ہیں "کہ اللھم ان فلان بن فلان فی دمتک فقہ عذاب القبر"۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنازہ میں یہ دعا میت کے نام لے کر پڑھنی چاہئے کیونکہ فلان بن فلان سے مراد ہی خاص شخص ہوتا ہے۔ صرف لفظ فلاں بن فلاں دہرا دینے کا کوئی فائدہ نہیں اس حدیث کے متعلق شیخ شمس الحق آبادی عون المعبود میں فرماتے ہیں :
" فيه دليل على استحباب تسمية الميت بإسمه واسمه ابيه وهذا إن كان معروفا و إلا جعل مكان ذلك أللهم إن عبدك او نحوه." از (ع-ع ) (مجلة الدعوة نومبر/1994ء)