: کسی بزرگ کے مزار پر جا کر یہ کہنا کہ اے فلاں بزرگ ہماری یہ حاجت پوری کردو۔ یا بزرگ کی قبر پر جا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے یہ دْعا فرمائیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کرکے عند اﷲماجور ہوں۔
اﷲتعالیٰ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ ایسی اشیاء کے حصول کے لیے جو مخلوق کے اِختیار میں نہیں ہیں‘ مخلوق کے کسی فرد کو پکارنا شرک ہے اور پھر مْردے کو جو نہ سْن سکتا ہے اور نہ جواب دے سکتا ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ اور اﷲ کے سوا کسی مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا اور نہ نقصان ۔اگر تْونے یہ کام کیا توظالموںمیں شمار ہوگا ۔‘‘(یونس : ۱۰۶)
اِس آیت میں اﷲتعالیٰ نے منع فر ما یا ہے کوئی غیر اﷲ کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارے اور اﷲتعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اﷲ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔اﷲفرماتے ہیں:
’’ اگر اﷲ تعا لیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کردے تو اْس مصیبت کو دور کرنے والا اﷲ کے سوا کوئی نہیں۔‘‘(یونس : ۱۰۷)
صحیح حدیث ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہہ کو کہا :
’’جان لو کہ اگر ساری اْمت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے اور اگر اﷲنہ چاہے تو نفع نہیں پہنچا سکتی۔‘‘(متفق علیہ)
قرآ ن میں ایک جگہ ہے :
’’ بے شک جن لوگوں کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ‘وہ تمہارے لیے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ پس تم اﷲ کے ہاں رزق مانگو اور اْس کی عبادت کرو۔‘‘(العنکبوت : ۱۷)
ایک اور جگہ پر اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اور ایسے لوگوں سے کون زیادہ گمراہ ہیں جو اﷲتعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک اْن کی دْعا قبول نہ کر سکیں بلکہ اْن کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ اْن کے دشمن ہو جائیں گے اور اْن کی عبادت سے انکار کر دیں گے۔‘‘(الاحقاف ۵ : ۶)
اِس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ غیر اﷲ کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اْن کی عبادت ہے حالانکہ انسان صرف اﷲ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
’’کہ مضطر (بے بس)شخص کی دْعا قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اﷲکے سوا کون ہے۔‘‘(النمل : ۶۲)
یہ چند دلیلیں ہیں ورنہ اِس کے بیان کے لیے قرآن میں کئی ایک نصوص موجود ہیں جن کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل اﷲ کے سوا کسی کو حاجت روا اورمشکل کشا نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے کہ مشرکینِ مَکّہ بھی اِس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ قرآنِ مجید میں کئی مقا مات پر اﷲ تعالیٰ نے اْن کے اِس اعتراف کا ذکر کیا ہے ۔ اگر کسی بزرگ کی قبر پر جا کر حاجت روائی کے لیے پکارنا درست ہوتا تو اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بزرگ دْنیا میں کون ہوسکتا تھا؟ حال یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قبر جا کر کسی حاجت کے لیے کبھی نہیں پکارا اگر یہ کام جائز ہوتا تو صحابہ خصوصاً خلفائِ راشدینرضی اللہ عنہما کو اپنے دور میں بڑی بڑی ضرورتوں اور مصائب کا سا منا وہ ضرور اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آتے۔بالکل اِسی طرح دْعا کا مسئلہ ہے ۔ ان جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی نے بھی اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آکر یہ نہیں کہا کہ آ پؐ ہمارے لیے دْعا کر دیں ۔ ہاں ! زندگی میں جو واقعتا بزرگ ہو اْس سے دْعا کروانی درست ہے اور میں بھی بزرگ سے نہیں مانگا جاتا بلکہ اْس سے عرض کی جاتی ہے کہ وہ اﷲسے ہماری بہتری کے لیے دعْا کرے ۔