عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت عدم رفع الیدین کے بارے میں بتائیں کہاں تک صحیح ہے ؟ فقہ حنفی اور حدیث کا تقابل بھی چند مسائل میں بتائیں۔
سید نا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کے عظیم شہزادے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آنے سے تین دن قبل ان کے متعلق بشارت دی جیسا کہ کتاب الثقات لابن حبان ٣ /۴۲٤،۴۲۵ اور کتاب مشاہیر علماء الامصار لابن حبان کے ص ۴٤ رقم۶٧٦ پر مرقوم ہے۔
آپ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی خدمت پر مامور فرمایا تھا اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنایہ ۵٥/ ۷۰ پر وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ ان وفود میں کیا ہے جو ۹ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تھے۔ علامہ عینی نے عمدۃ القاری شرح بخاری ٥/۲۷۴ قدیم میں فرمایا ہے کہ :
'' وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ میں۹ھ میں مسلمان ہوئے ''۔
یہ صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین ذکر کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم مع شرح النووی١/۱۷۳، ابن خزیمہ ۱/۳۴٦ ، ابن حبان ۳/۱۶۷، اور ابی عوانہ ۶/۹٧ وغیرہ پر مروی ہے۔ پھر آپ دوبارہ آئندہ سال ( یعنی ۱۰ھ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو پھر رفع الیدین کا مشاہدہ کیا ۔ ابن حبان ۳/۱۶۸ اور سنن ا بو داؤد وغٰرہ میں ہے ۔ علامہ سندھی حنفی حاشیہ نسائی ص ۱۴۰پر راقم ہیں۔
'' مالک بن الحو یرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ آپ کی عمر کے آخری حصہ میں نماز پڑھی ا ور ان دونوں کی روایت میں رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے رفع الیدین کا تذکر ہے جو رفع یدین کے باقی رہنے اور اس کے منسوخ ہونے کے دعوے کو باطل کرنے کی دلیل ہے ''۔
حافظ ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیب ۶/۳۲ رقم ۷۵٥٥ میں ر اقم ہیں ۔