کیا نماز جنازہ کے بعد کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعا کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ہمارے علاقے میں بریلوی حضرات نماز جنازہ کے بعد بیٹھ کر دعا مانگتے ہیں اور اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ سنن ابو داؤد میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا له الدعا ) جب تم میت پر نماز جنازہ پڑ ھ چکو توا س کیلئے خالص دعا کرو ''ْ اور مفتی احمد یار خان نے جاء الحق ٢٧٤ پر لکھا ہے کہ ف سے معلوم ہوتا ہے کہ فوراً دعا کی جائے اور اس میں صلیتم شرط ہے اور فاخلصوا جزا ہے اور شرط اور جزا میں تغایر چاہئے نہ کہ جزاء شرط میں داخل ہو ۔ پھرصلیتم ماضی ہے اور فاخلصوا امر ہے۔ لہٰذا نماز پڑھ چکنے کے بعد ہی دعا ہو گی ۔ اس کی وضاحت با لتفصیل فرمائیں ۔
نماز جنازہ ادا کرنے کا جو طریقہ کتب احادیث میں وارد ہے اس میں میت کیلئے دعا کرنے کے دو مواقع کا ذکر ہے ایک دعا نماز جنازہ کے اندر اور دوسری دعا قبر میں میت کو دفن کرنے کے بعد ۔ نماز جنازہ کے بعد وہیں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعا کرنے کا جو رواج بریلویوں یا دیو بندیوں میں پایاجاتا ہے ہے اس کا ثبوت نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ہے۔ قرآن مجید سے اشارة میت کیلئے دعا کے دو مواقع معلوم ہوتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کا نماز جنازہ ادا کیا اورا سکے بعداللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ :
'' اے پیغمبر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی ادا نہ کرنا اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہونا ''
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خیر القرون میں نماز جنازہ ادا کرنے اور دفن کرنے کے بعد قرب پر دعا کرنے کا طریقہ ضرور موجود تھا اور ان سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے حق میں آیت کے اندر صریحاً ممانعت کر دی ۔
اگر کسی تیسری دعا کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرورو روک دیتا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے سے تو فقہائے احناف نے بھی منع کیا ہے ۔ جیساکہ(۱١)کشف الرمز علی الکنز ۱۳۱ پر سید الحموی رقم طراز ہیں :
" لا يقوم بالدعاء بعد صلوة الجنازة لأنه يشبه الزيادة فى صلوة الجنازة"'' نماز جنازہ کے بعد دُعا کو قائم نہ کرو اس لئے کہ یہ نماز جناز میں زیادتی کے مشابہ ہے ''
۲٢)حاشیہ جو اہر النفیس ص۷۷ پر مرقوم ہے :
" لا يدعوا بعد التسليم أى ولا يقوم الإمام بالدعاء بعد صلوة الجنازة وعليه الفتوى كذا فى مجموعة الفتاوى "'' سلام کے بعد دعا نہ مانگنے یعنی امام نماز جنازہ کے بعد دعا کا قیام عمل میں نہ لائے۔ علمائے احناف کا اس پر فتویٰ ہے جیسا کہ مجموعۃ الفتاوی میں موجود ہے ''۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ حنفی علماء بھی اس دعا کو نا جائز اور مکروہ سمجھتے تھے۔ سوال میں مذکور حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا گیا ۔ ساری خرابی اسی ترجمہ میں ہے۔
اس حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ :
جب تم نماز جنازہ پڑھو توا س کیلئے خالص دعا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کہ جب تم نماز جنازہ پڑھ و لو تو اسکے لئے خالص دعا کرو ۔ یہ ترجمہ تو حدیث کی روح کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ جب میت پر نماز جنازہ ادا کی جائے تو نہایت ہی اخلاص کے ساتھ میت کیلئے دعا مانگنی چاہئے۔ یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جنازہ تو بغیر اخلاص کے ساتھ پڑھ لو اور بعد میں اخلاص کے ساتھ دعا کر لو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ اخلاص ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک جنازہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا :( اللھم اغفرلہ وارحمہ ) الخ۔ اس رقت آمیز لہجہ میں کی کہ پیچھے کھڑے ہونے والے صحابہ کرام میں سے حضرت عوف بن مالک کہتے کہ فتمنیت ان اکون ھذاالمیت میں نے تمنا کی کہ یہ میری میت ہوتی اور اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر یہ دعا کرتے۔
اسی طرح ایک صحابی سے نماز جنازہ ادا کرنے کا جو طریقہ کتاب الام۱/۲۳۹، السنن الکبری۴/۱۳۹، المنتقی لابن جارود۲۶۵ میں موجود ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ :
نماز جنازہ کا منسون طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے پھر پہلی تکبیر کے بعد سورة فاتحہ پڑھے پھر ( دوسری تکبیر کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر ( تیسری تکبیر کے بعد ) و یخلص الدعا للجناة جنازہ کیلئے خالص دعا کرے پھر آہستہ سلام پھی ردے ۔
اس حدیث میں و یخلص الدعا للجنازة سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دعا نماز جنازہ کے اند رہے نہ کہ فوراً وہاں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعا مانگی جائے اور نہ محدثین نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے ان میں سے امام ابن ماجہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے کہ :
باب ماجاء فی الدعا فی صلوۃ الجنازۃ(سنن ابن ماجہ ۱/۴۸۰)
اسی طرح امام بیہقی نے بھی السنن الکبری۲/۴ پر یوں ہی تبویب کی ہے ۔
مفتی احمد یار خان نے جاء الحق ف اور شرط و جزا کے متعلق جو تحریر کیا ہے وہ سراسر باطل ہے کیونکہ ف میں جس طرح تاخیر و تعقیب زمانی ہوتی ہے ایسے ہی مرتبی بھی ہوتی ہے اورشرط وجزا میں جو تغایر کا ذکر ہے وہ مسلم ہے مگر یہ تغایر مختلف مقامات پر مختلف ہوتا ہے۔ کبھی یہ تغایر دو الگ الگ ذاتوں کا ہوتا ہے جیسا کہ (اذا طعمتم فانشروا ) میں کھانا ایک الگ حقیقت ہے اور انتشار ایک الگ حقیقت ہے۔ کبھی یہ تغایر اطلاق و تقیید کا ہوتا ہے جیسا کہ اذا سئا لتمو ھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب میں پہلا سوال جو جملہ شریطہ میں مذکور ہے، مطلق اور جزاء میں جو سوال ہے وہ وراء حجاب سے مقید ہے۔ کبھی یہ تغایر جزو کل کا ہوتا ہے جیسا: ( واذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ ) میں قرأ ت قرآن کل ہے اعوذباللہ ا سميں کل کا جزو ہے ۔ ایسے ہی اذا صلیتم علی المیت فاخلصواله الدعا میں نماز جنازہ ادا کرنا کل ہے اور دعا اس کل کا جزو ہے جو نماز جنازہ کے اند رہی ہو سکتی ہے ۔ اس مسئلہ کی تفہیم کیلئے درج ذیل امثلہ پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ( واذا قرء القران فاستمعو اله وانتصوا ) اور جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور چپ ہو جائے۔ اس آیت میں (قرء ) فعل ماضی ہے اور شرط ہے ( فاستمعوا ) امر ہے۔ اور یہ جزا ہے اس پر ف بھی داخل ہے تو مفتی صاحب کے مفروضہ کے مطابق اس کا ترجمہ یوں ہو گا کہ جب قرآن مجید پڑھ لیا جائے تو تم غور سے سنوا ور چپ رہو یعنی تلاوت پہلے ہو جائے اور سنا اسے بعد میں جائے۔ اسی طرح ( واذا قرت القران فاستعذ باللہ من الشیطین الرجیم) (میں مذکورہ بالا تمام باتیں موجود ہیں ) اس کا ترجمہ یوں مناسب ہوگا:'' جب تم قرآن مجید پڑھ لو تو ( اعوذ باللہ من الشیطین الرجیم) پڑھو ۔یعنی قرأت قرآن پہلے اور اعوذ باللہ بعد میں پڑھی جائے۔ اسی طرح ایک حدیث میں یوں آتا ہے کہ : (واذا لبستم فابدا وا بمیامنکم)جب تم لباس پہنو تو دائیں جانب سے شروع کرو اس قسم کی قرآن مجید میں اور احادیث میں بے شمار امثلہ موجود ہیں جن سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔