سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاءوک فاستغفروا اللہ واستغفرلہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما آیت کی وضاحت

  • 1461
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4694

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن پاک میں ارشاد اللہ عزوجل ہے ۔ اور اگر جب اپنی جانوں پر ظلم کریں توتیرے حضور حاضر ہوں پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش چاہیں اور معافی مانگے ان کے لیے رسول اللہﷺ تو بے شک اللہ عزوجل تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل قادر تھا گناہ بخش دے مگر ارشاد ہوتا ہے کہ توبہ قبول ہونا چاہو تو میرے پیارے کی سرکار میں حاضر ہو ۔

(۱) کیا یہ حکم اللہ عزوجل خاص دور نبویﷺ تک محدود تھا یا قیامت تک کے مسلمانوں کو عام ہے ؟ اگر عام ہے تو پھر جو قبر انور پر حاضر ہو کر آپﷺ کو مخاطب کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہے یہ جانتے ہوئے کہ میرے آقا میرے لیے اللہ عزوجل سے میرے گناہوں کی دعا کر رہے ہیں ۔

ایسا عقیدہ رکھنا شرک ہے یا قرآن پر عمل کر رہا ہے جو مجبوراً دور دراز ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا وہ کیسے اپنے گناہوں کی تلافی کرے ۔

(۲) کیا رسول اللہﷺ اپنی قبر میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں نماز پڑھتے اور رزق کھاتے ہیں؟

(۳) کیا رسول اللہﷺکی قبر انور کی زیارت محض قبر انور کی زیارت کے لیے کسی اور مقصد کے لیے نہیں شرک ہے یا باعث برکت قبر انور کی زیارت کرنے والے کو کیا شرف حاصل ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

(۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہما رسول اللہﷺ کی زندگی میں آپﷺ سے وقتا فوقتا اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعا کرواتے رہے مگر میرے علم میں نہیں کہ رسول اللہﷺ کے کسی ایک بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ سے اپنے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کوئی دعا کروائی ہو ۔ اس آیت کی تفصیلی تفسیر کی خاطر مولانا محمد بشیر صاحب سہسوانی کی کتاب ’’صیانة الإنسان‘‘  کا مطالعہ فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :

﴿إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ﴾--الزمر53

نیز فرمایا

﴿وَمَن يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ﴾--آل عمران135

مزید فرمایا

﴿وَهُوَ ٱلَّذِي يَقۡبَلُ ٱلتَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهِۦ وَيَعۡفُواْ عَنِ ٱلسَّيِّ‍َٔاتِ وَيَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُونَ﴾--شوري25

’’اور وہی ہے جو قبول کرتا ہے توبہ اپنے بندوں کی اور معاف کرتا ہے برائیاں اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو‘‘

لہٰذا انسان اپنے گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے مانگے اور اسی کی بارگاہ میں توبہ کرے

﴿فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَٱسۡتَغۡفِرۡهُۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابَۢا﴾--النصر3

’’تو پاکی بول اپنے رب کی خوبیاں اور گناہ بخشوا اس سے بے شک وہ معاف کرنے والا ہے‘‘

(۲)  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :

﴿إِنَّكَ مَيِّتٞ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾--الزمر30

’’بے شک تجھے (اے نبیﷺ) بھی مرنا ہے اور وہ بھی مر جائیں گے‘‘

اس لیے رسول اللہﷺاور دیگراں کی قبروں میں زندگی دنیاوی نہیں۔ موسیٰﷺکے قبر میں نماز پڑھنے اور

﴿بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ﴾--آل عمران169

سے قبر کی زندگی کے دنیاوی ہونے پر استدلال درست نہیں ۔

(۳) مدینہ منورہ میں رہنے والے رسول اللہﷺ کی قبر اور مقبرۃ البقیع کی زیارت کر سکتے ہیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قبروں کی زیارت آخرت یاد دلاتی ہے البتہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ رخت سفر باندھ کر جانے سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے وہ تین مسجدیں یہ ہیں ۔ مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

عقائد کا بیان ج1ص 47

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ