کیا ایک مسجد میں دو جماعتیں ہو سکتی ہیں یا صرف ایک ہی جماعت کا حکم ہے ؟
ایک ہی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا جوا زصحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، تابعین عظام اور فقہاء محدثین رحمہم اللہ کا اس پر عمل رہا ہے۔ سنن ابو داؤد میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
'' رسول اللہ ؑ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اکیلا نماز پڑ ھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ایسا کوئی آدمی نہیں جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔'' (سنن ابو داؤد ۱/ ۱۵۷، ترمذی ١ /۴۱۷ )
ترمذی میں یہ الفاظ مروی ہیں :
'' تم میں سے کون شخص ہے جو اس کے ساتھ اُجر ت میں شریک ہو ؟ ایک آمدی کھڑا ہو ااور اُ س نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی''۔
یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے اور مسدن احمد ۳/۵، ٤٥، ۸۵ ۔ سنن درامی ۱/ ٣١٨ مستدرک حاکم، محلی ابن حز ٤/ ۲۳۸ ۔ امام حاکم نے مستدرک حاکم میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور تلخیص میں امام ذہبی نے حاکم کی موافقت کی ہے ۔ علامہ زیلعی حنفی نے نصب رایہ میں اور علامہ سیوطی نے فوت المغتذی میں لکھا ہے کہ جس آدمی نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت ثانیہ مسجد میں جائز ہے اور اگر کوئی شخص اس وقت مسجد میں آجائے جب جماعت ہو چکی ہو تو وہ دوبارہ کسی کے ساتھ مل کر جماعت کی صورت میں نماز ادا کرے تو یہ صحیح مشروع اور جائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ( ایکم یتجر علی ھذا الا رجل یتصدق علی ھذا )اس پر شاہد ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی اس حدیث کا یہی مفوہم سمجھا اور وہ دوسری جماعت کے قائل و فاعل تھے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں لکھاہے کہ :