سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) عورت کی امامت کا مسئلہ

  • 14654
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 3491

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک عورت دوسری عورت کی جماعت کرا سکتی ہے اور اگر کر اسکتی ہے تو اس کا طریق کار کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک عورت دوسری عورت کی جماعت کار اسکتی ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ باقی عورتوں کے وسط میں کھڑی ہو مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو، امام ابو داؤد نے سنن ابو داؤد مع عون۲/۲۱۱ پر باب امامته النساء میں لکھا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اُم روقہ بنت عبداللہ بن حارث کے گھر تشریف لاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کیلئے ایک موذن مقرر کیا جو اذان دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایا کہ :

(( وأمرها أن تؤم أهل دارها.))

    '' تو اپنے گھر والوں کی امامت کیا کر ۔''
صاحب عون نے لکھا ہے کہ :

" ثبت من هذا الحديث لأن إمامة  النسآء وجماعتهن صحيحة ثابتة من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أمت النسآء عائشة رضى الله عنها و أم سلمة رضى الله عنها فى الفرض والترويح"

    '' اس حدیث سے ثبات ہوتا ہے کہ عورتوں کا امات اور جامعت کرانا صحیح اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے ثابت ہے ۔ سیدنہ عائشہ اور اُم سلمہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا عورتوں کی فرائض اور تراویح میں امامت کراتی تھیں۔ ابو بکر بن ابی شیبہ اور حاکم نے سیدنا عطا سے بیان کیا ہے کہ :

(( عن عائشة أنها كانت أمت النسآء فتقوم منهن فى الصف.))

    '' سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتی اور اُم سلمہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں :

(( إنها أنت النسآء فقامت وسطهن ))
    '' انہوں نے عورتوں کی امات کرائی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں ''۔
    مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت عورتوں کی درمیان میں کھڑے ہو کر امامت کرا سکتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ