سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) قبروں والی مسجد میں نماز

  • 14684
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2000

سوال

(75) قبروں والی مسجد میں نماز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ مساجد جن میں قربیں ہوں کیا ان مساجد میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کریں۔ ( اکرب علی ، رشیدہ پورہ لاہور )

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی مساجد میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے قبروں پر مساجد بنانے والوں کو معلون قرار دیا ہے اور قبروں پر مساجد بنانے سے قبروں پر اور قبروں کی طرف نمازپڑھنے سےر وک دیا ہے ۔ جندن بن عبداللہ بھی کہتے ہیں میں نے اللہ کےر سول   صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات سے پہلے ان سے سنا۔ انہوں نے کچھ باتیں ذکر کیں:

((وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ.))
    '' کہ جو تم سے پہلے تھے ( یہود و نصاری ٰ ) وہ اپنے ابنیاء اور ینک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے خبر دار تم قبروں کو مسجد نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ''۔ ( رواہ مسلم (۵۳۲) ابو داؤد )
    ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا االلہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ۔
                                            (بخاری (۳۹۰٠) مسلم (۵۲۹٩)
    ان احادیث سے ثبات ہو اکہ قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس روک دیا ہے ۔ جب قربوں پر مسجدیں بنانے سے روک دیا گیا ہے تو ایسی مساجد میں نامز پڑھنی بالا ولی درست نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت کا اول ہے کہ وسیلہ ( ذریعہ کی حرمت اس چیز کے حرام ہونے کاو ملتزم ہوتی ہے جو اس وسیلہ سے مقصود ہو مثلاً شریعت نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے اور اس حرمت کے اندرا س کے پینی کی حرمت بھی موجود ہے ۔ یہاں شراب کی خرید و فروخت وسیلہ ہے اور اس کامقصود شراب نوشی رکان ہے۔ اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ قربوں پر مساجد بنانا کا حرما ہونا یہ صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ امز کی وجہ سے ہے۔ جس طرح گھروں اور محلوں میں مساجد بنانے کا حکم صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ نماز کیلئے ہے۔ مساجد بنانے کا حکم کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم مسجدیں بناتے جائیں اور ان میں کوئی بھی نماز پڑحنے کیلئے نہ آئے ۔ یہ بات آپ اس مثال سے سمجھیں کہ ایک شخص کسی غیر آباد جنگل میں مسجد بانتا ہے جہاں کوئی نہیں رہتا اور نہ کوئی نماز پڑھنے کیلئے آتا ہے تو ایسے شخص کو اس مسجد بنانے کا کوئی ثوا ب نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے وہ گنہگار ہو کیونکہ اُس نے مال کو ایسی جگہ پر صرف کیا ہے جہاں سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچتا ۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح شریعت نے مساجد بنانے کا حکم دیا ہے تو ضمناً ان میں نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے ( کیونکہ مسجد بنانے کا مقصد نماز ادا کرنا ہی تو ہوتا ہے ) اسی رح جب شرعیت نے قربوں پر مسجدیں بنانے سے روکا ہے تو ضمناً ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے بھی روک اہے اور یہ بات کسی بھی عقلمند آدمی سے مخفی نہیں ۔ اس لئے امام احمد بن جنبل رحمۃ اللہ  نے ایسی مساجد میں ادا کی گئی نماز کو باطل قرار دیا ہے لیکن مسجد نبوی اس حکم سے متشنی ٰہے کیونکہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا نا لے کر اس کی فضیلت بیان کی ہے جو دوسری قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نہیں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا میں راس مسجد میں نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں روضۃ من ریاض الجنۃ بھی ہے ۔ جس طرح بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اس کی فضیلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم تھی بعد میں مشرکین نے بت رکھ دئیے مگر رول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   ہواں نماز پڑھتے تھے اگر مسجد نبوی میں نامز کو فاسد اور اندر ست قرار دے دیں تو مسجد نبوی کی فضیلت کو ختم کر کے دوسری مساجد کے برابر قرار دینے کے مترادف ہو گا جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں پھر یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہ مسجد اپنے اور مسلمانوں کیلئے بنائی تھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی جبکہ قربیں ولید بن عبدالمالک کے دور میں داخل کی گئی ہیں اس وقت مدینہ رالرسول میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ پھر بھی رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کی قبر کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے