کیا شہید کی نماز جنازہ ُڑھی جا سکتی ہے ؟ میں نے سکی علماء سے سنا ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شہید کا جنازہ نہیں پڑھا بلکہ ایک شیخ الحدیث نے تو مجمع عام میں فرمایا کہ میدانِ معرکہ کے شہید کا جنازہ جائز ہی نہیں ۔
۲٢) جو بھائی کشمیر میں شہید ہوتے ہیں ، آپ ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کتاب وسنت سے واضح فرمائیں ؟شہید کی نماز جنازہ ضروری نہیں البتہ اگر پڑھے تو جائز ہے۔ مسنون اور باعث ثواب ہے جو لوگ شہید معرکہ کے جنازہ کو نا جائز قرار دیتے ہیں ان کے سمانے صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے :
'' جابر بن عبداللہ ب فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُحدکے مقتو لین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے پھر فرماتے۔ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا ؟ جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتای جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لحد میں آگے کر دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خونوں میں ہی دفن کر دینے کا حکم دیا نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کا جنازہ پڑھا ''۔(صحیح البخاری اصح المطابع ص۱۷۹' باب الصلوۃ علی الشھید)
ان علماء کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری کی یہ حیدث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُھد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا ۔ یہ حضرات ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے موقع پر شہیدوں کا جنازہ پڑھا ۔ کیونکہ وہ صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف ہیں ،گر حقیقت یہ ہے کہ شہداء کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث سے ثبات ہے ۔ یہ احادیث تین مختلف اوقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن سے دو موقعوں کی احادیث کے صحیح ہونے میں کوئیا ختلاف نہیں اور اگر کسی نے اختلاف کیا تو معض وہم کی بناپر کیا ہے۔ پہلا موقعہ غزوہ احد کے عالوہ دوسرے موقع پر شہید ہونے والوں کا جنازہ ۔ امام نسائی فرماتے ہیں ۔
'' ہمیں سوید بن نصر نے خبر دی انہوں نے فرمایا ہمیں عبداللہ نے ابن جریج سے خبری دی ، انہوں نے فرمایا مجھے عکرمہ بن خالد نے خبر دکی کہ ابن ابی عمار نے انہیں شداد بن الہاد سے خبر دی کہ ابن ابی عمار نے انہیں شداد بن الہاد سے خبر دی کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا پھ رکہنے لگا میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے بعض صحابہ کو تاکید فرمائی ۔ جب ایک جنگہ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ غنیمت حاصل ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تسلیم کر دیا اور اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا ۔ یوہ ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا ۔ جب آی اتو انہو ں نے اس سے وہ دیا ۔ کہنے لگا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا تمہارا حصہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لئے نکالا ہے ۔ اُ س نے وہ لے لیا اور لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آ گای ۔ کہنے لگا یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے یہ تمہارا حصہ نکال اہے ۔ کہنے لگا میں اس کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس ( مقصد ) کیلئے آپ کے پیچھے چلا ہوں کہ مجھے ( خلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہاں تیر لگے تو میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جائوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اللہ سے سچ کہو گے تو اللہ بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا ۔ اس کے بعد تھوڑی دیر گزری۔ پھر وہ دشمن سے لڑنے کیلئے اٹھاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اس کو وہیں تیر لگا جہاں اُ نے اشارہ کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ وہی ہے؟ صحابہ نے کہا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ سے سچ کہا تو اللہ نے اس سے سچ کا سلوک کیا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خود اپنے جبہ میں کفن دیا ۔ پھر اسے آگ رکھ کر اس کا جنازہ پڑھا ۔ تو جناے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند الفاظ یہ تھے اے اللہ یہ تیرا بند ہے۔ ہجرت کر کے تیری راہ میں نکلا پس شہید ہو کر قتل ہوا۔ میں اس بات پر گواہ ہوں ''۔
یہ حدیث نسائی کے علاوہ طحاوی نے شرح معانی الاثار (۱/۲۹۱) میں حاکم (۳/۵۹۵۔۵۹۶) نے اور بیہقی (۴/۱۵۔۱۶) نے بھی روایت کی ہے۔
شیخ ناصر البانی اس حدیث کے متعقل لکھتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہے ۔ اس کے تمام راوی مسلم کی شرط پر ہیں سوائے شاد بن الہاد کے کہ مسلم نے ان کی کوئی حدیث روایت نہیں کی مگر اس کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ وہ معروف صحابی ہیں اور شوکانی نے نیل الا وطار (۳/۳۷) میں نووی (المجموع۵٥/۵۶۵) کی اتباع میں جو کہا ہے کہ وہ تابعی ہیں تو یہ ان کا واضح وہم ہے اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے ۔ ( احکام الجائز ص ٦١)
تقریب میں ہے : '' شداد بن الہاد صحابی ہیں جو خندق اور اس کے بعد کی جنگوں میں شریک ہوئے ''۔
اس صحیح اور صریح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید معرکہ کا جناہ خود پڑھایا ہے ا گر اُحد کے شہیدوں کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھا ہو تو یہ حدیث ہی جنازے کے سنت ہونے کی کافی دلیل ہے ۔
اگر کوئی شخص اعتراض برائے اعتراض کرنا چہائے تو کہہ سکتا ہے کہ فصلی علیہ کا معنی یہ ہے کہ اس کیلئے دعا کی ۔ لیکن اگر یہ بات تسلیم کی جائے تو نامز جنازہ سرے سے خمت ہو جاتی ہے کیونکہ میت سامنے رکھ کر صرف دعا نہیں کی جاتی بلکہ جنازہ پڑھا جاتا ہے اور اس کیلئے فصلی علیہ کا لفظ ہی استعمال کی اجتا ہے ۔
دوسرا موقعہ : آٹھ سال بعد شہدائے اُحد کا جنازہ ۔ امام بخاری باب الصلوٰة علی الشہید میں فرماتے ہیں :
'' عقبہ بن عامر فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اور آپ اپنے اُحد والوں پر اس طرح جنازہ پڑھا جس طرح آپ میت پر جنازہ پڑھتے تھے ۔ پھر واپس آکر منبر کی طرف آئے اور فرمایا میں پہلے جا کر تمہاری ضروریات کا انتظام کرنے والا ہوں اور اللہ کی قسم اس وقت میں اپنا حوض دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم میں تمہارے متعلق اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھ ڈرہے کہ تم ایک دوسرے کے مقابلے پر دنیا میں رغبت کرو گے''
مسند احمد ، بیہقی اور دار قطنی میں اسی روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ آپ نے شہداء اُحد کا یہ جنازہ آٹھ سال بعد پڑھا۔
اس حدیث سے شہید کا جنازہ ثابت ہوتا ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے باب الصلویٰۃ علی الشھید میں نقل فرمایا ہے۔
بعض لوگ جنہوں نے طے کر رکھا ہے کہ شہید کا جنازہ تسلیم ہی نہیں کرنا ، اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں جا کر شہداء اُحد کیلے دعا کی ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کا جنازہ پڑھ کیونکہ صلوٰة کا معنی دعا ہے۔ مگر حدیث کے الفاظ میں اس تاویل کی گنجائش ہی نہیں ۔ الفاظ یہ ہیں (فصلی علی اھل احد صلاتہ علی امیت )یعنی آپ نے اُحد والوں پر اس طرح صلوٰة پڑھی جس طرح میت پر پڑھتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے با قاعدہ ان کا جنازہ پڑھا تھا ۔ امام شو کانی نے فرمایا کہ صلاتہ علی المیت کے الفاظ اس تاویل کی تردید کرتے ہیں کہ صلوٰة سے مراد دعا ہے(نیل الا وطار ص۴۴، ج۴٤)
علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دفن ہونے سے پہلے کسی وجہ سے جنازہ نہ پڑ ھ سکتے تو قبر پر جا کر صفیں بنا کر جنازہ پڑھتے تھے۔ امام بخاری باب الصلوۃ علی القبر بعد ما یدفن میں اس سلسلہ میں دو واقعات ذکر فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
'' ہمیں حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی ۔ انہو ں نے فرمایا مجھے سلیمان شیبانی نے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا میں نے شعبی سے سنا۔ انہوں نے فرمایا میں مجھے اُ س شخص نے خبر کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت کروائی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جنازہ پڑھا، سلیمان فرماتے ہیں میں نے شعبی سے کاہ کہ اے ابو عمرو آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی تو انہوں نے فرمایا ابن عباس نے '' (صحیح بخاری ۱ اصح المطاقع ص۱۷۸)
شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجررحمۃ اللہ نے باب الاذان بالجنازہ میں اس حدٰث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ صحابی جن کی قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھا طلحہ بن براء بن عمیر البلوی تھے۔ دوسری حدیث :
'' ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک سیاہ مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا وہ فوت ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وقت کا علم نہ وہ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اسے یاد کیا اور فرمایا اس آدمی کا کیا ہو ا؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ فوت ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم نے مجھ اطلاع کیو ں نہیں دی ۔ انہوں نے کہا اس کا واقع اس طرح ہوا۔ غرض انہوں نے اس معاملے کو معمولی قرا رد یا ۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ اس کی قبر بتاؤ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ آپ اس کی قبر پر گئے اور اس کا جنازہ پڑھا ''۔ (صحیح بخاری ، ص۱۷۸)
حافظ ابن حجر باب الاذان بالجنازة میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ عورت تھی اس کا نام اُم مجمن تھا ۔
صحیح بخاری میں شہدائےاحد کے آٹھ سال بعد جنازہ سے ثابت ہوتا ہے کےاگر پہلے فرصت نہ مل سکے تو کئی سال بعد بھی میت کا جانزہ پڑھا جا سکتا ہے جس میں شہید بھی شامل ہیں اور اگر وہ احادیث ثابت ہو جس میں ذکر ہے کہ رسول اللہ نے اُحد کے موقع پر بھی شہداء کا جنازہ پڑھا تو آٹھ سال بعد جنازہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے جناز ہ پڑھاہو تو کئی سال بعد دوبارہ قبر پر بھی جنازہ جائز ہے۔
تیسرا موقعہ جنگ احد کے موقع پر شہداء احد کا جنازہ ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ صحیح بخاری میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہی مروی ہے کہ شہداء اُحد کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھایا۔سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی اس مفہوم کی روایت مروی ہے مگر جب دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر شہداء کا جنازہ پڑھا ہے توا سے تسلیم کرنا پڑے گا ۔کیونکہ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ ایک واقعہ کے متعلق جب ایک آدمی یہ بیان کرے کہ یہ واقعہ نہیں ہوا اور دوسرے بیان کریں کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور دونوں سچے ہوں تو اس شخص کی بات تسلیم کی جائے گی جو واقعہ ثابت ہونے کا راوی ہے۔ دوسرے کے متعلق سمجھا جائے گا کہ اسے علم نہیں ہو سکا۔ امام شو کافی فرماتے ہیں :
(( و أيضا أحاديث الصلوة قد شد من عضدها كونها مثبتة الأثبات مقدم على النفى وهذا مرجح معتبر))'' یعنی شہداء اُحد پر جنازہ پڑھنے کی احادیث کو قوی قرار دینے والوں کو اس بات سے مزید قوت حاصل ہوتی ہے کہ یہ احادیث جنازہ کا اثبات کرتی ہیں اور اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے اور ترجیح کی یہ وجہ ایسی ہے کہ ماننی پڑتی ہے ''۔ ( نیل الا وطار ج۴٤، ص۴۴)
رہا یہ سوال کہ سیدنا جاب ر اور انس جلیل القدر صھابی سے یہ بات کسیے مخفی رہ گی تو یہ کوئی بعید بات نہیں ۔ جنگ اُحد میں مسلمانوں کو لاحق ہونے ولای پریشانی کی حالت میں تمام لوگ اگر جانچے پر نہ پہنچ سکے ہوں اور نہ انہیں اس بات کا علم ہوا ہو تو یہ ممکن ہے ۔ خصوصاً سیدنا جابر کو اس کا علم نہ ہوا اور جنازے پر پہنچ نہ سکنا تو عین ممکن ہے کیونکہ وہ اُحد کے معرکے میں شریک ہی نہیں ہو سکے جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے :
(( وكان جابر قد أطاع أباه يوم أحد و قعد لإجل أخواته ثم شهد الخندق و بيعة الشجرة ))'' اور جابررضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُحد کے دن اپنے والد کی اطاعت کی تھی اور اپنی بہنوں کی وجہ سے گھر میں رہ گئے تھے۔ پھر خندق اور بعیت شجرہ (بیعت رضوان) میں حاضر ہوئے '' ۔ ( سير اعلام النبلاء 190,ج3)
خود ان کا بیان ہے کہ والد صاحب کے منع کرنے کی وجہ سے بد ر اور اُحد میں شریک نہیں ہوا ۔ جب وہ شہید ہو گئے تو میں کسی غزوہ سے پیچھے نہیں رہا ۔ (صحیح مسلم ، حدیث۱۸۱۳)
سیدنا انس بھی اس وقت صغیر النس تھے۔ اب دور حاضر کے معروف سلفی محدث شیخ ناصر الالبانی حفظہ اللہ کی کتاب احکام الجنائر میں سے دو احادیث ان پر شیخ صاحب کے کلام کا ترجمہ نقل کرتا ہوں :
(( عن عبد الله ابن الزبير أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم أحد بحمزة فسجى ببردة ثم صلى عليه فكبر تسع تكبيرات ثم اتى بالقتلى يصفون و يصلى عليهم و عليه معهم.))'' عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن حمزہ کے متعلق حکم دیا تو انہیں ایک چادر کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا پھر آپ نے ان پر جنازہ پڑھ ااور ان پر نو تکبیریں کہیں ۔ پھر دوسرے مقتول لائے گئے۔ وہ صفوں میں رکھے جاتے تھے اور آپ انکا جنازہ پڑھتے تھے اور ان کے ساتھ حمزہ کا جنازہ بھی پڑھتے تھے''۔
اسے طحاوی نے معانی الآثار (۱/۲۹۰) میں روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہے ۔ اس ے تمام راوی معروف ثقہ ہیں اور ابن اسحق نے تحدیث کی تصریھ کی ہے اور اس کے بہت سے شواہ دہیں جن میں کچھ شواہد میں نے ( التعلیقات اجیاد ) میں مسئلہ (۵۷) میں ذکر کیے ہیں ۔ ( احكام الجنائز و بدعها, ص 82)
'' عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں جبر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ پر(نماز جنازہ کیلئے) کھڑے ہوئے، انکے متعلق حکم دیا تو ان کی تایری کر کے انہیں قبلہ کی طر فرکھ دیا گیا پھر آپ نے ان پر نو تکبیرین کہیں پھر دوسرے شہداء کو انکے ساتھ اکٹھا کیاجب کوئی شہید لایا جاتا حمزہ کے ساتھ رکھ دیا جاتا ۔ آپ اس پر اور اس کے ساتھ دوسرے شہید پر جنازہ ُڑھتے یہاں تک کہ آپ نے اس پر اور دوسرے شہداء پر بہت دفعہ نماز جنازہ پڑھی ''۔
اسے طبرانی نے اپنی معجم کبیر (۳٣/۱۰۷،۱۰۸)میں محمد بن اسحق کی سند سے روایت کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں مجھے محمد بن کعب قر طنی اور حکم بن عتیبہ سے مقسم اور مجاہد سے حدیث بیان کی ان دونوں نے ابن عباس سے بیان کیا ۔
میں کہتا ہوں : یہ جید سند ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اس میں محمد بن اسحاق کی تحدیث کی تصریح کی ہے تو اس کی تدریس کا شبہ دور ہو گای ۔ شیخ البانی کا کالم بقدر ضرورت ختم ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شہید معرکہ کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث سے ثابت ہے ۔ اگر جنگ اةد کے موقع پر شہداء کے جنازہ والی احادیث کو صحیح تسلیم کیا جائے تو کوئی اشکال ہی نہیں رہتااور اگر ان کی صحت پر اطمینان نہ بھی ہو تو گلے مین تیر لگنے سے شہید ہونے والے صحابی کا جانزہ اور شہداء اُحد پر آٹھ سال بعد جنازہ والی احادیث کے بعد شہدائے معرکہ سے انکار کی کوئی گنجا ئش نہیں رہتی ۔
غائبانہ نماز جنازہ
کشمیر میں شہید ہونے والے بھائیوں کی غائبانہ نماز جنازہ درست ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
'' ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی موت کی اطلاع اس دن دی جس دن وہ فوت وہا اور صحابہ کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف نکلے ان کی صفیں بنائیں اور اس پر چار تکبیریں کہیں ''۔(صحیح البخاری اصح المطابع ص ۱۷۸)
اس سے غائبانہ نماز جنازہ کا ثبوت ملتا ہے اور جس شخص کا جنازہ میت حاضر ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے غائب ہونے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ شہید کے جنازہ کے مسنون ہونے کے دلائل اوپر گزر کچے ہیں ۔ بعض لوگ جنازہ غائبانہ کے سرے سے ہی منکر ہیں ۔ یہ صرف نجاشی کے ساتھ خاص تھا کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے زمین کے تمام پردے ہٹا دئیے گئے اور نجاشی کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے۔ مگر یہ بات درست نہیں ۔ امام نودی نے المجموع ( ٥/ ٢٥٣) بحوالہ احکام النجائز ) میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ روایت خیالا ت میں سے ہے یعنی اس کی حقیقت کچھ نہیں ۔
رہا نجاشی کیس اتھ خاص ہونا تو یہ بات اس لیے درست نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل امت کیلئے نمونہ ہے ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة ) ہاں اگر کسی علم کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کود وضاحت فرما دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے تو الگ بات ہے اوریہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ صرف اس شخص کا غائبانہ جنازہ درست ہے جس کا جنازہ اس علاقہ میں نہ پڑھا گیا ہو جہاں وہ فوت ہواہے ۔ ان کا استدلال ان الفاظ سے ہے جو اسی حدیث کی بعض روایات میں آئے ہیں کہ" ان اخالکم قد مات بغیر ار ضکم" ، یعنی تمہارا ایک بھائی تمہارے علاقے سے باہر فوت ہو گیا ۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ نجاشی کا جنازہ وہاں نہیں پڑھا گیا تھا۔
ان حضرت کا علم و فضل مسلم ہونے کے باوجود حدیث کے الفاظ میں یہ صراحت کم از کم مجھے کہیں نہیں ملی کہ نجاشی کا جانزہ وہاں کسی نے نہیں پڑھا تھا۔ علاقے سے باہر فوت ہونے کی وجہ سے غائبانہ جنازہ پڑھنے کی یہ تو جیہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے لئے وہاں پہنچنا مشکل ہے۔
بہر حال شہدائے کشمیر کا جنازہ غائبانہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ وہ علاقہ ہندوئوں کے تسلط میں ہے اور شہداء کی میتیں بعض اوقات کشمیری مسلمانوں کو دے دی جاتی ہیں اور ان کا جنازہ پڑھتے ہیں ۔ بعض اوقات انہیں دی ہی ہنہیں جاتیں کہ ان کا جنازہ پڑھا جا سکے۔بعض اوقات عام آبادی کے مشتعل ہونے کے خوف سے انہیں شہادتوں کی خبر ہی نہیں ہونے دی جاتی ۔ خصوصاً بارڈر ایرا میں شہید ہونے والے بھائیوں کی میتیں تو ہندو آرمی حتی الوسع اٹھانے ہی نہیں دیتی ۔ نہ ان پر جنازہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں شہدائے کمشیر کا جنازہ ان حضرات کے قول کے مطابق نجاشی کے جنازے کے مطابق بھی مسنون ہے۔
اگر غور کیا جائے تو طلحہ بن رباء اور ام مججن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جنازے ادا ہو چکنے کے باوجود ان کی قبر پر آپ کا جنازہ ادا کرنا اور شہداء احد کا جنازہ پڑھنے کے باوجود آٹھ سال بعد ان کی قبروں پر نماز جنازہ ادا کرنا بھی جنازہ غائبانہ ہی ایک صورت ہے کیونکہ میت تو نگاہوں سے غائب ہے۔ اسے حاضر کا جنازہ کس طرح کہا جا سکتا ہے اور جب نگاہوں سے ہی غائب ہو گیا تو پھر فاصلے کی کمی یا زیادتی میں کیا فرق پڑتا ہے ۔