اﷲ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دْنیا میں جا کر یہ کام کے گا ۔ نیک بخت ہوگا یا بد بخت ‘جنتی ہوگا یا جہنمی ۔تو ہمار ا کیا قصور ہے جب کوئی کسی کے مقدر میںلکھا ہے تو اْسے پھر سزا کیوں دی جائے گی؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔
مسئلئہ تقدیر اِن مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص کرنا شرعاً منع ہے کیو نکہ اِس کے متعلق بحث وتکرار سے اَجر کی محرومی ‘بد عملی اور ضلالت کے سوا کچھ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :
’’آپؐ اپنے اصحاب پر اِس حالت میں نکلے کہ وہ مسئلئہ تقدیر پر بحث کر رہے تھے ، آپؐ یہ دیکھ کر اِس قدر غْصّے میں آگئے معلوم ہوتا تھا کہ آپؐ کے چہرے پہ انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اِس کا حکم دیئے گئے ہو یا تم اِس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟ اﷲکے قرآن کی بعض کے سا تھ ٹکراتے ہو ؟ اِسی وجہ سے پہلی اْمتیں ہلاک ہوگئیں۔‘‘(ابن ماجہ (۸۵) ۱/ ۲۳ مصنف عبدالرزاق (۶۰۳۲۷) ۱۱ / ۲۱۶' مسند احمد ۲ / ۱۷۸'۱۸۵'۱۹۵)
اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر وشر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چا ہے اختیار کر لے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ہم نے اْس کو راستہ دکھادیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا نا شکرا۔‘‘(الدھر : ۳)
ایک اور مقام پر فرمایا:
’’ہم نے اْسے دونوں راستے دکھا دیئے۔‘‘(البلد : ۱۰)
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھادئیے ہیں اور اْسے عقل و شعور دیا ہے کہ اپنے لیے اِن دونوں راستوں میں سے جو صحیح راستہ ہے اختیار کرلے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیروبرکت والے راستے کو ا ختیار کرے گا جہنم کے درد ناک عزاب سے اپنے آپ کو بچالے گا اور اگر راہِ راست کو ترک کرکے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہوگا تو جہنم کی آگ میں داخل ہوگا ۔ اﷲتعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اْس نے اپنے عِلم کی بنیاد پر لتھی کیونکہ اﷲتعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اْس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ کیا کرے گا ؟ اْس کا انجام کیا ہوگا ؟ اِس لیے اپنے عِلم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اْس کا عِلم و اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اْس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اْس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسروے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اﷲ کے کمالِ عِلم واحاطئہ کلی کا ذکر ہے۔ اِس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اْس نے اِن لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔