مندرجہ ذیل مسائل میں شریعت اسلامی کا کیا حکم ہے:
۱۔ نماز باجماعت کے بعد نبیﷺ پر بلند آواز سے دورد پڑھنا؟
۲۔ نماز کے بعد باجماعت دعا کرنا ؟
۳۔ کچھ لوگوں کا مل کر قرآن پڑھنا گانا؟
۴۔ نابینا معمر امام کے پیچھے نماز پڑھنا ،ج کہ وہ کبھی کبھی غلطی بھی کر جاتا ہے؟۔ نبیﷺ پر دورد پڑھنے کا بہت عظیم ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حکم دیا ہے اور نبیﷺ نے اس کی ترغیب دی ہے او ر بتایا ہے کہ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے ۔ ثواب ہے چنانچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص مجھ پر ایک بار دورد پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں ۔‘‘ 1
نبیﷺ کا نام ذکر کرنے پر نماز میں تشہد کے دوران ، خطبہ اور خطبہ ، نکاح وغیرہ میں دورد پڑھنا شرعی طور پر ضروری ہے لیکن نبیﷺ سے یا صحابہ کرام e سے یا ائمہل سلف امام ابو حنفیہ ، اما لیث بن سعد ، امام شافعی امام احمد بن حنبل اوردیگر آئمہ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ نماز باجماعت کے بعد بلند آواز سے دورد پڑھتی ہوں اور بھلائی تو نبی کریمﷺ ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کے اسوہ پر عمل کرنے میں ہی ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
۲۔ دعا عبادت ہے ، لیکن نبیﷺیا خلفائے راشدین یا دیگر صحابہ کرام سے یہ ثابت نہیں کہ وہ (ہر ) نماز بعد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
!مسند احمد ج: ۲، ص: ۲۶۵،۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۳۸۴، ۴۰۸، ابودائود حدیث نمبر ۱۵۳۰، نسائی ج: ۳، ص: ۵۰ ترمذی حدیث نمبر: ۴۸۵، دارمی حدیث نمبر: ۲۷۷۵، ابن خزیمہ ج: ۱، ص: ۲۱۹۔
باجماعت دعا مانگتے ہوں ۔ لہٰذا اسلام پھیرنے کے بعد نمازیوں کا باجماعت دعا کے لیے جمع ہونا خود ساختہ بدعت ہے اور نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیاجو ہمارے دین کے مطابق نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
۳۔ اگر مل کرقرآن پڑھنے سے آپ کا یہ مطلب ہے کہ سب مل کر بیک آواز تلاوت کریں تویہ مشروع نہیں۔ کیونکہ یہ عمل نبیﷺ یا صحابہ کرام سے نقول نہیں اگر سائل کا یہ مطلب ہے کہ ایک آدمی قرآن پڑھے اور دوسرے سنیں ، یا یہ مطلب ہے کہ ایک جگہ جو لوگ جمع ہیں ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی تلاوت کرے اوریہ کوشش نہ کریں کہ حرکات وسکنات اور وقف ووصل وغیرہ میں ان کی آوازیں ہم آہنگ ہوں تو یہ شرعی طورپر درست ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جب کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھتے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں ، تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ ان کو فرشتے ہیں ، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان (فرشتوں ) میں ان کا ذکر کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودﷺ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا’’ مجھے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے قرآن سنائو۔‘‘ میں نے عرض ک۔’’ (حضور!) میں آپ کو سنائوں حالانکہ آپﷺ پر وہ نازل ہوا ہے؟ ارشاد ’’ میں کسی سے سننا پسند کرتاہوں۔‘‘ میں سورت نساء پڑھنے لگا۔ جب میں آیت پر پہنچا:
’’ اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ بناکے لائیں گے؟‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ بس کرو۔ (میں نے دیکھا ) آپﷺ کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔‘‘ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے۔
۴۔ نابینا امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر یہ امام اپنے مقتویوں سے زیادہ قرآن پڑھنے والا (حافظ یا عالم) ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہوگا۔ کیونکہ نبی a کا یہ فرمان عام ہے۔
’’ لوگوں کو وہ شخص نماز پڑھائے جو کتاب اللہ کو زیادہ جانتا ہو…‘‘
نابینا ہونا شرعا کوئی عیب نہیں ہے۔
اگر امام غلطیاں کرتاہے، اگر تو یہ غلطی ایسی ہے جس سے معنی میں تبدیلی نہیں آتی ، تو اس قسم کی غلطیاں نہ کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے اگر ایسا آسانی سے ہو سکے اور اگر وہ سورت فاتحہ میں اس قسم کی غلطیاں کرتاہو جس سے معنی میں تبدیلی آجاتی ہے تو اس کے پیچھے نماز باطل ہے لیکن اس کی وجہ اس کی غلطیاں ہونا ہیں، اس کا نابینا ہونا نہیں مثلا ایاک نعبد میں ’’کاف‘‘ پر زیر پڑھنا۔یا انعمت کی ’’ تاء ‘‘ پر پیش یا زبر پڑھنا۔ اگر غلطیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ حفظ کمز ور ہے تو جس کو قرآن زیادہ اچھی طرح یاد ہے وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے۔