قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾...الأحزاب
'' بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام بھیجو ''۔(الاحزاب : ۵۶)
اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے۔ کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز کی صراحت بھی آتی ہے جیسا کہ سنن دارقطنی میں حدیث ہے :
((عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ , فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِي صَلَاتِنَا؟ , قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ يَسْأَلْهُ , ثُمَّ قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَيَّ فَقُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى...))
'' ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اس نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلام تو ہم نے جان لیا ہے پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کیسے بھیجیں جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اللھم صل علی الخ کہو ''۔ (سنن دارقطنی۱/۳۵۵)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام تو پہلے ہی پڑھتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی توا سکے بعد انہوں نے سالم کے ساتھ صلاۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی۔
مذکورہ بالا آیات سورہئ احزاب کی ہے جو ٥ھ کو نازل ہوئی ۔ا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سالم پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم جو تشہد میں سلام جو پہلے ہی پڑھتے تھے۔ اب انہوں نے نے اس کے ساتھ صلاۃ کا بھی اضافہ کر لیا ۔ یعنی جہاں سلام پڑھنا ہے، اس کے ساتھ ہی صلاۃ پڑھی ہے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر ہم پہلے تشہد میں صرف سلام پڑھیں ، صلاۃ نہ پڑھیں تو وسلمو تسلیماً پر تو عمل ہوگا لیکن صلو ا علیہ پر عمل نہیں ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری تشہد سے پہلے تشہد میں صلاۃ پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ سعد بن ہشام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
((قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّ التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا.))
'' میں نے کہا اے اُم المؤ منین ، آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں تو انہوں نے کہا ہمر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور طہارت کیلئے اپنی تیار کر دیتے ۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے پھر نو رکعتیں ادا کرتے آٹھویں کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے۔ پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد اس کے نبی پر درود بھیجتے اور دعا کرتے پھر سلام پھیر دیتے۔
(مسند ابی عوانہ ۲/۳۲۴، بہیقی۲/۵۰۰، سنن نسائی )
اس حدیث میں واضح ہو گیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکری قعدہ سے پہلے والے قعدہ میں درود پڑھا ۔ لہٰذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آخری قعدہ سے پہلے والے قعدہ میں دورود پڑھنا چاہئے۔
نوٹ: اس مسئلہ پر دوسرے فریق کے دلائل بھی موجود ہیں انشاء اللہ بعد میں ان پر مفصل بحث کریں گے۔ بہر حال یہ ایک فریق کا موقف ہے۔