سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) زبان سے نیت کرنے کا حکم

  • 14628
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2012

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیانماز ادا کرتے ہوئے زبان سے نیت اس طرح کرنا کہ چار رکعت نماز فرض وقت نماز ظہر واسطے اللہ تعالیٰ کے پیچھے اس امام کے اللہ اکبر، جائز ہے یا نہیں کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بات کا کوئی ثبوت مروی ہے وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نیت کے معنی قصد اور ارادہ ہے تمام اہل علم کا اتفق ہے کہ قصد و ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا امام ابن قیم راقم ہیں کہ :

" ألنية هى القصد و العزم على فعل الشىء و محلها القلب لا تعلق لها باللسان أصلا"(اغاثة اللفهان /156)

    '' نیت کے کسی قیام کے قصد و ُپختہ ادارے کا نام ہے اور اس کا محل دل ہے اور زبان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ''۔
    مولانا انور شاہ شمیر ی حنفی نے بھی فیض الباری ١۱/۸ ٨پر لکھا ہے کہ فالنیۃ امر فلبی ' نیت دل کا معاملہ '' ہے۔ لہٰذا اگر نمازی نے دل سے نیت کر لی تو تمام آئمہ کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہو گی ۔ زبان سے نیت کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین رحمتہ اللہ علیہم سے ثابت ہے۔ امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے زاد المعاد ۱١/ ۲۰۱  پر لکھا ہے:

" كان صلى الله عليه وسلم إذاا قام إلى الصلوة قال : الله |أكبر  ولم يقل شيئا قبلها ولا تلفظ بالنية ألبتة ولا قال أصلى لله صلوة كذا مستقبل القبلة أربع ركعات أماما أو مأموما ولا قال أداء ولا قضاء  ولا فرض الوقت  وهذه عشر بدع لم ينقل عنه أحد قط بإسناده صحيح ولا ضعيف ولا مسند ولا مرسل لفظه واحد منها  ألبتته بل ولا عن أحد من أصحابه ولا استحسنه  أحد من التابعين  ولا الأئمة الأربعة"

   '' نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اس سے پہلے کچھ نہ کہتے اور نہ زبان سے نیت کرتے اور نہ یوں کہتے کہ میں چار رکعت فلاں نماز منہ طرف قبلہ کے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور نہ ادایا قضا یا فرض وقت کا نام لیا ہو یہ دس بدعات ہیں اس بارے میں ایک لفظ بھی کسی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سند صحیح یا سند ضعیف یا مرسل سے قطعاً نقل نہیں کیا بلکہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی ایسا منقول نہیں اور نہ ہی کسی تابعی نے اسے پسند کی ااور نہ آئمہ اربعہ نے ''۔
مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی حنفی لکھتے ہیں کہ :

’’ وحال أنكه  از آن سرور عليه وعلى اله الصلاة والسلام ثابت است نه بروايت  صحيح ونه  بروايت  ضعيف ون از اصحاب كرام و تابعين عظام كه بزبان نيت كرده باشنده بلكه  چوں  اقامت می گفتند تکبیر تحریمہ میفر مودند پس نیت بزبان بدعت  باشد‘‘
    '' زبان سے نیت کرنا رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمتہ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے تھے زبان سے نیت بدعت ہے ''۔
                                 ( مکتوبات دفتر اول حصہ سوم مکتوب نمبر ١٨۱۸۶ص۷۳٣)

امام ابن تيميہ ﷫ فرماتے ہیں :

" ولو مكث أحدهم عمر نوح  عليه السلام يفتش هل فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم  أو أحد  من أصحابه  شيئا من ذالك  لما ظفر  به إلا أن يجاهر بالكذب البحت  ولو كان فى هذا خير لسبقونا إليه ولدلونا  عليه"
    ''اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو وہ ہر گز کامیاب نہیں ہوگا سوائے سفید جھوٹ بلونے کے اگر اس میں بھلائی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے پہلے کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے ''۔ (اغائۃ اللھفان ١۱/۱۵۸) 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ