کیا اذان کے کلمات میں شہادتیں کے بعد أشھد ان امیر المؤ منین علی ولی اللہ وغیرہ کے کلمات کہنا درست ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں؟
اذان شعائر اسلام میں سے ہے ان کے الفاظ وہی درست ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔ اذان میں نہ اپنی طرف سے اضافہ جائزا ہے اور نہ کمی ۔ جو شخص اذان میں بعض کلمات کا اضافہ کرتا ہے وہ بدعتی ہے بلکہ لعنت کا موجب ہے۔ سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدر بہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت اذاب کے بارے میں مروی ہے۔ اس میں یہ بات مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت لوگوں کو نماز کیلئے جمع کرنے کے واسطے نا قس بجانے کا حکم ید اتو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں نا قوس ہے تو میں نے ان کو کہا، اے اللہ کے بندے کیا تو ناقس بیچے گا تو اس نے کہا آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے۔ تو میں نے کہا میں نماز کیلئے اس کے ذریعے لوگوں کو ندا دوں گا۔ تو اس نے کہا کہ میں تجھے ایسی بات پر راہنمائی کروں جو اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں ۔ توا سنے کہا کہ تو کہہ:
"اَلله اَکبَر اَللّه اَکبَر. اَلله اَکبَراَلله اَکبَر. اَشھَدُ اَن لّٰا اِ لٰه اِلَّا الله. اَشھَدُ اَن لّٰا اِ لٰه اِلَّا الله. اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا رَّسُولُ الله. اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا رَّسُولُ الله. حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ. حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ. حَیَّ عَلَی الفَلَاح. حَیَّ عَلَی الفَلَاح. اَلله اَکبَر. اَلله اَکبَر. لا اِلٰه اِلَّا الله"صبح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خواب سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' یقینا یہ خواب سچا ہے اگر اللہ نے چاہا '' ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' بلالا رضی اللہ عنہ کو یہ کلمات سکھا دو تاکہ وہ اذان کہے کیونکہ اس کی آواز تجھ سے بہتر ہے ''۔ ( منتقی لا بن جا رود (۱۵۸) ابو داؤد (۴۹۹) ابن ماجہ (۷۰۶) ترمذی (١۱۸۹) احمد ۴٤/۴۳ دارمی۱/۲۱۴، ابن حزیمہ ١۱/۱۸۹،۱۹۱١،۱۹۲)۔
اسی طرح فجر کی اذان میں" حی علی الفلاح" کے بعد دوبار" الصلوٰۃ خیر من النوم" کہنا بھی مشروع ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
'' صبح کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعدالصلوٰۃ خیر من النوم کہنا سنت میں سے ہے''۔( ابنِ خزیمہ (۳۸۶)۱/۲۰۲،دارقطنی۱/۲۴۳، بیہقی۱/۴۲۳، ابن منذر۳/۲۱)
اور اصول میں یہ بات متحقق ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ من السنۃ کذا مسند اور مفروع حدیث کے حکم میں ہے۔ امام نودی نے المجموع ٥/ ٢٣٢، ابن ہمام نے '' التحریر '' اور اس کے شارح ابن امیر الحاج نے ٢ /٢٢٤ پر جمہور اصولیین و محدثین سے یہی موقف نقل کیا ہے۔ اسی طرح سیدنا ابو محزورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان سکھلائی اور فرمایا صبح کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم الصلوٰۃ خیر من النوم کہا کرو۔ یہ حدیث سیدنا ابو محزورہ رضی اللہ عنہ سے متعدد طریق کے ساتھ درج ذیل کتب میں مروی ہے مسند احمد۳/۴۰۸، ابو داؤد (۵۰۱) نسائی (۲/۷٧) ، ابن خزیمہ (۳۸۵) دارقطنی۱/۲۲۴، بیہقی۱/۴۲۲، ابن حبان (۲۸۹) تاریخ الکبیر۱/۱۲۳، عبدالرزاق۱/۴۷۲، حلیہ الاولیاء۸/۴۱۰
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ فجر کی پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہا جاتا ہے ۔ (طحاوی ۱/۱۷۳، بیہقی ۱/۴۲۳، التلخیص الحبیر ۱/۲۰۱)
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے اذان میں تر جیع بھی ثابت ہے یعنی شہادتین کے کلمات کو دوبارہ کہنا ۔ پہلی بار آہستہ دوسری بار اس سے اونچی آواز میں ۔ مذکورہ بالا صحیح احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اذان کے مذکورہ کلمات ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ ان میں نہ اضافہ جائز ہے اور نہ ہی کمی۔ اس اذان میں اشھد ان علیا ولی اللہ وغیرہ کے کلمات نہیں ہیں جو لوگ ان کلمات کا اضافہ کرتے ہیں ، وہ احاداث فی الدین کے مر تکب ہیں اور بدعتی ہیں ۔ فقہ جعفریہ میں بھی ان کلمات کا اذان میں کہنا ثابت نہیں ہے بلکہ فقہ جعفریہ کی رو سے یہ کلمات اذان میں کہنا گناہ ہے اور کہنے والا لعنت کا مستحق ہے۔
فقہ جعفریہ کی صحاب اربعہ وغیرہ میں مر قوم اذان اور اہل سنت کی اذان میں فرق صرف یہ ہے کہ حی علی الفلاح کے بعد فقہ جعفریہ کی طرف سے حی علی خیر العمل دو مرتبہ کہنا ہے۔ باقی اذان کے الفاظ وہی ہیں جو اہل سنت کی اذان کے ہیں ۔ شیعہ مذہب کی معتبر کتاب الفقیہ من لا یحضرہ افلقیہ ص۱/۱۸۸٨ پر ابن با بویہ قمی نے اذان کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔
''یہی اذان صحیح ہے نہ اس میں زیادتی کی جائے گی اور نہ کمی اور یمفوضہ فرقہ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ انہوں نے بہت سی روایات گھڑیں اور اذان میں محمد و آل محمد خیر البریہ دو مرتبہ کہنے کیلئے بڑھا دئیے اور انکی بعض روایات میں اشھد ان محمدا رسول اللہ کے بعد اشھد ان علیہ ولی اللہ دو دفعہ ذکر کیا گیا ۔ ان مفوضہ میں سے بعض نے ان الفاظ کی بجائے یہ افلاظ روایت کیے ہیں اشھد ان امیر المومنین حقا یہ بات یقینی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، اللہ کے ولی اور سچے امیر المؤ منین ہیں اور محمد و آل محمد خیر البریہ ہیں لیکن یہ الفاظ اصل اذان میں نہیں ہیں ۔ میں نے یہ الفاظ اس لئے ذکر کیے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ہو لوگ پہچانے جائیں جو مفوضہ ہونے کی اپنے اور تہمت لئے ہوئے ہیں ۔ اس کے ابوجود اپنےا ور آپ کے اہل تشیع میں شمار کرتے ہیں ''۔ انتھی ابن بابویہ قمی شیعہ محدث کی اس صراحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اشھد ان علیہا ولی اللہ وغیرہ کلمات اصل اذان کے کلمے نہیں بلکہ اس لعنتی فرقہ مفوضہ نے یہ گھڑے ہیں اور اذان میں داخل کر دئیے ہیں ۔ ائمہ محدثین کے ہاں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ الفقیہ من لا یحضرہ الفقیہ ص ۱/۱۸۸کے حاشیہ میں مفوضہ فرقے کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
" فرقة ضالة قالت بأن الله خلق محمدا وفوض إليه خلق الدنيا فهو الخلاق و قيل بل ذالك إلى على عليه السلام" '' مفوضہ ایک گرماہ فرقہ ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ اس کے بعد دنیا کی پیدائش کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پسرد کر دیا لہٰذ آپ ہی خلاق ( بہت زیادہ پیدا کرنے والے ) ہوئے اور ان کے عقائد میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا ''۔
مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ مفوضہ ایک لعنتی فرقی ہے ۔ اس نے یہ کلمات اذان میں بڑھائے ہیں ۔ سنت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ شیعہ مذہب کی معتبر کتاب لامبسوط۱/۹۹ ط تہران لابی جعفر بن محمد حسن الطوسی میں لکھا ہے کہ :
'' بہر حال اذان میں أشھد ان علینا امیر المؤ منین وال محمد خیر البريه کہناجیسا کہ شاذروایات میں آیا ہے ان کے کہنے پر کوئی کار بند نہیں ہے اور اگر کوئی شخص اذان میں یہ کلمات کہے تو وہ گنا ہگار ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ کلمات اذان کی فضیلت اور کمال میں سے نہیں ہیں ''۔
اس طرح شیعہ مذہب کی معتبر کتاب اللمعۃ المدمشقیہ۱/۲۴۰ پر لکھا ہے:'' مذکورہ اذان ( جو کہ اہل سنت کے مطابق ہے ) یہی شرع میں منقول ہے۔ اس کے علاوہ زائد کلمات کا شروع طور پر درست سمجھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ اذان کے اندر ہوں یا اقامت میں ۔ جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کی گوہای کے الفاظ اور محمد و آل محمد کے خیر البریہ یا خیر البشر ہونے کے الفاظ ہیں ۔ اگر چہ جو کچھ ان الفاظ میں کہا گیا ہے ، وہ واقعی درست ہے( یعنی سدینا علی رضی اللہ عنہ کا ولی اللہ ہون ااور محمد و آل محمد کا بہترین مخلوق ہوان ) لیکن ہر وہ بات جو واقعتا درست اور حق ہو ، اسے ایسی عبادات میں داخل کر لینا جو شرعی و ظیفہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حدبندی کی گئی ہو ، جا زنہیں ہو جاتا ہے۔ لہٰذان کلمات کا اذان میں کہنا بدعت ہے اور ایک نئی شریعت بنانا ہے ''۔
اسی طرح شیعہ کی کتاب فقہ امام جعفر صادق لمحمد جوادا ۱/۱۶۶ط ایران میں لکھا ہےـ:
'' تمام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اشھد ان علیا ولی اللہ کلما اذان اور اس کے اجزاء میں سے نہیں ہے اور اس پر بھی کہ جو شخص ان الفاظ کو اس نیت سے کہتا ہے کہ یہ بھی اذان میں شامل ہیں تو اس نے دین میں بکالی اور وہ بات دین میں داخل کر دی جو اس سے خارج تھی ''۔
اس طرح شیعہ محدث و مفسر شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی نے اپنے فتاوی النھایہ فی مجرد النفقہ و الفتاوی ص ٦٩ ط قم ایران میں لکھا ہے: