کیا بچہ مردہ نا تمام پیدا ہو تو اس کانماز جنازہ ہو جائیگا ؟ یا نہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی سے واضح کریں ۔
مردہ یا نا تمام بچے کا نماز جنازہ اداکرنا شرعاً مشروع و جائز ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ :
'' مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں ۔ اس کے قریب رہ کر چلیں اور نا تمام بچے پر بھی نماز پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کیلئے رحمت اور بخشش کی دعا کی جائے ''۔(ابو داؤد (۳۱۸۰)۳/۲۰۵، احمد (۷۷۱۶،۷۷۰۹) ،۵/۳۰۲،۳۰۴، حاکم۱/۳۶۳)
علامہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۸۱میں لکھتے ہیں :
'' او ریہ بات بھی ظاہر ہے کہ '' ناتمام '' سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونکی گئی ہو۔ پھر وفات پا ئے۔ البتہ اس سے پہلے کی صور ت اگر ساقطہ ہو جائے تو ادا نہیں کی جائے گی ۔ اس لئے کہ وہ میت کہلاہی نہیں سکتی ۔ اس بات کی وضاحت ابن مسعود کی اس مرفوع رویات سے ہوتی ہے :
'' یقینا تمہاری تخلیق کا طریقہ کار یہ یہ ہے کہ چالیس دن تک وہ ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں پڑا رہتا ہے ۔ پھرا تنے ہی دن تک لو تھڑے کی شکل میں ، پھر اتنے ہی دن تک بوٹی کی طرح رہتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے '' (متفق علیہ )
لہٰذا جس بچے کے چار ماہ مکمل ہوں اورا س میں روح پھونکی گئی ہو ، وہ نا تمام پیدا ہوا ہو توا سکا نماز جنازہ ادا کیا جا سکتا ہے او ر روح پھونکے جانے سے قبل ہی سقط ہو جائے، اس کا نماز جنازہ ادا نہیں کیاجائیگا۔ کیونکہ اس کو میت نہیں کہا جا سکتا۔ بعض علماء نے یہ شرط لگائی ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو خواہ ایک دفعہ ہی اُس نے سانس لیا اور اس کی دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں :
'' جب بچے پیدا ہونے والا چیخنے تو اس کی نماز بھی پڑھائی جائے گی اور وہ وارث بھی ہوگا''۔
علاہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۸۱پر فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف اور نا قابل حجت ہے۔ اس روایت کی تفصیل التلخیص الحبیر۶/۱۴۶۔ ۱۴۷ المجموع۵/۲۵۵ اور '' نقد التاج الجامع للاصول الخمسہ (۲۹۳) پر موجود ہے۔